’’اب تو صرف کرفیو لگانا رہ گیا ‘‘

13  جولائی  2018

لاہور( این این آئی ) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ کارکنوں کو نواز شریف کے استقبال سے روکنے کیلئے صرف کرفیو لگانا رہ گیا اس کے علاوہ تمام ہتھکنڈے استعمال کر لئے گئے ،انتظامیہ غلطیاں ضرور کرے لیکن اب پرانی کی بجائے نئی غلطیاں کی جائیں،سیاستدانوں کا احتساب عوام کر سکتے ہیں اور انہیں ہی یہ کام کرنے دیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے مرکزی رہنما پرویز رشید ،(ن) لیگ سندھ کے صدر شاہ محمد اور دیگر کے ہمراہ مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹائون میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔مشاہد حسین سید نے کہا کہ خیبر پختوانخواہ میں دہشتگردی کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں ،پولیس اورانتظامیہ کااولین فرض ہے کہ وہ عوامی نمائندوں کو تحفظ فراہم کریں ۔ انہوںنے کہا کہ انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے لاہور کو مکمل طور پر بلاک کردیا گیا ہے،اس کا مقصد (ن) لیگ کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچانا ہے۔لاہور میں صرف کرفیو لگانا رہ گیا ہے اس کے علاوہ تمام ہتھکنڈے استعمال کر لئے گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ چاہے وہ وفاق یا صوبے کی نگران حکومت ہو یا انتظامیہ انہیں ایسے ہتھکنڈے استعمال نہیں کرنے چاہئیں جس سے انتخابات متنازعہ ہوں ۔آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے ساتھ بھی غلط کیا جارہے ۔ سیاستدانوں کو عوامی عدالت میں جانے دیں اور ایسا نہ کیا جائے کہ کسی کے پیچھے ادارے لگ جائیں اور کسی کو واچ لسٹ میں ڈال دیا جائے ، سیاستدانوں کا احتساب عوام کر سکتے ہیں اور وہی کریں گے ۔ پرویز رشید نے کہا کہ انصاف اور قانون جب سب کو ایک نظر سے نہیں دیکھتا تو مذاق بن جاتا ہے اور اس کے ذمہ وہ لوگ ہیں جو انصاف و قانون پر احترام کرانے والے ہیں ۔ انہیں چاہیے کہ قانون کی بالا دستی کو قائم رکھیں لیکن ان ہاتھوں کی وجہ سے انصاف و قانون مذاق بن گیا۔ اب کسی کو یہ گلہ نہیں ہونا چاہیے کہ سیاست یا کسی سیاسی رہنما نے انہیں متنازعہ بنایا ہے ۔

ایسے مقاصد کے لئے اداروں کو استعمال کیا گیا جن میں تضادات موجود تھے۔ انہوںنے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے ایک امیدوار قمر الاسلام راجہ کو ٹکٹ ملتا ہے اور اگلے ہی روز نیب کی جانب سے انہیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد دوسرے سیاسی رہنما پر الزام لگتے ہیں لیکن ایف آئی اے کی جانب سے یکسر دوسرا سلوک کیا جاتا ہے ۔ جس طرح آصف علی زرداری اور فریال تالپور کو رعایت ملی ہے

وہی رعایت قمر الاسلام راجہ کو کیوں نہیں مل سکتی۔ اگرآپ اس طرح سلوک کریں گے تو اس سے آپ کا اپنا ادارہ پاکستانیوں کی نظر میں متنازعہ ہو جائے گا اور اس پر سوال اور انگلیاں اٹھیں گی ۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے کیس میں سوا سو سے زائد دن سماعت ہوئی اور ایک دن میں دو سے تین سماعتیں بھی ہوئیں اور نواز شریف او رمریم نواز ہر سماعت پر موجود تھے۔

ان کی وجہ سے ایک دن بھی عدالت کوکارروائی نہیں روکنی پڑی یا نواز شریف اور مریم نواز کی جانب سے یہ درخواست دی گئی ہو کہ کارروائی روک دیا ۔ پاکستان یا دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ ایک عدالت ہنگامی بنیادوں پر کارروائی کرتی ہے ۔ نواز شریف صرف یہ درخواست دیتے ہیں کہ سزا کو کچھ روز کے لئے روک دیں تاکہ میں اپنی بیمار اہلیہ کی تیمار داری کر سکوں اور میں ان کے ہوش میں آنے تک ا ن کے پاس موجود رہوں ۔

