اڈیالہ جیل میں ایسا کیا ہوا کہ شریف فیملی کی چیخیں اس دن ساری جیل نے سنیں، نواز شریف بھی رونے لگے، نواز شریف اور مریم نواز سے ملاقات کرنیوالے صحافی کے افسوسناک انکشافات

3  ستمبر‬‮  2018

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معروف صحافی ارشد وحیدر چوہدری اپنے کالم’’ اسیر بیٹی سے ملاقات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ سیاسی قیدیوں کو اپنی آغوش میں پناہ دینے والی راولپنڈی میں واقع اڈیالہ جیل ان دنوں تین بار ملک کے منتخب وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف ان کی صاحبزادی مریم نواز، ان کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اور ان کے ساتھی حنیف عباسی کی میزبان ہے۔ مجھ جیسے صحافیوں کو سیاسی قیدیوں سے ملنے کیلئے اسلئے بھی بہت زیادہ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس قلم کی صورت میں بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔

اڈیالہ جیل میں اسیر باپ بیٹی سے ملاقات کی کوشش میں بھی یہی مفاد کارفرما تھا کہ یہ کھوج لگائی جائے کہ تین بار وزیر اعظم کے منصب پہ فائز رہنے والے نواز شریف اور نازو نعم میں پلی ان کی بیٹی مریم نواز کے جیل میں شب و روز کیسے گزر رہے ہیں۔ اس ملاقات کو ممکن بنانے کیلئے ایک با اثر دوست کی خدمات حاصل کیں۔ ملاقاتیوں کی فہرست میں نام شامل ہونے کے بعد نواز شریف اور مریم نواز تک پہنچنے کیلئے اڈیالہ جیل کے گیٹ نمبر پانچ پر گاڑیوں کی طویل قطار میں لگنے سے انتظار گاہ پہنچنے تک کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ انتظار گاہ سے دس سے پندرہ افراد کو گروپوں کی شکل میں دو تین سو میٹر کے فاصلے پر واقع ملاقات کی جگہ لے جایا جاتا ہے جہاں داخل ہونے سے پہلے ایک بار پھر جسمانی تلاشی لینے کے ساتھ آپ کے ہاتھ پرانٹری اسٹیمپ لگائی جاتی ہے۔ راہداری میں داخل ہو کر بالآخر آپ اس ہال میں داخل ہو جاتے ہیں جہاں ایون فیلڈ پراپرٹیز کے مقدمے میں احتساب عدالت سے دس اور سات سال کی سزا پانے والے سابق وزیرا عظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز ملاقاتیوں کے ہمراہ موجود ہوتے ہیں۔ میٹنگ روم کی طرز پر قائم اس ہال میں چار قطاروں میں لگی کرسیوں پر تقریباً تیس سے پینتیس افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جبکہ اس میں ایک ایئر کنڈیشن اور دو پنکھے لگائے گئے ہیں، ملاقاتیوں کی نقل و حرکت کی مانیٹرنگ کیلئے کلوز سرکٹ کیمرے بھی دکھائی دیتے ہیں جبکہ قیدیوں اور ملاقاتیوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سننے کیلئے متعلقہ عملہ بھی ارد گرد ہی ہوتے ہیں

جس کی وجہ سے اونچی آواز میں صرف غیر سیاسی گفتگو ہی کی جا سکتی ہے۔ ہال میں داخل ہونے پرمیاں صاحب نے قلم کار کو خصوصی عزت دیتے ہوئے مریم نواز کی قریبی نشست پر بیٹھنے کا کہا جس سے مریم نواز اور میاں صاحب سے دبے لفظوں میں طویل گفتگو کا موقع مل گیا۔ ایفی ڈرین کیس میں سزا پانے والے حنیف عباسی جیل میں بھی اپنے مخصوص پرتپاک انداز میں بغل گیر ہوئے۔ ہال میں مریم اورنگزیب، محمد زبیر، جاوید لطیف، شیخ آفتاب،بلیغ الرحمان، زیب جعفر،ثانیہ عاشق، زیب النساء اور دیگر لیگی رہنما اور تین چار کارکنان بھی اپنے قائد اور ان کی بیٹی کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے نظر آئے۔

