الیکشن 2018ء میں فتح، عمران خان کے سامنے اب کوئی رکاوٹ نہیں لیکن ایک چیز ان کیلئے سانپ اور سیڑھی کا کھیل ثابت ہو سکتی ہے اور وہ کیا ہے؟ حیرت انگیز انکشافات

17  مارچ‬‮  2018

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معروف کالم نگار نسیم شاہد اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ یہ بات تو اب ثابت ہوتی جا رہی ہے کہ تحریک انصاف کے پاس انتخابات میں حصہ لینے کے لئے امیدواروں کی کمی نہیں ہے۔۔۔’’ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں‘‘۔ کے مصداق ہر طرف امیدوار ہی امیدواربکھرے پڑے ہیں۔ ایسی پارٹی جو امیدواروں کا جمعہ بازار بن جائے، بڑی خطرناک صورت حال سے دوچار ہوجاتی ہے، کیونکہ ہر امیدوار دوسرے پر خودکش حملہ کرنے کے لئے تیار بیٹھا ہوتا ہے۔

اب خان صاحب نے اس مشکل صورت حال سے نکلنے کے لئے ایک امرت دھارا استعمال کرکے نسخہ نکالا ہے۔ انہوں نے ممبر سازی مہم شروع کرا دی ہے۔ وہ ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف اس کے ذریعے پارٹی کی مہم چلے گی۔ دوسری طرف ممبر بنیں گے اور تیسری جانب امیدوار بننے کے خواہشمندوں سے جان چھڑانے کا موقع ملے گا۔ اب یہ شرط رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی ایم این اے کی ٹکٹ حاصل کرنا چاہتا ہے تو چار ہزار ممبر بنائے، اس کے لئے 50روپے فی ممبر کے حساب سے فارم دیئے جائیں گے اور رقم پیشگی وصول کی جائے گی۔ اسی طرح ایم پی اے کی ٹکٹ کے لئے دو ہزارممبر بنانے کی شرط عائد کی گئی ہے۔ گویا جتنے بھی الیکشن لڑنے کے شوقین ہیں، وہ بالترتیب ایم این اے کے لئے دو لاکھ اور ایم پی اے کے لئے ایک لاکھ روپے کے ممبرشپ فارم حاصل کریں گے۔ ہر ممبر کا شناختی کارڈ، دستخط اور آمادگی کا حلف کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا میں فیڈ کیا جائے گا۔ اب یہ اتنا مشکل ٹاسک ہے کہ شاید ہی کچھ لوگ اسے پورا کر سکیں۔ اس طرح گویا کپتان کو یہ آسانی رہے گی کہ وہ انتخابی ٹکٹیں اپنی مرضی سے تقسیم کر سکیں۔انہوں نے مزید لکھا کہ پی ٹی آئی کا ایک متوقع امیدوار پوچھ رہا تھا کہ کیا جو لوگ مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں، انہیں بھی اس مرحلے سے گزارا جائے گا یا انہیں بالا بالا ہی ٹکٹیں دے دی جائیں گی؟ اب اس بھولے بادشاہ کو میں کیسے سمجھاتا کہ وہ تو شامل ہی اس شرط پر ہو رہے ہیں کہ انہیں انہی حلقوں سے امیدوار نامزد کیا جائے گا،

جہاں سے وہ پہلے منتخب ہو چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس ممبر سازی کے عمل سے تحریک انصاف کو بیٹھے بٹھائے کروڑوں روپے حاصل ہو جائیں گے، اس کا حشر بھی البتہ انٹرا پارٹی الیکشن جیسا ہو سکتا ہے۔۔۔ عمران خان آج کل اس ممبر سازی مہم کے سلسلے میں نکلے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ ملتان بھی آئے اور سات گھنٹوں میں 25سے زائد ممبر سازی کیمپوں کا دورہ کیا۔ افتتاح بھی کرتے رہے اور خطاب بھی۔ مجھے تو ان کی یہ مہم دیکھ کر دو دھائی پہلے کا منظر یاد آ گیا۔ جب عمران خان ملتان آئے تھے اور شہر کے مختلف حصوں کا انہوں نے دورہ کیا تھا۔