آصف علی زرداری او ر فریال تالپور کے مقدمے کی کارروائی کو انتخابات کے بعد تک روک دیا جاتا ہے لیکن یہاں بھی نواز شریف کو کوئی رعایت نہیں۔ جب انصاف اور قانون کے دو معیار بنا دئیے جائیں، دو مختلف سلوک اور رویے اختیار کئے جائیں گے تو اور جب قانون سب کو ایک نظر سے نہیں دیکھے گا تو پھر جن کے پاس یہ ذمہ داری ہے ان کی طرف اشارے بھی ہوں گے اور ان کی جانب انگلیاں بھی اٹھیں گی۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے دھرنا ون کے لئے اسی شہر سے سفر کا آغاز کیا تھا اور سب نے دیکھا کہ عمران خان کس طرح گھنٹوں لاہور کی سڑکوں پر دندناتے پھرتے رہے۔ حالانکہ عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ ایک آئینی اور منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے جارہے ہیں حالانکہ اس وقت حکومت پر کوئی الزام اور اسے چارج شیٹ بھی نہیں کیا گیا۔

کیا کسی نے عمران خان کو روکا یا ان کے سفر میں کوئی رکاوٹ ڈالی، کیا ان کا ایک بھی سیاسی کارکن گرفتار ہوا ، کیا عمران خان کی رہائشگاہ کے باہر بھی کنٹینر کھڑے کئے گئے ، موٹر وے یا جی ٹی روڈ کا راستہ بند کیا گیا ۔ عمران خان اپنے جمہوری حق کا غلط استعمال کر رہے تھے لیکن اس کے باوجود کہا کہ یہ ان کا جمہوری حق ہے اور وہ اسے استعمال کریں اور وہ اسلام آباد تک پہنچے

اور 126روز تک دھرنا دیا۔ انہوں نے کہا کہ کیا مسلم لیگ (ن) کے کارکن اسلام آباد پر حملہ کرنے جارہے ہیں جیسے عمران خان لاہور سے دندناتے ہوئے نکلے تھے کیا (ن) لیگ کے کارکنوں نے ایسا کوئی اقدام کیا۔ انہوں نے کہا کہ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب میڈیا کا سامنے کرتے ہوئے گھبراتے کیوں ہیں ۔ گزشتہ دو روز سے لاہور میں جو حشر مچا ہوا ہے اس کی ذمہ داری کیوں قبول نہیں کرتے ۔

ہمارا یہ مطالبہ نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو رہا کریں لیکن یہ کہتے ہیں کہ اگر آپ کا ضمیر زندہ ہے اور اگر آپ کے پاس دانشوری کا علم موجود ہے جس کا اظہار آپ سالہا سال سے کرتے آرہے ہیں آپ میں اخلاقی جرات ہونی چاہیے اور اخبار نویسوں کا سامنا کر کے کہیں یہ گرفتاریاں میں نے کی ہیں لیکن میں یقین سے کہتا ہوں کہ آپ کبھی بھی اس کی ذمہ داری قبول نہیں کریں گے ۔

نگران حکومت کو اپنے گناہوں کا حساب دینا پڑے گا۔ پرویز رشید نے کہا کہ نواز شریف ایک نہیں چار چار سزائیںبھگت چکے ہیں اور پانچویں بھگتنے آرہے ہیں ۔نواز شریف کے ہوتے ہوئے انتخابات کو چوری نہیں کیا جاسکتا،نواز شریف کو انتخابات کو چوری سے روکنے کی سزا دی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کروڑوں لوگوں کے لئے جیلیں بنانی پڑے گی۔ آپ عوام کو 13جولائی کو روک سکے اور نہ 25جولائی کو روک سکو گے ۔

شاہ محمد نے کہا کہ جو کھیل کھیلا جارہا ہے اس سے ملک کو نقصان ہوگا۔سیاست بندوق کی تابع نہیں ہوگی،بندوق سیاست کے تابع ہے۔ 25جولائی کو کتنے لوگوں کو روکے گے۔اگر 25جولائی کو عوام کو روکا گیا تو بڑا مسئلہ ہوگا۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…