الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کا بھارتی ڈرامہ فلاپ ،بھارت کی جانب سے جس فوجی کا سر کاٹنےکا واویلا کیا جا رہا تھا وہ زندہ نکلاجبکہ درحقیقت پاکستانی فوجی کو شہید کیا گیا،اقوام متحدہ کے فوجی مبصر مشن نےتصدیق کر دی

25  ستمبر‬‮  2018

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) نامور کالم نگار منیر احمد بلوچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت نے پاکستان کو کھلی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی فوج نے بھارتی سکیورٹی فورسز کے جوان کا جو سر کاٹا ہے‘ اس کا بدلہ لیتے ہوئے ہم پاکستان کو جلد ہی اسی قسم کا ”جواب‘‘ دیں گے۔منیر احمد بلوچ ایک جگہ لکھتے ہیںکہ بھارت کے مذکورہ قسم کے

الزامات کوئی نئے نہیں‘ بلکہ 8 جنوری2013ء کو من موہن سنگھ حکومت نے بھی پاکستان پر اسی قسم کے الزامات عائد کئے تھے۔ اس وقت بھارتی فوج کی ناردرن کمانڈ اودھم پور چھائونی کے ترجمان راجیش کے کالیا نے پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے کہا تھاکہ منڈھر سیکٹر میں لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی فوجی ‘بھارتی فوج کے دو جوانوں لانس نائیک ہیمراج اور لانس نائیک سدھاکر سنگھ کے سر کاٹ کر لے گئے ہیں‘لیکن اس جھوٹ کا پول لانس نائیک ہیمراج کے بھائی نے بھوک ہڑتال کرتے ہوئے یہ کہہ کر کھول دیا کہ ایک چادر میں مکمل طور پر ڈھکے ہوئے انسانی جسم کے پاس لے جا کرمجھے کہا گیا : یہ آپ کے بھائی ہیمراج کی لاش ہے‘ جس پر میں نے میجر صاحب کی منت سماجت کی کہ مجھے اپنے بھائی کا چہرہ یا جسم دکھایا جائے‘ تاکہ میں پہچان سکوں‘کیونکہ اس کی کمر پر ایک تل کا نشان ہے‘ لیکن میری لاکھ منتوں کے با وجود چادر کے کسی ایک کونے کو ہلکا سا بھی سرکانے کی اجا زت نہیں دی گئی۔ جیسے ہی یہ خبر میڈیا پر نشر ہوئی‘ تو کچھ دیر بعد 25 ویں ڈویژن کے ڈپٹی کمانڈر برگیڈیئر آئی کے تیواڑی نے پریس ٹرسٹ آف انڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہیمراج کا بھائی جذباتی ہو رہا ہے‘ 13 راجپوتانہ رائفلز کے دونوں جوانوں کے سر پاکستانی فوج نے کاٹے ہیں‘جس پر ہیمراج کے بھائی نے بھوک ہڑتال کر دی اوراگلے

ہی روز راجیش کے کالیا کی طرف سے وضاحت آ گئی کہ ہمارے دو نہیں‘ بلکہ ایک جوان سدھاکر سنگھ کا سر کاٹا گیا ہے۔ فوج اور دوسری سکیورٹی فورسز کے سر کاٹنے کی بات چل پڑی ہے‘ تو پھر بھارت کو اس کا اصل چہرہ دکھانا ہوگا‘ جو کوئی قصہ کہانی نہیں‘ کوئی فسانہ نہیں ‘کوئی من گھڑت الزام نہیں‘ بلکہ بھارت کا ہی وہ آئینہ ہے‘ جس میں نریندر مودی یا بھارت کی وزارت خارجہ اور

”رائ‘‘ سمیت بھارت کی ” آئی بی‘‘ کے اہل کار جیسے ہی اپنے چہرے سامنے لائیں گے‘ تو انہیں اپنی شکلوں سے گھن آنے لگے گی ۔ 2 جون 2001ء کو نیپال کے مشہور میگزینHIMALمیں معروف بھارتی صحافی برکھا دت کا لکھا ہوا‘ مضمون بعنوان CONFESSIONS OF WAR REPORTS کے دیکھا جا سکتا ہے ۔اس مضمون میں آج بھی بھارتی بربریت کے کھلے ثبوت موجود ہیں

اور یہ وہ ثبوت ہیں‘ جو کہیں گھر بیٹھ کر نہیں ‘بلکہ بھارت کی فوجی چھائونیوں کے آنکھوں دیکھے حالات کی خونچکاں کہانیاںبیان کر رہے ہیں‘ جسے اب تک بھارتی فوج اور اس کے شعبہ تعلقات عامہ کا کوئی ایک رکن بھی جھٹلا نہیں پایا ۔مضمون میں برکھا دت نے لکھا ہے کہ اسے بھارتی فوج کے ایک کرنل کے ساتھ کارگل میں لڑنے والے ایک بریگیڈ ہیڈ کوارٹر لے جایا گیا‘ تو ایک فوجی میس

کے باہرلگے ہوئے ایک درخت کے تنے پر جو منظر دیکھا ‘تو ایک زبردست چیخ میرے حلق میں پھنس کر رہ گئی۔ ایسے لگا کہ جیسے کسی چنگیز خان یا ہلاکو خان کی جنگوں کے منا ظر سامنے ہیں ۔اس قدر گھنائونا منظر کہ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ منظر یہ تھا کہـ بھارتی فوجی میس کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر کے ایک در خت کے مضبوط تنے پر کارگل جنگ میں پکڑے گئے ‘