نواز شریف اور مریم نواز کے وزن میں نمایاں کمی کو دیکھ کرجیل کے شب وروز کا اندازہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا لیکن باپ بیٹی استفسار کے باوجود کوئی حرف شکایت زبان پرنہ لائے۔ مروت کے قائل نواز شریف ہر ملاقاتی سے کھڑے ہو کر سلام دعا کرتے جبکہ ان کی طرف سے یک جہتی کا اظہار کرنے پر خود ان کی ہمت بندھاتے اور ملاقاتیوں سے صرف دعا کرنے کی درخواست کرتے۔ نواز شریف کے ہاتھ میں چھوٹی تسبیح تھی جبکہ وہ آسمانی رنگ کی اپنی پسندیدہ شلوار قمیص میں ملبوس تھے جس کی سامنے والی جیب میں لگی عینک دیکھ کر مجھے 1999ء میں لانڈھی جیل میں بطور قیدی ان کا اندراج کرتے سپرنٹنڈنٹ جیل کا وہ تضحیک آمیز جملہ یاد آ گیا جب اس نے نواز شریف کی جیب میں لگے پین کو دیکھ کر ادا کیا تھا۔

تب والی غلطی انیس سال بعد ضد بن کر نواز شریف کو پھر اسی مقام پر لے آئی ہے تاہم اس بار فرق یہ ہے کہ تب وہ اٹک قلعے کی صعوبتوں،لانڈھی جیل کی تضحیک اور ہتھکڑیوں سے باندھ کر کراچی کی خصوصی عدالت میں پیشی جیسے تحقیر آمیز سلوک کو برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے آمر پرویز مشرف سے دس سالہ جلا وطنی کا معاہدہ کر کے جدہ روانہ ہو گئے تھے تاہم اس بار جیل اور اسیری کی کٹھن بھری زندگی کا راستہ انہوں نے خود چنا ہے۔ تب وہ بطور باپ وزیر اعظم ہاؤس سے اپنے ساتھ حراست میں لئے گئے اپنے بیٹے حسین نواز کیلئے فکر مند تھے توآج انہیں ساتھ سزا کاٹنے والی اپنی بیٹی مریم نواز کو دیکھ کر پریشانی لاحق ہو جاتی ہے۔

تاریخ کے اس دہرائے جانیکے بارے میں،میں نے مریم سے استفسار کیا کہ کیا خود احتسابی کے دوران باور ہوا کہ اس ہونی کو روکا جا سکتا تھا توایک توقف کے بعد ٹھوس لہجے میں نفی میں جواب دیتے انہوں نے کہا کہ وہ کچھ بھی کر لیتے ہونا یہی تھا کیونکہ کرنیوالے،طے کر چکے تھے۔ اپنی ضمانت پر رہائی کے بارے میں باپ بیٹی بدستور بے یقینی کا شکار نظر آئے لیکن اپنے مقصد کو پانے کا عزم ایسا غیرمتزلزل کہ کوئی بھی قیمت چکانے کو تیار ہیں۔ بطور انسان دونوں صرف نازک رشتوں کے باعث کمزور پڑتے دکھائی دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ لندن میں زیر علاج اپنی اہلیہ کے ذکر پر نواز شریف متفکر اور بطور بیٹی اپنی والدہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز کی آواز رندھ جاتی ہے اور وہ کوشش کرتی ہیں کہ آنسو ان کی آنکھوں سے باہرنہ چھلکنے پائیں۔

