سابق صدر ممنون حسین نے جاتے جاتے بڑا سرپرائز دیدیا پاکستان کیلئے ایسا کام کر گئےجو آج تک کوئی صدر اور وزیراعظم نہ کر سکا

10  ستمبر‬‮  2018

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان کے معروف صحافی ارشد وحید چوہدری اپنے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ متفقہ 18 ویں ترمیم کے ذریعے آمروں کی طرف سے آئین میں شامل کی گئی تمام غیر آئینی ترامیم کو نکال دیا گیا۔ یوں ایک بار پھر نہ صرف صدرمملکت کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار ختم کر کے اسے وزیر اعظم کی ایڈوائس سے مشروط کر دیا گیا بلکہ مسلح افواج کے

سربراہان کی تعیناتی سمیت دیگر اہم اختیارات بھی واپس وزیر اعظم کے حوالے کردئیے گئے اگرچہ صدر بدستورمسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہے۔ موجودہ آئین پاکستان میں صدر مملکت کے اہم اختیارات کا جائزہ لیا جائے تو وہ وزیر اعظم اور کابینہ کے مشورے پر عمل کا پابند ہے،وزیر اعظم، وفاقی کابینہ کے ارکان، چیف جسٹس پاکستان، آڈیٹر جنرل اور وفاقی محتسب جیسے عہدوں کا حلف لے سکتا ہے،صدر مملکت کو کسی عدالت، ٹریبونل یا دیگر ہئیت مجاز کی دی گئی سزا کو معاف کرنے، ملتوی کرنے اور کچھ عرصے کیلئے روکنے ،اس میں تخفیف کرنے یا اسے معطل اور تبدیل کرنیکا اختیارحاصل ہے۔آئین کی رو سے صدر مملکت ہر پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں حکومت کو امور سلطنت چلانے کیلئے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ پارلیمنٹ سے منظور کوئی بل اس وقت تک ایکٹ نہیں بن سکتا جب تک صدر مملکت اس کی توثیق نہ کریں۔ مالیاتی بل کا اطلاق بھی صدر کی توثیق کے بعد ممکن ہے، صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی تحلیل کرسکتا ہے ، نوے دن کے اندرعام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر سکتا ہے،صدر مملکت چیف جسٹس ، آڈیٹر جنرل مسلح افواج کے سربراہان سمیت اہم عہدوں پر تعیناتی بھی صرف وزیر اعظم کی ایڈوائس پر کر سکتا ہے،آئین کے تحت وزیر اعظم صدر کو عالمی اور خارجہ پالیسی کے

تمام معاملات اور ان تمام قانونی تجاویز پر جو وفاقی حکومت پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا ارداہ رکھتی ہے ،آگاہ کرنے کا پابند ہے ( عملی طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے)۔صدر مملکت سینیٹ یا قومی اسمبلی کا اجلاس نہ ہونے کی صورت میں آرڈیننس وضع اور نافذ کر سکتا ہے، صدر کسی صوبے کے گورنر کو اپنے نمائندے کے طور پر بعض امور سر انجام دینے کا حکم دے سکتا ہے، صوبوں سے

متعلق محصولات کیلئے کوئی بھی بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل صدر مملکت کی منظوری ضروری ہے،آڈیٹر جنرل وفاق سے متعلق سالانہ آڈٹ رپورٹیں صدر مملکت کو پیش کرنے کے پابند ہیںجنہیں وہ پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی ہدایت دیتے ہیں،صدر جنگ یا داخلی خلفشار کی بنیاد پر کسی صوبے میں ہنگامی حالت کے نفاذ اور اس دوران بنیادی حقوق کو معطل کرنے کا اعلان کر سکتا ہے

تاہم اس کیلئے صوبائی اسمبلی کی قرارداد ضروری ہے۔ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے بھی صدر مملکت کے تحت ہیں، اسی طرح وفاقی کے زیر انتظام تمام یونیورسٹیاں بھی صدر مملکت کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ موجودہ اختیارات کے مطابق وہی قصر صدارت جو آمریت کے دور میں طاقت کا مرکز ہوا کرتا تھا اب محض نمائشی حیثیت اختیارکر چکا ہے۔ سبکدوش ہونروالے صدر مملکت ممنون حسین

نے آئین کی پاسداری کو مقدم رکھا اور اپنے اختیارات سے تجاوز نہ کرتے ہوئے بعض اہم اقدامات کئے، جن میں ارکان پارلیمنٹ کی حاضری کو عام کرنا، ایوان صدر میں اردو زبان کا نفاذ، ہرملکی و غیر ملکی فورم پر اردو زبان میں خطاب، وسطی ایشائی ریاستوں سے روابط کو فروغ ، نائیجیریا اور آذر بائیجان کے ساتھ دفاعی آلات کی فراہمی، تیل گیس کے شعبوں میں تعاون کے معاہدے،

آذر بائیجان میں نیشنل بینک کی برانچ کھولنا، زیر انتظام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تقرری کیلئے خود انٹرویو لینا،وفاقی اردو یونیورسٹی میں اربوں روپے کی بد عنوانی کے مرتکب افراد کا احتساب یقینی بنانا، بابائے اردو مولوی عبد الحق کی ہزاروں نایاب کتابوں اور قلمی نسخوں کو اردو باغ کے قیام سے محفوظ بنانا،صوابدیدی فنڈزغریب مستحق بچوں اور انڈس اسپتال جیسے

فلاحی ادارے کو دینا اور سب سے اہم رائل کالج آف فزیشنز کے پاکستانی ڈاکٹروں کے امتحانات کو پاکستان میں لینے کو ممکن بنانا قابل ذکر ہیں۔ ادب اور صحافت سے تعلق رکھنے والے سابق صدر ممنون حسین کے کنسلٹنٹ فاروق عادل کی یہ بات بہت بھلی کہ جو صدر مملکت آئین کے مطابق فرائض منصبی ادا کرے گا ناقدین اسے نمائشی صدر ہی کہیں گے۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…