ایک پاکستانی فوجی کا کٹا ہوا سر‘ ایک بڑے سے کیل سے گاڑا ہوا تھا اوردرخت پرچسپاں کئے گئے ایک کاغذ پر لکھا تھا : بریگیڈ ہیڈ کوارٹر کیلئے دراس سیکٹر سے لایا ہوا بھارتی فوج کے جوانوں کا تحفہ! برکھا دت نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ اسے یہ دیکھ کر اور بھی حیرت اور افسوس ہوا کہ بھارت کی مغل پورہ فوجی چھائونی سے میجر جنرل پوری بھارتی فوجی جوانوں کے اس تحفے

کو دیکھنے کیلئے خود بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پہنچا ہوا تھا ‘ جس فوج کے میجر جنرل کی ذہنیت اس قسم کی جس کے ڈسپلن کا یہ حال ہو‘ اس کے جوانوں اور جونیئر افسران کس قدر کمینگی اور گھٹیا سرشت کے مالک ہوں گے؟ اس کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ برکھا دت کا لکھا ہوا یہ مضمون آج بھی ریکارڈ میں مو جود ہے‘ جس کی کوئی بھی تردید نہیں کی گئی اور بھارتی فوج کے تعلقات عامہ کا

محکمہ اور بھارتی میڈیا سمیت پاکستان میں نواز شریف کا حامی اور بھارت کو سچا ثابت کرنے والے چند اور لبرل قسم کے صحافی جب چاہیں ‘برکھا دت کے اس مضمون کو دیکھ سکتے ہیںاور اگر برکھا دت کی بات پر یقین نہیں ‘تو اس اخبار کی ایڈیٹر انویسٹی گیشن ہریندر باویجا کی کارگل جنگ کے18 سال بعد 25 جولائی2018ء کو شائع ہونے والی کتا ب KARGIL: THE INSIDE STORY میں آنکھوں دیکھے واقعات کو پڑھ لیجئے۔

وہ لکھتی ہیں کہ قریباً نو گھنٹوں سے زائد کے تھکا دینے والے سفر کے بعد فوج کے ہمراہ سری نگر سے وار تھیٹر پہنچی‘ تو اس دوران گھڑ والی یونٹ کے لوگ ایک پاکستانی کو پکڑ کر لائےاور میرے سامنے ایک گھڑوالی جوان نے دیکھتے ہی دیکھتے زمین پر لٹا کر اس کو ذبح کرتے ہوئے اس کا سر کاٹ کر ہوا میں بلند کرتے ہوئے جے ہند کے نعرے لگانے شروع کر دیئے ‘جسے دیکھ کراس کے

افسران حیوانوں کی طرح قہقہے لگانے لگے۔ الغرض سر کاٹنا اور لاشوں کی بے حرمتی کرنا‘ بھارتیوں کی پرانی روایت ہے‘ جب اندرا گاندھی کا قتل ہوا‘ تو جنونی ا ور انتہا پسند ہندوئوں نے یہ سوچے بغیر کہ یہ سکھوں کا اجتماعی نہیں‘ بلکہ ایک گروپ کا فعل ہے‘ لیکن اپنی ہندوتا کی مہر ثبت کرنے کیلئے انہوں نے سکھوں کو ایک اقلیت اور ہندوئوں کے غلام کی حیثیت دینے کا اعلان کرتے ہوئے ‘

نفرت اور بر بریت کا نشانہ پوری دہلی نہیں‘ بلکہ بھارت بھر کے سکھوں کو اس طرح بنا نا شروع کیا کہ خاتون اور مرد‘ بچے اور بوڑھے میں کوئی فرق ہی نہ رکھا گیا۔دراصل یہ اس بات کا اعلان تھا کہ سکھوں کا درجہ بھی مسلم اور عیسائی اقلیتوں کی طرح بھارت میں بسنے والے ہندئوں کی غلام قوم کا ہے۔پاکستان کی جانب سے بھارتی فوجیوں کے سر کاٹنے کی خبر یں پاک بھارت کشیدگی کی

صورت میں جب دنیا بھر میں پھیل گئیں‘ تو لندن سے شائع ہونے والے مشہور زمانہ اخبار لندن ٹیلی گراف کے نمائندہ خصوصی ڈین نیلسن نے بھارتی فوج کے جنرل ایس ایل نرسیمہان سے جب اس پر تبصرہ کرنے کو کہا ‘تو انہوں نے ٹیلی گراف کو بتاتے ہوئے کہا کہ ایک فوجی کا کٹا ہوا سر ضرور ملا ہے‘ لیکن وثوق سے نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہمارے کس جوان کا سر ہے۔

آخر میں بھارتی فوج کے الزامات کی نفی کرتے ہوئے‘ اقوام متحدہ کی جاری کر دہ رپورٹ ملاحظہ کیجئے : ہمارے کشمیر میں فوجی مبصر گروپUNMOGIP اس بات کی تحقیق کر رہے ہیں‘ جس کے مطا بق ابھی تک تو ہمیں جواطلاعات ہیں ‘اس کے مطا بق پاکستان کی فوج کا ہی ایک جوان شہیدہوا ہے‘ جبکہ بھارت کے کسی فوجی کے لاپتا ہونے یا کسی کاسر کاٹے جانے کی کوئی شکایت بھارت نے رپورٹ نہیں کی ہے۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…