پولیس کے پاس زینب کے قاتل کی سی سی ٹی وی فوٹیج تھی اور اس چہرے کی تلاش بھوسے کے ڈھیر سے سوئی تلاش کرنے کے مترادف تھا لیکن پولیس نے ایسا کر دکھایا

26  جنوری‬‮  2018

لاہور (نیوز ڈیسک)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ دو بھوکے بھیڑیے جو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیے گئے ہوں، ان بکریوں کو اس سے زیادہ تباہ نہیں کر سکتے، جتنا تباہ آدمی کے دین کو مال کی اور عزت و منصب کی حرص کرتی ہے۔‘‘بغیر کسی شک و شعبہ کے دین اسلام میں مال و دولت کو خطرہ اور فتنہ قرار دیا گیا ہے، ’حضرت کعب بن عیاض رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ وہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:

’’ہر امت کے لیے کوئی خاص آزمائش ہوتی ہے اور میری امت کی خاص آزمائش مال ہے۔اب مال کی اِس آزمائش نے قصور میں قوم کی بیٹی زینب کے ساتھ ہونے والی درندگی جیسے دلخراش واقعے کو ایک دلچسپ موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ اِس واقعہ پر تو کوئی آنکھ ایسی نہیں جو اشکبار نہ ہوئی ہو۔پوری قوم قاتل کو پکڑنے اوراِسے عبرتناک سزادینے کے مطالبے پر یک زبان نظر آئی۔حکومت نے بھی اپنی ذمہ داریوں سے غافل نظر نہ آئی اور شہبازشریف نے بھی قاتل کے پکڑے جانے تک سکون سے نہ بیٹھنے کے اپنے عزم کا اظہار کیا اور عملی طور پر بھی اُنہوں نے قصور میں کئی دورے کئے اور پولیس کی تحقیقات میں ہونے والی پیش رفت کا خود جائزہ لیتے رہے،اور اِس معاملے کے متعلق لمحہ بہ لمحہ با خبر رہے۔قاتل کی نشاندہی کیلئے حکومت پنجاب کی جانب سے ایک کروڑ روپے کے انعام کا بھی اعلان کیا گیا۔۔اور یہی مال’’ایک کروڑ‘‘ ہے جس نے زینب کے والد کو اپنے وکیل کے ہمراہ پریس کانفرنس کرنے پر آمادہ کیا۔پریس کانفرنس میں زینب کے والد کی جانب سے کئے گئے دعوی کے مطابق تحقیقاتی ادارے عمران کو ڈھونڈنے میں ناکام رہے تھے اور دراصل انہوں نے اپنے رشتہ داروں کی مدد سے مشتبہ سلسلہ وار قاتل کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔محمد امین کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے اور ان کے اہلخانہ نے عمران کو دو مرتبہ پکڑا لیکن دونوں مرتبہ پولیس نے اسے رہا کردیا۔دعوی کی وجوہات والد محمد امین کے وکیل آفتاب باجوہ کے اِس بیان پر کھُل کر سامنے آگئیں کہ

وزیرِاعلیٰ کی جانب سے ملزمان کی گرفتاری پر جے آئی ٹی اراکین کیلئے ایک کروڑ روپے انعام کے اعلان کی مذمت کی گئی اور کہا کہ اصل میں تو ملزم کو زینب کے اہلخانہ نے گرفتار کرایا تھا۔اب محمد امین کے لاہور میں وزیراعلیٰ پنجاب کے ہمراہ پریس کانفرنس کے بعد اس بیان کی وجوہات بھی بے نقاب ہوگئیں ہیں کہ وزیر قانون رانا ثنااللہ نے پریس کانفرنس کے دوران ان سے کہا کہ وہ انصاف کے علاوہ کسی اور چیز کا مطالبہ نہ کریں۔زینب کے والد قاتل کی گرفتاری کا کریڈٹ خود لینے پر تُلے ہیں جبکہ حکومتی موقف ہے کہ یہ پنجاب پولیس نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ قاتل کو گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے

غیر جانبدارادارے بی بی سی کی تحقیقاتی رپورٹ بعنوان ’’جیکٹ کے دو بٹن ملزم عمران علی کی گرفتاری میں معاون‘‘میں صاف بیان کیا گیا ہے کہ اس واقعے کے تحقیقات کرنے والے پولیس اہلکاروں میں سے ایک نے بی بی سی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیس کے پاس سی سی ٹی وی شواہد تھے جن میں ایک چہرہ تھا۔مگر اس چہرے کی تلاش بھوسے کے ڈھیر میں سے سوئی تلاش کرنے کے مترادف تھی تو پولیس نے یہ تفتیش کیسے سرانجام دی؟قصور کی آبادی 30 لاکھ کے قریب ہے جس میں سے تحصیل یعنی شہر کی آبادی سات سے آٹھ لاکھ کے قریب ہے۔ اس میں سے خواتین اور بزرگ نکالنے کے بعد 60 سے 70 ہزار کے قریب افراد تفتیش کے پہلے مرحلے میں شامل ہوئے۔

تفتیشی ٹیمیں روٹ پر نکلیں اور اس علاقے کے گھر گھر جا کر ان افراد کی حتمی فہرست بنائی گئی جن کا ڈی این اے کیا گیا۔تقریباً 1100 افراد اس حتمی عمل سے گزرے جن کا ڈی این اے کیا گیا۔ڈی این اے ٹیسٹ کے اس مرحلے پر پاکستان فورینزک سائنس ایجنسی کی جانب سے ایسے افراد کی فہرست سامنے آئی جن کے نتائج قاتل کے ڈی این اے کے قریب ترین تھے۔ان افراد کی فہرست سامنے آنے کے بعد پولیس نے چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع کیا۔پولیس کی تحقیقاتی اپروچ کے مطابق۔سی سی ٹی وی کی فوٹیج میں ملزم عمران علی نے داڑھی رکھی ہے اور ایک زِپ والی جیکٹ پہن رکھی ہے جس کے دونوں کاندھوں پر دو بڑے بٹن لگے ہوئے ہیں۔

مگر مسئلہ یہ تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں جیکٹ کا رنگ سفید نظر آ رہا ہے جو اس کا حقیقی رنگ نہیں مگر یہ کوئی بھی گہرا رنگ ہو سکتا تھا۔چھاپے کے دوران عمران علی کے گھر سے ایسی ہی ایک جیکٹ ملی جس کے دونوں بٹنوں کی مدد سے یہ پولیس ملزم کی گردن تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔اس کا ڈی این اے جب مکمل میچ ہوا تو پھر صرف گرفتاری ہی آخری کام رہ گیا تھا جس میں اس کی والدہ سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے مدد کی۔گرفتاری کے لیے ڈی پی او وہاڑی عمر سعید جنہیں اسی قسم کا کیس ریکارڈ وقت میں حل کرنے کی وجہ سے آئی جی پنجاب نے خصوصی طور پر اس جے آئی ٹی میں شامل کیا تھا ملزم کے گھر گئے اور انہیں گرفتار کر کے گھر کی تلاشی لی۔

یوں ایک سیریل کِلر پولیس کی محنت سے اپنی مخصوص جیکٹ کی وجہ سے پکڑا گیا۔ملزم سے تفتیش کرنے والے پولیس افسران کے مطابق ملزم نے بہت زیادہ پس و پیش نہیں کی اور دوسری بات پر ہی اس آنے سارے قتل اور جرائم مان لیے۔۔ملزم کی والدہ اور چچا نے بتایا کہ انھیں ٹی وی پر فوٹیج دیکھنے کے بعد شک تو ہوا تھا اور باتیں شروع ہوئیں کہ اس کی شکل ملتی ہے مگر کسی نے پولیس کو بتانے کی زحمت نہیں کی۔پولیس کے مطابق ملزم نہ صرف سیریل کِلر یعنی قاتل ہے بلکہ ایک سیریل پیڈوفائل بھی ہے جو نفسیاتی حد تک بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث ہے۔۔۔قوم ایک تکلیف دہ مراحل سے گزری ہے اور الحمداللہ اداروں کی موثر کارکردگی سے اب قاتل پکڑا بھی جاچکا ہے،قوم اِس کے عبرتناک سزا کی منتظر ہے۔خدانخواستہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک کروڑ روپے کی کھینچا تانی سے ہم کسی اور سانحے کو دعوت دے دیں۔محمد امین کو تحمل مزاجی اور دوراندیشی سے مظاہرہ کرتے ہوئے ادروں کی حوصلہ افزائی میں روڑے نہیں اٹکانے چاہیے۔ حوصلہ شکنی ہمیشہ کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ اگرایسا ممکن نہیں توایسی صورتحال میں حکومت کو بھی فراغ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زینب کے اہل خانہ کی دلجوئی کیلئے کوئی مثبت اقدام کر لینا چاہیے۔

موضوعات:



کالم



عمران خان پر مولانا کی مہربانی


ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…