مریم نواز نے بتایا کہ ان کے دل پر صرف ایک بوجھ ہے کہ ان کی والدہ کلثوم نواز سوچتی ہیں کہ ہر روز ان سے ویڈیو کال پر بات کرنے والی ان کی بیٹی سیاسی زندگی میں اتنی مصروف ہو گئی ہے کہ اب ہفتے میں صرف ایک دن چند منٹ کیلئے ان کا حال پوچھنے کیلئے کال کرتی ہے۔ میاں صاحب نے بتایا کہ وہ ہفتے میں صرف ایک دن 20منٹ کیلئے جیل کے پی سی او سے ٹیلی فون کر سکتے ہیں اور براستہ لاہور لائن ملنے سے اس میں سے بھی تین چار منٹ صرف ہوجاتے ہیں۔ ان کیلئے عید الاضحی پر میاں صاحب کی والدہ (آپی جی) کی جیل میں ان سے ملاقات کو یاد کرنا بھی انتہائی تکلیف دہ ہے کیونکہ جب وہ جیل میں بیٹے اور پوتی سے ملیں تو پوری جیل میں ان کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ وہ بیٹے اور پوتی کو جیل میں چھوڑ کر واپس جانے کیلئے بھی تیار نہ تھیں اور بضد تھیں کہ ان کیساتھ ہی رہیں گی۔

جب روتی ہوئی والدہ کوزبردستی واپس بھیجا جا رہا تھا تو تب بیٹے کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ میاں صاحب سے معلوم ہوا کہ انہیں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اورباپ بیٹی کو ایک دوسرے سے صرف اتوار کو ملاقات کرنے کی اجازت ہے جو عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔مریم نواز نے بچوں کو پڑھانیکی تردید کی اور واضح کیا کہ ان کی اور میاں صاحب کی بیرک میں چھ، چھ کمرے ہیں جن میں سے ایک ایک میں وہ رہتے ہیں باقی تمام خالی ہیں اور مغرب کے وقت بیرک کو لاک کر دیا جاتا ہے جو صبح فجر کے وقت کھولاجاتا ہے اس لئے کسی سے بات چیت تک نہیں ہوتی۔ انہیں جنگ اور ایک دوسرا اردو اخبار پڑھنے کو ملتا ہے جبکہ اسیری کے دوران وہ عبادت کے علاوہ تاریخ اور اہم سیاسی رہنماؤں کی زندگی کا مطالعہ کرنے میں وقت صرف کرتی ہیں۔ ان سے یادداشتیں قلمبند کرنے کے بارے میں پوچھا تو مریم نواز نے جواب دیا کہ

کتابیں پڑھنے کے دوران نوٹس لینے کیلئے وہ کاغذ قلم مانگتی ہیں تو بہت تردد کے بعد انہیں نمبر لگا کر پرچیاں دی جاتی ہیں۔ دوران گفتگو ایک موقع پر خواجہ آصف نے ایک چٹ پر لکھی بنی اسرائیل کی سورت کی ایک آیت میاں صاحب کو وظیفہ کرنے کیلئے تھمائی جنہوں نے ابتدائی الفاظ ادا کئے تو مریم نواز نے پوری آیت سنا دی۔باپ بیٹی کی اسیری کی زندگی کے مزید پہلو وا کرنے کیلئے میرے سوالات جاری تھے کہ ہال میں مریم نواز کی بیٹیاں مہرو اور ماہ نور داخل ہو گئیں جن کے بارے میں وہ بتا چکی تھیں کہ جیل میں وہ سب سے شدت سے انہیں مس کرتی ہیں۔ واپسی کیلئے ہال سے باہر آیا تو راہداری میں کیپٹن صفدر سے آمنا سامنا ہو گیا جو بیماری کے باعث انتہائی نحیف ہو چکے ہیں۔ انکی خیریت معلوم کرنے کے بعد جب اڈیالہ جیل کی اونچی فصیلوں سے باہر نکل رہا تھا تو میرے کانوں میں سورۃ آل عمران کے یہ الفاظ گونج رہے تھے؛ اور یہ دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…