’’ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی یکساں کرپٹ‘‘ وزیراعظم اپنے وزرا کوپابند بنائیں کہ وہ ہر صبح اپنے آپ کو دو تین گالیاں دیںکیونکہ۔۔معروف صحافی نے عمران خان کو حیران کن مشورہ دیدیا

10  اکتوبر‬‮  2018

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی ، تجزیہ کار سلیم صافی اپنی کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ کرپشن کی ایک قسم وہ ہے کہ جس میں کوئی شخص براہ راست رشوت یا کمیشن لیتا اور اپنے یا اپنے خاندان کے اثاثے بڑھاتا ہے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت پر زیادہ تر یہی الزام لگتا ہے ۔ دوسری قسم یہ ہے کہ جس میں کوئی شخص اپنی سیاست یا انتظامی حیثیت کو استعمال کرکے

اپنے لئے حکومتی اداروں سے رعایت لیتااور اپنی دولت میں اضافہ کرتا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر اگرچہ پہلی قسم کا الزام بھی لگتا ہے لیکن زیادہ تر وہ کرپشن کی دوسری قسم کی ملزم ہے ۔ ایک اور قسم جو پی ٹی آئی کی قیادت نے متعارف کرائی ہے ، یہ ہے کہ وہ شخص خود تو رقم نہیں لیتا اور نہ اپنے اثاثے بڑھاتا ہے لیکن ایسے لوگوں کو عہدے دلواتا ہے کہ جو کماتے اور پھر اس شخص یا اس کی جماعت پر خرچ کرتے ہیں ۔ وہ خود تو اپنا ہاتھ صاف رکھتا ہے لیکن اس کی عنایت سے ملے ہوئے اختیار کو استعمال کرکے یا پھراس کے سایہ میں پناہ لے کر، کرپٹ اپنے لئے کماتے اور اس پر یا اس کی پارٹی پر لٹاتے ہیں۔ یوں ملک کی تینوں بڑی جماعتیں یعنی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی یکساں کرپٹ ہیں ۔ فرق ہے تو بس مقدار یا طریق واردات کا فرق ہے ۔ اسی لئے اپنی تو عرصہ دراز سے یہ رائے رہی ہے کہ آصف علی زرداری، میاں نوازشریف اور عمران خان مذکورہ اور کئی دیگر حوالوں سے ایک ہی سکے کے مختلف رخ ہیں تاہم جن کو غلط فہمی تھی ، ان شاء اللہ عنقریب ان کی بھی دور ہوجائے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان جماعتوں کے قائدین کو چوراور ڈاکو کے نام سے مخاطب کرنا مناسب ہے یا نہیں ؟۔ میرے نزدیک نہیں ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ نہ تو ہمارا دین اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ سیاسی اخلاقیات ۔ نوازشریف ہوں، آصف علی زرداری یا عمران خان ،

ہم ان کی غلطیوں کا ذکردلیل اور ثبوت کے ساتھ توکریں گے لیکن انہیں کوئی لقب نہیں دیں گے ۔ ہم لیڈر کی چوری کا ذکر دلیل کے ساتھ کرکے اس کی مذمت کریں گے لیکن چور کے لفظ سے نہیںپکاریں گے ۔ ہم ان کی کرپشن کو دلیل اور ثبوت کے ساتھ بے نقاب کرکے ان کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کریں گے لیکن کسی کو کرپٹ کا ٹائٹل نہیں دیں گے ۔ یہی رہنمائی قرآن وسنت نے ہماری کی ہے ۔

مثلاً قرآن میں اہل کتاب کی مشرکانہ حرکتوں کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے اور اس پر سزا کی وعید بھی سنائی گئی ہے لیکن اللہ نے اہل کتاب کو مشرک یا کافر کے لفظ سے نہیں پکارا ۔ اسی طرح منافقین کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے لیکن جب تک عبداللہ ابن ابی کے بارے میں وحی نازل نہیں ہوئی تھی، حضور نبی کریم ﷺ نے اسے منافق کا ٹائٹل نہیں دیا۔ خاتون اول صاحبہ نے وزیراعظم صاحب

سے ایسے ایسے کام بھی کروادئیے کہ جن کا ان کے بارے میں تصور بھی نہیں کیاجاسکتا تھا لیکن نہ جانے کیوںوہ وزیراعظم صاحب کو دین کے ان واضح احکامات کے بارےمیں نہیں بتاتیںاور اگر وہ بتاتی ہیں تو پھر نہ جانے ان کی ہر بات کے آگے سرتسلیم خم کرنے والے وزیراعظم صاحب اس ضمن میں ان کی ہدایات پر عمل کیوں نہیں کرتے۔جب وزیراعظم عمران خان یا پھر ان کے ترجمان کہتے ہیں

کہ چور کو چور اور ڈاکو کو ڈاکو نہ کہیں تو اور کیا کہیں ،تو بظاہر یہ فقرہ دل کو بہت بھاتا ہے لیکن سیاسی اخلاقیات کے ترازو میں تولا جائے تو اس سے لغو بات کوئی اور ہو نہیں سکتی ۔ ظاہر ہے جس طرح عمران خان صاحب کے چاہنے والے ہیں ، اسی طرح دیگر سیاسی اور مذہبی قائدین کے بھی چاہنے والے لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں ۔ جب آپ کسی لیڈر کو چور، ڈاکویا زانی

جیسے لفظ کے ساتھ پکارتے ہیں تو ان تمام پیروکاروںکے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے ۔ اسی طرح یہ سلسلہ اگر چل نکلے گا تو پھر دور تلک جائے گا اور کہیں نہیں رکے گا ۔ اگر چوری کے ملزم سیاستدان کو چور کہنا اور ڈاکے کے ملزم سیاستدان کو ڈاکو کہنا ضروری ہے تو پھرسنگین غداری کے ملزم پرویز مشرف کو بھی غدار کے نام سے پکارنا ہوگا ۔ ان کے خلاف قتل کے مقدمات بھی چل رہے ہیں

اور پھر ان کے نام کے ساتھ قاتل کا لاحقہ یا سابقہ بھی لگانا ہوگا۔ اسی طرح جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ نے جھوٹ اور غلط بیانی کا مرتکب قرار دیا ہے ۔ پھر توجہانگیر ترین کو جھوٹے اور مکار کا خطاب دینا ہوگا۔ اسی طرح بہت سارے لوگ مروجہ معنوں میں بدکردار مشہور ہیں ، پھر ان کو بھی زانی زانی کہہ کرپکارنا ہوگا۔ پھر شراب نوشی کے ملزموں کو شرابی اور چرس پینے والوں کو چرسی پکارنا ہوگا۔ بدعنوانی کا الزام بابر اعوان پر بھی ہے، پرویز خٹک پر بھی اور خود وزیراعظم کے خلاف بھی نیب میں تحقیقات ہورہی ہیں ۔پھر کیا ان کو بھی ڈاکو کہا جائے گا۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…