کون سی خامی سلطنت نگل گئی؟ کیا کل کی پریس کانفرنس ایم کیو ایم کی سیاسی غلطی تھی،اس اتحاد کو اتنا غیر سنجیدہ کیوں لیا جا رہا ہے؟ جاوید چودھری کا تجزیہ

9  ‬‮نومبر‬‮  2017

نواب آف بنگال سراج الدولہ انگریزوں کے راستے میں آخری رکاوٹ تھے‘ 1757ء میں پلاسی کی جنگ ہوئی‘ سراج الدولہ کو شکست ہوئی اور پورا ہندوستان انگریز کی جھولی میں چلا گیا‘ سراج الدولہ بڑا تگڑا حکمران تھا‘ دولت بھی بے تحاشا تھی‘ فوج بھی بڑی تھی اور گولہ بارود بھی تھا لیکن وہ اس کے باوجود جنگ ہار گیا‘ انگریزوں نے سراج الدولہ کی ہار کی تحقیقات کیں تو پتہ چلا وہ ایک شاندار شخص تھا‘ بس اس میں ایک خرابی تھی

وہ لوگوں کو بہت جلد معاف کر دیتا تھا اس کی یہ خامی اس کی سلطنت کو بھی نگل گئی اور پورے ہندوستان کو بھی۔ ہم عام لوگ اگر دوسروں کو جلد معاف کر دیں تو یہ ہماری خوبی ہوتی ہے لیکن اگر حکمران معافی میں جلد بازی کریں تو یہ ایک ایسی خامی ہوتی ہے جو بڑی بڑی ریاستوں کے زوال کی وجہ بن جاتی ہے‘ کل ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے بھی یہی غلطی کی‘ ان کے لوگ پی ایس پی میں بھی جا رہے تھے اور آصف علی زرداری نے ڈاکٹر عاصم کو بھی ایم کیو ایم کے لوگ توڑنے کا ٹاسک دے دیا تھا‘ سلیمان مجاہد بلوچ‘ خوش بخت شجاعت اور ڈاکٹر فوزیہ نے آصف علی زرداری سے ملاقاتیں کیں ‘ یہ گھبرا گئے اور انہوں نے گھبراہٹ میں ایک ہی رات پی ایس پی کے ساتھ مل کر ایک نام‘ ایک نشان اور ایک منشور کا اعلان کر دیا‘ انہوں نے اس مصطفی کمال کو چند لمحوں میں معاف کر دیا جوایم کیو ایم کو ناسور کہتے تھے ،جلد بازی میں معاف کرنے کی یہ غلطی پوری ایم کیو ایم کو لے کر بیٹھ گئی‘ پارٹی اب تین حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے‘ ایک حصہ پی ایس پی کے ساتھ اتحاد کیلئے رضامند ہے‘ دوسرا کسی قیمت پر ایم کیو ایم کا نام‘ نشان اور منشور چھوڑنے کیلئے تیار نہیں اور تیسرا حصہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا فیصلہ کر چکا ہے چنانچہ یوں محسوس ہوتا ہے ایم کیو ایم شاید اب چند دنوں کی مہمان ہے‘ یہ پارٹی بہت جلد ق لیگ یا آل پاکستان مسلم لیگ بن جائے گی اور مجھے یوں بھی محسوس ہوتا ہے الطاف حسین کی طرح اب فاروق ستار بھی مائنس ہورہے ہیں۔کیا کل کی پریس کانفرنس ایم کیو ایم کی سیاسی غلطی تھی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کل کے اتحاد کو سنجیدہ نہیں لے رہی ،اس اتحاد کو اتنا غیر سنجیدہ کیوں لیا جا رہا ہے‘ ہم اس پروگرام میں یہ بھی ڈسکس کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔

موضوعات:



کالم



عمران خان پر مولانا کی مہربانی


ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…