صادق سنجرانی کیخلاف تحریک عدم اعتمادکیسے ناکام ہوئی؟،104سینیٹرز میں سے 100اراکین نے ووٹ کاسٹ کئے، حیرت انگیز تفصیلات منظر عام پر آگئیں 

1  اگست‬‮  2019

اسلام آباد (این این آئی) چیئر مین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے 104سینیٹرز میں سے 100اراکین نے ووٹ کاسٹ کئے۔ تفصیلات کے مطابق جمعرات کو چیئر مین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی،سینیٹر حافظ عبدالکریم نے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے پہلا ووٹ کاسٹ کیا اور 104 سینیٹرز میں سے 100 اراکین نے ووٹ کاسٹ کیے۔

جماعت اسلامی کے دو اراکین نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ (ن)لیگ کے چوہدری تنویر نے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور اسحاق ڈار نے تاحال سینیٹ کا حلف ہی نہیں اٹھایا۔چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو تبدیل کرنے کی اپوزیشن اور ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی تبدیلی کی حکومتی کوششیں ناکام ہوگئیں جس کے بعد صادق سنجرانی چیئر مین اور سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئر مین سینیٹ کے عہدے پر برقرار رہیں گے، چیئرمین سینٹ کے خلاف قرارداد پر ووٹنگ کے دور ان میر حاصل بزنجو نے 50اور صادق سنجرانی نے 45ووٹ حاصل کئے، پانچ ووٹ مسترد ہوگئے، جماعت اسلامی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، چوہدری تنویر بیرون ملک ہونے کی وجہ سے ووٹ کاسٹ نہ کر سکے، اسحاق ڈار نے حلف ہی نہیں اٹھایا،چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد حکومتی اراکین نے ڈیسک بجا کر ایک دوسرے کو مبارکباد دی اور حکومتی اراکین کی جانب سے ایک سنجرانی سب پر بھاری کے نعرے لگائے گئے۔ جمعرات کو سینیٹ کی تاریخ میں پہلی بار چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو عہدے سے ہٹانے کی قرارداد پر رائے شماری ہوئی،ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے پولنگ ایجنٹس کے سامنے ووٹوں کی گنتی کی گئی۔پریزائیڈنگ افسر بیرسٹر سیف نے ووٹوں کی گنتی کے بعد اعلان کیا کہ آئین کے مطابق قرارداد کے حق میں 50 ووٹ پڑے جس کی وجہ سے یہ قرارداد متعلقہ ایک چوتھائی ووٹ نہ ملنے کی وجہ سے مسترد کی جاتی ہے،

تحریک عدم اعتماد کی مخالفت میں 45 ووٹ پڑے جبکہ 5 ووٹ مسترد ہوئے۔چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد حکومتی اراکین نے ڈیسک بجا کر ایک دوسرے کو مبارکباد دی اور حکومتی اراکین کی جانب سے ایک سنجرانی سب پر بھاری کے نعرے لگائے گئے۔ قبل ازیں سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجا ظفر الحق نے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد پیش کی جس کی تصدیق کیلئے ووٹنگ کرائی گئی اور 64 اراکین نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر راجا ظفر الحق کی قرارداد کی حمایت کی۔

اراکین کی جانب سے قراداد کی حمایت کے بعد پریزائیڈنگ افسر نے اراکین کو تحریک عدم اعتماد کے لیے ووٹنگ کے طریقہ کار سے آگاہ کیا۔اپوزیشن کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر جاوید عباسی اور حکومت کی جانب سے نعمان وزیر کو پولنگ ایجنٹ مقرر کیا گیا،سینیٹر حافظ عبدالکریم نے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے پہلا ووٹ کاسٹ کیا اور 104 سینیٹرز میں سے 100 اراکین نے ووٹ کاسٹ کیے۔جماعت اسلامی کے دو اراکین نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ ن لیگ کے چوہدری تنویر نے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا

اور اسحاق ڈار نے تاحال سینیٹ کا حلف ہی نہیں اٹھایا ہے۔جماعت اسلامی کی جانب سے ووٹنگ کے عمل پر غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کرنے کے بعد اس کے دو سینیٹرز بھی ایوان میں تشریف نہیں لائے۔ووٹنگ کے آغاز سے قبل پریزائیڈنگ افسر بیرسٹر سیف نے تمام سینیٹرز کو ووٹنگ کے طریقہ کار اور ضابطہ اخلاق سے آگاہ کیا۔دوسری جانب حکومتی سینیٹر شبلی فراز کی جانب سے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں قرارداد پیش کی گئی جسے منظور کرلیا گیا،قرارداد کی منظوری کے بعد پریزائڈنگ افسر نے تمام سینیٹرز کو ایک مرتبہ پھر ووٹنگ کا طریقہ کار بتایا جس کے بعد ووٹنگ کے عمل کا آغاز کردیا گیا۔

بعد ازاں اعلان کیا گیا کہ ڈپٹی چیئرمین کیخلاف حکومتی تحریک عدم اعتماد کے حق میں 32 ووٹ کاسٹ ہوئے۔نتائج کے مطابق اپوزیشن اور حکومت کے کل 32 اراکین  نے حق رائے دہی استعمال کیا،تحریک کے حق میں مطلوبہ ووٹ حاصل نہیں کیے جا سکے،اپوزیشن کی جانب سے پانچ اراکین نے حق رائے دہی استعمال کیا،پیپلز پارٹی کی جانب سے روبینہ خالد،سلیم مانڈوی والا محمد علی جاموٹ اور قراۃ العین مری نے ووٹ ڈالا،(ن)لیگ کی جانب سے ساجد میر نے اپنا حق رائے رہی استعمال کیا،(ن)لیگ کے چوہدری تنویر، جماعت اسلامی کے سراج الحق اور مشتاق احمد نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔بعد ازاں سینیٹ کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔

اجلاس کے دوران وزیر دفاع پرویز خٹک، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال، سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف، اے این پی رہنما میاں افتخار حسین سمیت دیگر اراکین بھی ایوان میں موجود تھے۔واضح رہے کہ سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایوان میں 30 اراکین کے ساتھ اکثریت ہے، پی پی پی 20 اور پی ٹی آئی 17 اراکین کے ساتھ بالترتیب دوسری اور تیسری پوزیشن پر ہیں جس کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے 11، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے 6، نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کے 5، 5 پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے 2، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے پاس ایک، ایک رکن ہے،

اس کے علاوہ 5 اراکین آزاد حیثیت میں موجود ہیں۔یاد رہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے نمبرز گیم کی جنگ سے قبل سیاسی گرما گرمی عروج پر رہی اور دونوں جانب سے عددی اکثریت کا دعویٰ کیا جاتا رہااس سیاسی گرما گرمی میں دونوں جانب سے عددی اکثریت ظاہر کرنے کیلئے سینیٹ ارکان کی میٹنگز، کارنر میٹنگز، ناشتے، ظہرانے اور عشائیے رکھے گئے،اپوزیشن نے صادق سنجرانی کی جگہ میر حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ کا امیدوار نامزد کیا تھا۔خیال رہے کہ قرارداد کے متن میں کہا گیا تھا کہ صادق سنجرانی بطور چیئرمین سینیٹ اکثریت کا اعتماد کھوچکے ہیں اس موقع پر پریزائڈنگ افسر کی اجازت پر بات کرتے ہوئے راجہ ظفر الحق نے کہا کہ رولز میں قرارداد پر بحث کی گنجائش موجود ہے تاہم ہم بحث نہیں کریں گے اور ایوان کے ماحول کو پرامن رکھنا چاہتے ہیں،

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…