اسی دورے میں نصرت روڈ پر پہلی بار ’’وزیراعظم عمران خان‘‘ کے نعرے بھی لگے تھے اور جناب مجیب الرحمن شامی نے اسی عنوان سے ایک دلچسپ کالم بھی لکھا تھا۔انہوں نے مزید لکھا کہ جب عمران خان کی ملتان آمد کا پروگرام بن رہا تھا تو کئی دھڑے اپنے اپنے انداز سے پروگرام ترتیب دے رہے تھے۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ عمران خان ان کے کیمپ میں زیادہ وقت گزاریں۔ کوئی مشرق سے مہم شڑوع کروانا چاہتا تھا اور کوئی مغرب سے۔ ملتان کے دورے میں شاہ محمود قریشی تو عمران خان کے ساتھ نظر آئے۔ جہانگیر خان ترین غائب رہے، البتہ ان کی نمائندگی اسحاق خان خاکوانی کرتے پائے گئے۔

سیاسی جماعتیں جب تک منظم نہ ہوں، نتائج نہیں دے سکتیں۔ یہاں ہر لیڈر کی خواہش تھی کہ عمران خان کو یہ باور کرائے کہ سب سے اچھا امیدوار وہی ہے۔ دورے کے اگلے دن جو اشتہارات اور خبریں شائع ہوئیں، ان میں بھی ٹکٹوں کے خواہشمندوں نے یہی تاثر دیا کہ عمران خان نے ان کی ٹکٹوں کو اوکے کر دیا ہے، پی ٹی آئی کا مقابلہ تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سے ہونا ہے، لیکن فی الحال مقابلہ آپس میں جاری ہے۔ کوئی بھی صرف پارٹی وابستگی کی وجہ سے دوسرے کو قبول کرنے پر راضی نہیں۔

اب اس مسئلے سے نکلنے کے لئے عمران خان نے ممبر سازی کا طریقہ ایجاد کیا ہے، لیکن آگے چل کر سب کو پتہ ہے کہ فیصلے گروپ بندی کی بنیاد پر ہونے ہیں۔معروف کالم نگار اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ چیئرمین سینیٹ کے لئے پیپلزپارٹی سے اتحاد کو اچھا نہیں سمجھا گیا، حالانکہ اس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) اپنا چیئرمین بنوانے میں ناکام رہی۔ اب اگر یہ تاثر گہرا ہوتا چلا گیا کہ عمران خان، مسلم لیگ (ن) کے منحرفین کو ساتھ ملا کے حکومت بنانا چاہتے ہیں تو نہ صرف ان کے کارکنوں میں بددلی پھیلے گی، بلکہ عام ووٹر بھی یہ ضرور سوچے گا کہ صرف نوازشریف نے تو سارا خزانہ نہیں لوٹا، ان کے ساتھ جو لوگ تھے، وہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے، پھر انہیں ساتھ ملا کر عمران خان کیسے نیا پاکستان بنائیں گے؟۔۔۔

ایک کیمپ میں جب عمران خان پہنچے تو مقرر یہ کہہ رہا تھا کہ آج یہ ثابت ہو گیا کہ عمران خان کا ملتان مضبوط ہے۔ ملتان نے عمران خان کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ میں یہ سوچنے لگا کہ چند ہزار لوگوں کے اکٹھے ہونے کو عوام کا فیصلہ کہہ دیا جاتا ہے۔نوازشریف بھی دس پندرہ ہزار افراد کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بیس کروڑ عوام کی عدالت کے فیصلے کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ سب گمراہ کرنے والی باتیں ہیں اور ان کا مقصدمحض سیاسی طور پر خود کو زندہ رکھنا ہے۔ آنے والے انتخابات میں عمران خان کا چانس ضرور ہے، مگر ابھی بہت لمبا سفر باقی ہے، قطرے کے گہر ہونے تک نجانے کیا کچھ رونما ہوتا ہے۔پاکستان میں سیاست سانپ اور سیڑھی کا کھیل ہے، صرف کرکٹ نہیں۔ اس لئے کپتان کو فیصلے سوچ سمجھ کر کرنا پڑیں گے، وگرنہ اوپر سے نیچے آنے میں دیر نہیں لگتی۔

موضوعات:



کالم



عمران خان پر مولانا کی مہربانی


ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…