پاکستان میں اس وقت ایک لاکھ بچے تھیلیسیمیا کا شکار ہیں ان بچوں کو فریش بلڈ لگایا جاتا ہے، اگر لاک ڈاؤن ختم نہیں ہوتا تو یہ بچے خدانخواستہ دنیا میں نہیں رہیں گے‘ چناں چہ یہ بچے اب کیا کریں گے؟ دوسرا سوال یہ بچے کس کی ذمہ داری ہیں؟ کیا یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں ہیں؟

3  اپریل‬‮  2020

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’اوئے مختاریا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔تھیلیسیمیا دنیا کے خوف ناک ترین امراض میں شامل ہے‘ یہ مرض اللہ جس کو لگا دے اس بے چارے کی زندگی پھر زندگی نہیں رہتی‘ تھیلیسیمیا کے مریض عموماً بچے ہوتے ہیں‘ یہ دوسروں کے خون کے محتاج ہوتے ہیں‘ مہینے میں انہیں کم از کم خون کی چار بوتلیں لگتی ہیں اور خون کہاں سے آتا ہے؟ ڈونرز دیتے ہیں‘

این جی اوز یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جاتی ہیں‘ لوگوں سے خون کی اپیل کرتی ہیں‘ خون جمع ہوتا ہے اور سکریننگ کے بعد مریض بچوں کو لگا دیا جاتا ہے۔ بچوں کو اگر خون نہ ملے تو بے چارے سسک سسک کر مر جاتے ہیں‘ پاکستان میں اس وقت ایک لاکھ بچے تھیلیسیمیا کا شکار ہیں‘ یہ بری طرح دوسروں کے خون کے محتاجہیں‘ تھیلیسیمیاکے بچے نوول کرونا کا پہلا شکار ثابت ہوئے‘ ملک میں لاک ڈاؤن ہوااور سوسائٹی کا سائیکل ٹوٹ گیا‘ خون دینے اور خون جمع کرنے والے دونوں گھروں میں محصور ہو گئے چناں چہ لاکھ بچے سسکنے لگے‘ بچوں کے لواحقین اس وقت حکومت‘ این جی اوز اور عام لوگوں کی منتیں کر رہے ہیں لیکن ان کے لیے خون کا بندوبست نہیں ہو رہا‘ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں تھیلیسیمیا کے بچوں کو فریش بلڈ لگایا جاتا ہے‘ لوگ خون دیتے ہیں اوریہ خون بچوں کو لگا دیا جاتا ہے‘ لاک ڈاؤن میں ظاہر ہے یہ ممکن نہیں رہتا چناں چہ اللہ رحم کرے ہم کرونا کے ہاتھوں بچ پاتے ہیں یا نہیں لیکن یہ طے ہے اگر لاک ڈاؤن ختم نہیں ہوتا تو یہ بچے خدانخواستہ دنیا میں نہیں رہیں گے‘ تھیلیسیمیا کی ادویات بھی مارکیٹ سے ختم ہو چکی ہیں‘ یہ بیرون ملک سے آتی ہیں اور فضائی اور زمینی راستوں کی بندش کی وجہ سے سپلائی چین ٹوٹ چکی ہے چناں چہ یہ بچے اب کیا کریں گے؟ دوسرا سوال یہ بچے کس کی ذمہ داری ہیں؟ کیا یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں ہیں؟ میں سو فیصد ریاست کو ذمہ دار سمجھتا ہوں‘ ریاست نے کبھی ان بچوں کو اپنا بچہ نہیں سمجھا‘ حکومت نے آج تک ان کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی تھی۔میری حکومت سے درخواست ہے یہ تھیلیسیمیا کے مریضوں کو کسی محکمے کے حوالے کر دے‘ یہ بے شک انہیں پاکستان کرکٹ بورڈ کی جھولی میں ڈال دے‘ کرکٹ بورڈ ہی ان کے لیے کوئی پالیسی بنا دے‘ یہ ان کے لیے خون کی سپلائی چین بنا دے‘ یہ والنٹیئرز ڈاکٹر لے اور ایس او پیز بنا دے تاکہ ملک میں اگر مستقبل میں کبھی کرفیو لگے گا یا لاک ڈاؤن ہو تو بھی ان بچوں تک فریش خون پہنچتا رہے گا‘ خواہ یہ وزیراعظم کے طیارے کے ذریعے بھجوایاجائے یا پھر چیف جسٹس آف پاکستان کی گاڑی میں لیکن تھیلیسیمیا کا کوئی بچہ خون کی کمی کا شکار نہیں ہوناچاہیے‘ ہم اگر کرونا کے اس لاک ڈاؤن کے دوران یہ ہی سیکھ لیں تو کمال ہو جائے گا‘ کرونا ہمیں کچھ نہ کچھ سکھا کر ہی جائے گا۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…