عمران خان کے ہاتھ سے گیم کیوں نکلتی جا رہی ہے؟ انہیں گیم میں واپس آنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ 

20  اپریل‬‮  2018

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) ملک میں انتخابی دنگل شروع ہو چکا ہے۔ بے شک تحریک انصاف اس انتخابی دنگل کی ایک بڑی پہلوان ہے۔ بہت سے لوگ اس کو فیورٹ بھی دیکھتے ہونگے۔ لیکن پھر بھی ملک میں ابھی تک ایسا ماحول نہیں بن سکا ہے کہ کہا جائے کہ بس تحریک انصاف جیت رہی ہے، اس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ معروف کالم نگار مزمل سہروردی نے اپنے کالم میں لکھا کہ ایک طرف تحریک انصاف کے سب سے بڑے حریف نواز شریف نا اہل ہو چکے ہیں۔

نیب میں پھنس چکے ہیں اور یہ قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ نیب سے نواز شریف کو سزا ہو جائے گی،دوسری جانب بھی یہ قیاس آرائی ہے،بات یقین کی حد تک نہیں کہ اگلی حکومت تحریک انصاف بنائے گی۔ بے شک حالات تحریک انصاف کے حق میں ہیں۔ن لیگ کے آدھے وزیر نیب میں پھنس گئے ہیں۔ چند بڑے نام اقامہ میں پھنس رہے ہیں۔ چند توہین عدالت میں پھنس رہے ہیں۔ ناراضگیاں بھی نظر آرہی ہیں لیکن پھر بھی تحریک انصاف اور عمران خان کا ماحول نہیں بن رہا۔میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ عمران خان کی جتنی مدد کر سکتی تھی اس سے زیادہ کر چکی ہے۔ لیکن پھر بھی اس بار وہ ہوا نہیں چل رہی جو کہہ رہی ہو کہ عمران خان آرہا ہے۔ الیکشن کے موقع پر چلنی والی ہوائیں بہت اہم ہوتی ہیں۔ یہ ہوائیں سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کی سیاسی زندگی کا فیصلہ کرتی ہیں۔آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن 2013 کے انتخابات سے قبل ہی یہ ہوا چل نکلی تھی کہ نواز شریف اگلے وزیر اعظم ہیں۔ خود برسراقتدار پیپلزپارٹی بھی کہنے لگ گئی تھی کہ اب نواز لیگ کی باری ہے۔ بے شک وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ ہم ہار رہے ہیں بلکہ وہ یہ کہتے تھے کہ چارٹر آف ڈیموکریسی میں یہ طے ہے کہ ایک باری ان کی اور ایک باری ہماری۔ ہم نے اپنی باری لے لی ہے۔اب ان کی باری ہے۔ لیکن نواز شریف کے لیے ماحول بن گیا تھا۔ زبان زد عام تھا کہ نواز شریف آرہا ہے۔ بے شک اس وقت بھی عمران خان کی مقبولیت تھی لیکن کوئی بھی یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ عمران خان کی حکومت بن جائے گی سب کہہ رہے تھے کہ عمران خان کا پہلا الیکشن ہے،

ان کو انٹری مل جائے گی۔ وہ کے پی کے میں جیت جائیں گے یہ ماحول بھی پہلے ہی بن گیا تھا۔ لیکن مرکز میں عمران خان نہیں آرہے یہ سب کہہ رہے تھے خود عمران خان کے حواری بھی کہہ رہے تھے کہ ابھی ہماری باری نہیں ہے۔ اگلی باری ہماری ہے۔اسی طرح 2008ء کے انتخابات میں بے نظیر کی شہادت کے بعد یہ ماحول بن گیا تھا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت آرہی ہے۔ ہر طرف نظر آرہا تھا کہ پیپلزپارٹی کو اقتدار دینے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ لوگ امین فہیم کو وزیر اعظم سمجھ رہے تھے۔ میڈیا نے بطور وزیر اعظم ان کے انٹرویو کرنے شروع کر دیے تھے وہ الگ بات ہے کہ بعد میں آصف زرداری نے ہاتھ یوسف رضا گیلانی پر رکھ دیا۔

