کالا باغ ڈیم کی پاکستان میں مخالفت کہاں سے شروع ہوئی؟وہ غلط مفروضہ جس کی وجہ سے پاکستان کا سب سے بڑا ڈیم اور ہائیڈرل منصوبہ سازش کی نظر ہو گیا،جاوید چوہدری کا ایسا انکشاف جوپاکستانی قوم کو سر پیٹنے پر مجبور کر دے

28  ستمبر‬‮  2018

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی ، تجزیہ کار و کالم نگار جاوید چوہدری اپنے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ کالاباغ ہمارے انجینئرز کے سیکھنے کی آخری تجربہ گاہ تھا‘ ہم نے ورلڈ بینک کو پیشکش کی آپ صرف منگلا اور تربیلا بنا دیں کالاباغ ڈیم ہم خود بنا لیں گے چنانچہ امریکی کمپنیاں 1976ءمیں تربیلا ڈیم بنا کر چلی گئیں لیکن آپ بدقسمتی ملاحظہ کیجئے ہم 2018ءتک

کالاباغ نہیں بنا سکے‘ کیوں؟ یہ ایک دکھی داستان ہے اور اس دکھی داستان میں ایک ایسی قوم کا المیہ چھپا ہے دنیا جس کی ترقی کی مثالیں دیا کرتی تھی لیکن پھرہمیں نظر لگ گئی‘ ملک ٹوٹا‘ صدارتی کی جگہ پارلیمانی نظام آیا‘ نالائق‘ مفاد پرست اور کم تعلیم یافتہ لوگ اسمبلیوں میں پہنچے‘ یہ لوگ حکومتوں کو بلیک میل کر کے وزیر بنے اور پھر کرپشن‘ اقرباءپروری اور نالائقی کا بازار گرم ہو گیا‘ حکومت نے کرپشن روکنے کےلئے پلاننگ کمیشن‘ ایف آئی اے‘ اینٹی کرپشن اور نیب جیسے ادارے بنائے‘ غلام فاروق اور غلام اسحاق خان جیسے ایماندار لوگوں کے اختیارات بورڈز کے پاس چلے گئے اور ترقیاتی منصوبوں کےلئے پی سی ون اور ٹھیکوں کےلئے تین کمپنیوں کی کوٹیشن ضروری قرار دے دی گئی‘ حکومتوں کا احتساب بھی شروع ہو گیا اور ہر احتساب میں کامران لاشاری جیسے بیورو کریٹس کی گرفتاریاں لازم ہو گئیں اور یوں کرپشن تو نہ رکی لیکن پورا ملک رک گیا‘ ہر چیز کا بیڑہ غرق ہو گیا۔میں اس زوال میں واپڈا کو بھی قصوروار سمجھتا ہوں‘ امریکا نے1976ءتک واپڈا کے پانچ سو انجینئرز ٹرینڈ کئے تھے‘ یہ پانچ سو انجینئرز اگر دو ہزار انجینئرز کو ٹرینڈ کر دیتے تو آج واپڈا کے پاس ڈیم انجینئرز کی پوری فوج ہوتی لیکن یہ لوگ نوجوان انجینئرز کو ٹرینڈ کرنے کی بجائے اپنا علم اور مہارت قبرستان میں لے گئے‘ امریکیوں نے ہمیں علم سکھا دیا لیکن ہم نے

وہ علم اپنی قوم تک ٹرانسفر نہیں ہونے دیا‘ دوسرا 1976ءتک جو فیصلے ایس ڈی او لیول تک ہوتے تھے وہ 2018ءمیں اتھارٹی کے دفتر تک آتے ہیں‘ٹریکٹر کے ٹائر بدلنے کا فیصلہ بھی فائل میں درج ہوتا ہے اور یہ فائل سال بھر کا سفر طے کر کے اتھارٹی تک آتی ہے‘ بورڈ جب اس کی منظوری دیتا ہے تو پورا ٹریکٹر تباہ ہو چکا ہوتا ہے‘ اس دوران منصوبے پر کام بھی رکا رہتا ہے‘

