کن لوگوں کی بددعائوں کی وجہ سے نواز شریف آج اس حال تک پہنچے ہیں اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں ان لوگوں کیساتھ کیا سلوک کرتے رہے؟ نواز شریف کا مستقبل کیا ہے؟جاوید چوہدری نے بڑی پیش گوئی کر دی

23  مارچ‬‮  2018

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان کے معروف کالم نگار جاوید چوہدری اپنے کالم میں نواز شریف کے دوسرے وزارت عظمیٰ کے دور میں آج کے چیف جسٹس اور اس وقت کے سیکرٹری لا ثاقب نثار کے بارے میں انکشاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نواز شریف اور جسٹس ثاقب نثار کے درمیان اختلافات اور دوریاں پیدا شدت اختیار کر چکی تھیں۔ جاوید چوہدری لکھتے ہیں کہ اس وقت کے

وزیراعظم نواز شریف کو حکومت کے سیکرٹری لا ثاقب نثارکے خلاف بھڑکانے میں اس وقت کے اٹارنی جنرل کا اہم کردار تھا، وہ آئی بی کے سپریم کورٹ میں لگے کیسز پر پیش ہونے کیلئے آئی بی سے 35لاکھ روپے فیس وصول کرنا چاہتے تھے جس پر آئی بی کے سربراہ نے سیکرٹری لا ثاقب نثار سے درخواست کی تھی کہ وہ انہیں جسٹس صمدانی کو وکیل کرنے کی اجازت دے دیں‘ میاں ثاقب نثار نے فوراً منظوری دے دی‘ اٹارنی جنرل شکار ہاتھ سے نکلنے پر لاء سیکرٹری کے خلاف ہو گئے‘ یہ ان سے لڑ پڑے‘انہوں نے وزیراعظم کے کان بھی بھر دیئے‘وزیراعظم پہلے ہی بھرے بیٹھے تھے‘ پاکستان مسلم لیگ ن کے بے شمار وکلاء‘ کارکنوں اور ایم این ایز کو بھی لاء سیکرٹری پر اعتراضات تھے‘ وزیراعظم نے ایک دن اٹارنی جنرل سمیت تمام شکایات کنندگان کو وزیراعظم آفس طلب کر لیا‘ یہ دو اڑھائی سو لوگ تھے‘ وزیراعظم نے ان سب کو آڈیٹوریم میں جمع کیا‘ لاء سیکرٹری میاں ثاقب نثار کو بلایا اور کھلی کچہری لگا دی‘ اٹارنی جنرل سمیت ہر شخص وزیراعظم کو اپنی شکایت سناتا تھا اور وزیراعظم لاء سیکرٹری سے پوچھتے ”جی میاں صاحب جواب دیں“ زیادہ تر شکایات تقرریوں سے متعلق تھیں‘شکایت کنندگان کا کہنا تھا‘ ہم پرانے مسلم لیگی ہیں‘ ہماری حکومت ہے‘ آپ نے مجھے فلاں ڈیپارٹمنٹ میں لاء آفیسر بنانے کا حکم دیا تھا لیکن لاء سیکرٹری نے

آپ کے حکم کی پرواہ نہیں کی‘ لاء سیکرٹری کا جواب ہوتا تھا ”سر ان کی ڈگری جعلی ہے‘ ان کا تجربہ پورا نہیں‘ میں انہیں کیسے لگا دوں“ لیکن کارکنوں کا کہنا تھا‘ وزیراعظم سپریم ہیں‘ ان کا حکم آخری ہونا چاہیے‘ میاں ثاقب نثار نے وہاں کھڑے کھڑے فیصلہ کر لیا میں ان لوگوں کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ ”کھلی کچہری“ ختم ہوئی تو یہ خالد انور سے ملے اور اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔

خالد انورجو اس وقت وزیر قانون تھے اور اس وقت کے وکیل ثاقب نثار کو بطور سیکرٹری لا اپنی معاونت اور حکومت کی مدد کیلئے عہدے پر لائے تھے نے ان سے معذرت کی اور کہا ”حکومت کی گورننس دیکھ کر میرا دل چاہتا ہے میں سمند میں چھلانگ لگا دوں“ خالد انور نے 12 اکتوبر 1999ء کے بعد پارٹی اور سیاست دونوں چھوڑ دیں‘ یہ صرف وکالت تک محدود ہو گئے۔

میاں نواز شریف کی ماضی کی یہ وہ غلطیاں ہیں جو ہمالیہ بن کر اس وقت ان کے سامنے کھڑی ہیں اور مجھے محسوس ہوتا ہے یہ اس بار یہ ہمالیہ عبور نہیں کر سکیں گے‘ ان کاشاہانہ مزاج اور ایماندار لوگوں کی تذلیل انہیں اس بار راستہ نہیں دے گی‘یہ اس بار ”اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں“ کا شکار بن جائیں گے‘ باقی اللہ بہتر جانتا ہے اور بہتر کرتا ہے‘

یہ میاں نواز شریف کیلئے کوئی راستہ نکال دے تو اور بات ہے ورنہ ملک کے ہر سمجھ دار شخص کو آگے راستے بند نظر آتے ہیں۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…