لیکن پیپلزپارٹی کے برسر اقتدار کے آنے کے حوالہ سے کوئی ابہام نہیں تھا۔ ماحول بن گیا تھا۔ ہوا چل گئی تھی۔اسی طرح 2002کے انتخابات میں بھی ق لیگ کی ہوا چل گئی تھی سب کہہ رہے تھے کہ اسٹبلشمنٹ نے ق لیگ کو لانے کا سب بندوبست کر لیا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اس قت ق لیگ کے صدر میاں اظہر اپنے وزیر اعظم کے نعرے لگواتے ہی رہ گئے اور میر ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم بن گئے۔ لیکن ق لیگ کے لیے راستہ صاف ہو گیا تھا۔ اس سے پرانی مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں لیکن ان مثالوں سے میں صرف اتنی بات ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے انتخابی نظام میں کون جیت رہا ہے اور کون آرہا ہے۔ اس کا ایک ماحول بنتا ہے۔ اس کی ایک ہوا چلتی ہے۔

ایسا پوری دنیا میں ہوتا ہے لیکن وہاں اپ سیٹ بھی ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں جہاں جمہوریت پر ابھی مختلف اداروں کا کافی کنٹرول ہے وہاں جمہوریت اتنی بے قابو نہیں ہوئی ہے کہ اپ سیٹ کر سکے۔ یہاں سب کچھ ماحول حالات اور اسکرپٹ کے مطابق ہی ہوتا ہے۔ابھی تک عمران خان نے اپنی جماعت میں انتخابات جیتنے والے جتنے بھی گھوڑے جمع کیے ہیں، جو لوگ عمران خان کو جوائن کر رہے ہیں مجھے کہنے میں یہ کوئی عار نہیں کہ وہ سب دو نمبر مال ہے۔ جیتنے والے گھوڑوں کی منڈی سے بھی وہ ابھی تک ایک نمبر مال حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ انھوں نے ابھی تک کچراہی اکٹھا کیا ہے۔ وہ ن لیگ سے بھی کوئی بڑا نام کوئی گروپ میں اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔

حالانکہ 2013میں جاوید ہاشمی کی صورت میں ایک بڑا نام ان کے ساتھ آگیا تھا۔ پیپلزپارٹی سے شاہ محمود قریشی آگئے تھے۔ شاہ محمود قریشی جیتنے والے گھوڑوں کی منڈی میں ایک نمبر گھوڑا ہیں۔جن کی جیت کسی پارٹی کی محتاج نہیں ہے۔ جب وہ کسی پارٹی کو جوائن کرتے ہیں تو پارٹی کو فائدہ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اب تحریک انصاف نے جو نام جمع کیے ہیں وہ دو نمبر گھوڑے ہیں۔ ان کے آنے سے تحریک انصاف کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ نقصان ہی ہوا ہے۔ اسی طرح ن لیگ سے بھی جو نام جمع کیے جا رہے ہیں وہ معمولی ہیں۔ جیسے گوجرانوالہ سے طارق اور خالد ورک سب کو پتہ ہے کہ نئی مردم شماری کی وجہ سے ان کے حلقہ ختم ہو گئے تھے۔

اب ان کی ن لیگ میں کوئی جگہ نہیں تھی۔اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کی ساری توجہ اس بات کی طرف ہے کہ نواز شریف کو گیم سے آؤٹ کر دیا جائے۔ شہباز شریف آؤٹ ہو جائیں۔ ن لیگ ختم ہو جائے۔ ان کی کوئی توجہ اس طرف نہیں ہے کہ وہ خود کیسے آئیں گے۔ عمران خان کی سیاست بس نواز مخالف ہو کر رہ گئی ہے۔لیکن انھیں سمجھ نہیں آرہی کہ نواز شریف کو آؤٹ کر کے بھی وہ مقاصد حاصل نہیں کر سکے جن کی امید تھی، ان کا راستہ صاف نہیں ہوا۔ اس طرح شہباز شریف کو بھی آؤٹ کر کے راستہ صاف نہیں ہو گا بلکہ اب تو رکاوٹیں بڑھ رہی ہیں۔ جب کہ اقتدار میں آنے کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔

وہ خود کہاں ہیں۔ ان کی اپنی بات کہاں ہے۔ عمران خان کو یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ جب بھی کوئی اقتدار میں آیا اس کو سیاسی دوستوں کی ضرورت ہوئی ہے۔ سیاست میں دشمنوں کے ساتھ دوستوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی جماعت آکر چھا جانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ تجزیہ نگار اندازہ لگاتے ہیں کہ عمران خان کتنی سیٹیں لے لیں گے۔ لیکن عمران خان کے ارد گرد ایسے سیاسی دوست نظر نہیں آتے جو انھیں اقتدار کی منزل تک لے جائیں۔ آپ دیکھیں آج بھی نواز شریف کے ساتھ مولانا فضل الرحمٰن، محمود خان اچکزئی بزنجو نظر آتے ہیں، حلیف نظر آتے ہیں۔ آصف زرداری کے بارے میں بھی سب جانتے ہیں کہ وہ دوستوں کو ساتھ ملا لیتے ہیں۔

سینیٹ میں سب نے دیکھا ہے کہ وہ بہر حال ڈپٹی چیئرمین بھی لے گئے قائد حزب اختلاف بھی لے گئے۔ عمران خان کو اس میں کچھ نہیں ملا۔ حقیقت میں وہ استعمال ہوئے۔ عمران خان کو سمجھنا ہو گا کہ عام آدمی بہت سمجھدار ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے اشاروں سے گیم سمجھتا ہے۔ میرے ایک نادان دوست کا کہنا ہے کہ عمران خان کو اقتدار نہیں مل رہا۔ میں نے کہا تم کیسے کہہ سکتے ہو وہ کہنے لگا اگر اقتدار عمران خان کو دینا ہوتا تو بلوچستان کے سارے سنجرانی عمران خان کی جماعت جوائن کر لیتے۔ جیسے جب ن لیگ کو اقتدار دینا تھا تو یہ سب ن لیگ میں چلے گئے تھے جب پیپلزپارٹی کو دینا تھا تو یہ پیپلز پارٹی میں چلے گئے تھے، اب اگر عمران خان کو اقتدار ملنا ہو تا تو یہ سب تحریک انصاف جوائن کر لیتے۔

اس وقت چیئرمین سینیٹ عمران خان کا ہوتا۔ ماحول بن جاتا۔سب کہتے اقتدار عمران خان کے گھر آگیا ہے۔ بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بھی عمران خان کی جماعت کا ہو جاتا۔ انتخابات سے پہلے ہی ایک صوبے کی حکومت تحفہ میں مل جاتی۔ لیکن یہ سب اسکرپٹ میں نہیں کیونکہ عمران خان اسکرپٹ میں نہیں ہے۔میں نے اپنے نادان دوست سے کہا کہ تم بلوچستان کے حالات نہیں سمجھتے۔ وہاں کے مخصوص حالات میں ایسا ممکن نہیں تھا۔ اس نے کہا کہ اچھا پنجاب کو دیکھ لیں یہ جو جنوبی پنجاب محاذ میں چھ ارکان آئے ہیں۔دوستوں کو یہ محاذ بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ سیدھے سیدھے چھ لوگ عمران خان کو جوائن کرتے بلے بلے ہو جاتی،

دھماکا ہو جاتا، منظر نامہ ہی بدل جاتا، ہوا بن جاتی، یہ چھ آتے تو اور آجاتے۔لیکن یہ الگ گروپ بنا کر پیغام دیا گیا ہے کہ نہیں عمران خان کی باری نہیں ہے بلکہ ابھی وزیر اعظم کے لیے بھی کسی نئے سنجرانی کی تلاش جاری ہے۔ گیم عمران خان کے ہاتھ سے روز بروز نکل رہی ہے۔ انتخابات میں وقت کم رہ گیا ہے۔ انھیں اب جلسوں جلوسوں کے بجائے گیم بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ سیاسی دوست بنانے چاہیے جو ان کے لیے راستہ بنائیں۔ وہ جماعت اسلامی کو ساتھ لائیں۔ پنجاب سے چوہدریوں کے بندے توڑنے کے بجائے چوہدری ساتھ لائیں۔ کراچی میں پی ایس پی کو ساتھ لائیں۔ ایک وسیع اتحاد بنائیں تاکہ ماحول بنے کہ ان کی گیم بن گئی ہے۔ آج تا دم تحریر ان کی گیم نہیں ہے۔ باقی آگے کا رب کو پتہ ہے۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…