آپ کمال ملاحظہ کیجئے جو اتھارٹی دیامر بھاشا کے ڈیزائن کی منظوری دیتی ہے‘ وہی اتھارٹی ٹریکٹروں کے پرزے خریدنے کی اجازت بھی دیتی ہے چنانچہ پھر کام کیسے ہو گا اور اگر ہو گا تو یہ وقت پر کیسے مکمل ہو گا؟ آپ اب کالا باغ ڈیم کی کہانی بھی سن لیجئے‘ 1984ءمیں کالاباغ ڈیم کا ڈیزائن مکمل نہیں ہوا تھا‘ڈیزائن بنانے والی کمپنی کو پتہ چلا نوشہرہ شہر میں 1929ءمیں خوفناک سیلاب آیا تھا‘

کمپنی نے 1929ءکے سیلاب کی اونچائی کا تخمینہ لگانے کےلئے شہر میں نشان لگائے‘ افواہ پھیل گئی کالاباغ ڈیم کی وجہ سے نوشہرہ شہر میں نشان زدہ مقامات تک پانی بھر جائے گا‘ شہر میں سراسیمگی پھیل گئی‘ سیاسی جماعتیں آگے آئیں اور انہوں نے اس سراسیمگی کو اپنا سیاسی منشور بنا لیا‘ کسی نے اس دوران یہ بھی مشہور کر دیا کالاباغ کی وجہ سے سندھ کے حصے کا پانی کم ہو جائے گا

اور سمندر کا کھارا پانی سندھ کی زمینوں پر چڑھ جائے گا‘جاگیردار بھی درمیان میں کود پڑے اور یو ںیہ منصوبہ 1984ءمیں کھٹائی میں پڑگیا‘ اس دوران امریکیوں کے ٹرینڈ پانچ سو انجینئرز بوڑھے‘ ریٹائر اور فوت ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ ہمارے پاس آج انمیں سے ایک بھی ڈیم انجینئر موجود نہیں‘ ہم اب مکمل طور پر غیر ملکیوں کے محتاج ہیں‘ ہم اگر وقت پر کالاباغ ڈیم بنا لیتے تو ملک

میں پانی کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا‘ ہم لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے بھی بچ جاتے‘ ہمیں فرنس آئل اور گیس کے مہنگے پاور پلانٹس بھی نہ لگانا پڑتے‘ ہمیں تیس چالیس پیسے فی یونٹ بجلی بھی ملتی رہتی‘ہمارے پاس اس وقت دو تین ہزار ٹرینڈ ڈیم انجینئرز بھی ہوتے اور ہم ملک میں دھڑا دھڑ ڈیم بھی بنا رہے ہوتے لیکن ہم اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتے رہے اور ہمارے پاؤں کٹتے چلے گئے۔میں یہاں یہ بھی

عرض کرتا چلوں دنیا کے ہر ڈیم کی ایک طبعی عمر ہوتی ہے‘ ڈیم عمر پوری کرنے کے بعد مٹی سے بھر جاتے ہیںاور یوں یہ پانی ذخیرہ کرنے اور بجلی بنانے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں‘ دنیا میں ابھی تک ڈیموں سے مٹی کے مکمل اخراج کی کوئی ٹیکنالوجی نہیں آئی اور یہ اگر آ بھی گئی تو اس کی مالیت ڈیم کی کل قیمت کے برابر ہو گی اور پاکستان جیسے ملک یہ افورڈ نہیں کر سکیں گے‘

ہمارا منگلا اور تربیلا ڈیم اپنی مدت پوری کر چکے ہیں‘یہ اب کسی بھی وقت تفریح گاہ بن جائیں گے جس کے بعد ملک میں پانی کا بحران بھی پیدا ہو جائے گا اور ہم سستی بجلی کی لگژری سے بھی محروم ہو جائیں گے تاہم یہ فائدہ ضرور ہوگا نوشہرہ اور سمندر کے قریب موجود زمینیں ضرور بچ جائیں گی لیکن لوگ پیاس اور قحط سے مر جائیں گے۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…