حمزہ شہباز کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں ،حمزہ شہباز کو کیسے روکا گیا؟ حکومتی عہدیدار نے ہی حیران کن انکشاف کر دیا

12  دسمبر‬‮  2018

اسلام آباد(آئی این پی)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ طارق سردار نے انکشاف کیا کہ حمزہ شہباز کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں ہے، ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ نے کمیٹی کو بتایا کہ ای سی ایل کے علاوہ ایک اور پی این آئی ایل لسٹ بھی ہے ، خفیہ ادارے کسی شخص کا نام پی این آئی ایل میں ڈلوا سکتے ہیں، وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ ای سی ایل کے علاوہ بھی کئی لسٹیں بنی ہیں جو کہ خفیہ ہیں،ڈی جی ایف آئی اے سے

ای سی ایل پالیسی کے حوالے سے وضاحت لینی چاہیے،جمہوریت میں جبری گمشدگیوں کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے،معاملے پر تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ مشاورت کے بعد قانون لیکر آئیں گے، موجودہ حکومت کا عزم ہے کہ جبری گمشدگیوں کا معاملہ ختم کرنا ہوگا، جس نے جرم کیا ہے اس کو قانون کے تحت سزا دیں لیکن جبری گمشدگیاں قابل قبول نہیں ہیں،حکومت عدم تشدد اور جبری گمشدگیاں روکنے کیلئے قانون سازی کرے گی، سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت سول مارشل لاء لگا ہوا ہے ، شہریوں کی بنیادی حقوق سلب کر لیے گئے ہیں،ملک میں ایمرجنسی کی صورتحال ہے،اس سب کیلئے پی ٹی آئی کی حکومت کو آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے،مشرف پر غداری کے تحت آرٹیکل6کا مقدمہ درج ہے لیکن کوئی ادارے اس کے احتساب کی بات نہیں کرتا۔بدھ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔اجلاس میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری،عثمان خان کاکڑ، سینیٹر عائشہ رضا فاروق، سینیٹر کیشو بائی، ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ اور دیگر حکام نے شرکت کی۔کمیٹی میں سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کے انسداد تشدد بل پر غور کیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ عدم تشدد کا بل 2015میں سینیٹ سے پاس ہوا

لیکن قومی اسمبلی سے منظور نہیں ہو سکا۔ پاکستان میں عدم تشدد بل کی بہت ضرورت ہے۔پاکستان میں زیرحراست افراد پر بدترین تشدد کیا جاتا ہے جس کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔اس موقع پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ حکومت نے اس بل کو دوبارہ اٹھایا ہے اور اس میں ضروری ترامیم کر کے اس کو کابینہ سے منظور کرا کر قومی اسمبلی پیش کریں گے۔قومی اسمبلیوں کی کمیٹیوں کے معاملے پر مذاکرات جاری ہیں جلد قومی اسمبلی کی کمیٹیاں بھی تشکیل پا جائیں گی۔

جی ایس پی پلس سٹیٹس اور بین الاقوامی انسانی معائدوں کی توثیق کے بل عدم تشدد بل کی منظوری بہت ضروری ہے۔کمیٹی نے ایک ماہ کے اندر بل کو مکمل کر کے قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔کمیٹی اجلاس میں ایگزٹ کنٹرول لسٹ(ای سی ایل) میں نال شامل کروانے کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ای سی ایل میں نام شامل کرنے کے حوالے سے بہت سی بے ضابطگیاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔ایم این اے محسن داوڑ اور

علی وزیر کا نام بغیر کسی نوٹس کے ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔ عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے روکا جا رہا ہے۔گزشتہ روز اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز کو بھی جہاز سے آف لوڈ کر دیا گیا اور بتایا گیا کہ ان کا نام ای سی ایل میں شامل ہے۔ اس حوالے سے وضاحت کی ضرورت ہے۔اس موقع پر ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ طارق سردار نے کمیٹی کو بتایا کہ حمزہ شہباز کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں ہے۔اس پر کمیٹی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں تھا تو

ان کو سفر کرنے سے کیوں روکا گیا۔ ایڈیشنل سیکرٹری نے کہا کہ ای سی ایل کے علاوہ ایک اور لسٹ بھی ہے جس کو پی این آئی ایل کہا جاتا ہے جس کو ڈی جی ایف آئی اے بناتے ہیں۔ خفیہ ادارے کسی شخص کا نام پی این آئی ایل میں ڈلوا سکتے ہیں۔ایم این اے محسن داوڑ نے کہا کہ پہلے خفیہ ادارے نام ای سی ایل میں ڈلواتے تو ان پر تنقید کی جاتی تھی اس سے بچنے کیلئے اب پہلے چھوٹی ایف آئی آر درج کی جاتی ہے اور اس کے تحت نام ای سی ایل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ شیریں مزاری نے کمیٹی کو بتایا کہ

محسن داوڑ کا نام ای سی ایل میں نہیں تھا۔ ای سی ایل کے علاوہ بھی کئی لسٹیں بنی ہیں جو کہ خفیہ ہیں۔اس پر سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ ایف آئی اے قانون اور آئین کے نہیں بلکہ خفیہ ایجنسی کے تابع بنی ہوئی ہے۔پاکستان میں اس وقت سول مارشل لاء لگا ہوا ہے اور شہریوں کی بنیادی حقوق سلب کر لیے گئے ہیں۔ملک میں ایمرجنسی کی صورتحال ہے۔اس سب کیلئے پی ٹی آئی کی حکومت کو آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔مشرف پر غداری کے تحت آرٹیکل6کا مقدمہ درج ہے

لیکن کوئی ادارے اس کے احتساب کی بات نہیں کرتا ۔شیریں مزاری نے کہا کہ ای سی ایل قانون پر مزید وضاحت کی ضرورت ہے۔ اس پر کمیٹی نے آئندہ سوموار کو ڈی جی ایف آئی اے ، آئی جی خیبر پختونخو ااور دیگر متعلقہ افسران کو کمیٹی میں طلب کر لیا۔کمیٹی اجلاس میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ بھی زیر غور آیا ۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ جبری گمشدگیوں پر خاطر خواہ کام نہیں کر سکے۔جبری گمشدگیوں کے معاملے پر پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہو رہی ہے۔اس کیلئے قانون بنانے کی ضرورت ہے۔ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ جبری گمشدگیوں پر موجودہ حکومت سنجیدہ ہے اور اس کو روکنے کیلئے قانون لے کر آنا چاہتی ہے۔جن خاندانوں کے افراد15سال سے لاپتہ ہیں ان کے لواحقین کو بتایا جانا چاہیے کہ ان کے ساتھ کیا کیا گیا۔جمہوریت میں جبری گمشدگیوں کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔اس معاملے پر تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ مشاورت کے بعد قانون لیکر آئیں گے ۔ موجودہ حکومت کا عزم ہے کہ جبری گمشدگیوں کا معاملہ ختم کرنا ہوگا۔ جس نے جرم کیا ہے اس کو قانون کے تحت سزا دیں لیکن جبری گمشدگیاں قابل قبول نہیں ہیں۔سینیٹر عثمان خام کاکڑ نے کہا کہ جنگل میں بھی کوئی قانون ہوتا ہے لیکن پاکستان میں کوئی قانون نہیں ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ بیوروکریسی اور خفیہ ادارے خود کو آئین کے ماتحت نہیں سمجھتے۔شیریں مزاری نے کمیٹی کو بتایا کہ آئندہ ہفتے بین الوزارت اجلاس بلا رہے ہیں جس میں جبری گمشدگیوں کو روکنے کیلئے بین الاقوامی قانون کی توثیق دیں گے۔



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…