تاریخ کا انوکھا ترین مقدمہ، پاکستان سپریم کورٹ کے جج اپنے ہی مقدمے کی سماعت کرینگے اور فیصلہ بھی سنائیں گے روزنامہ جنگ کی رپورٹ میں تہلکہ خیز انکشاف

14  اکتوبر‬‮  2017

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)روزنامہ جنگ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے چار حاضر سرو س، ایک حال ہی میں ریٹائر ہونے والے جج سمیت ہائیکورٹ کے اکیس حاضر جج ایک ایسے وقت میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ہاؤسنگ اسکیم (ایس سی بی اے ایچ ایس )میں پلاٹوں کی دوڑ میں شامل ہیں،جب عدالت عظمیٰ حکومت سے ایک نجی ادارے

کیلئے سیکٹر کی ڈیولپمنٹ کے منفرد مقدمے کی سماعت کرر ہی ہے،مقدمے میں جو بات سب سے پریشان کن ہے وہ یہ کہ سپریم کورٹ کے جج جنہوں نے سکیم میں پلاٹ لینے کیلئے ادائیگی بھی کر دی ہے وہ اس کیس کی سماعت کریں گے۔پاکستان کے موقر قومی روزنامے کی رپورٹ کے مطابق فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ فیڈریشن نے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ان ججوں کے نام کی تصدیق کر دی ہے جنہوں نے پلاٹوں کیلئے اپلائی کیا ہے اور یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ اسے ان کی فہرست دی گئی ہے جنہوں نے ادائیگی کی ہے ،معاملہ اس لیے بھی متنازعہ بن گیا ہے کہ ایس سی بی اے ایچ ایس نے سپریم کورٹ سے یہ ہدایات بھی لے رکھی ہیں کہ حکومت کے متعلقہ محکمے زمین کے حصول اور اس کی ڈیولپمنٹ بھی کریں گے۔سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سے اقتدار کے آخری ایام میں کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کی ہدایات لینے کے بعدا یس سی بی اے ایچ ایس نے سپریم کورٹ سے وزیر اعظم کے احکامات پر عمل درآمد کیلئے رجوع کیا ، عمومی طور پر اس طرح کی رہائشی سکیمیں متعلقہ اداروں سے اجاز ت لینے کے بعد خود ہی زمین خریدتی ہیں لیکن ا یس سی بی اے ایچ ایس نے حکومت سے استدعا کی کہ وہ ان کے لیے مخصوص مقام پر جگہ خرید کر دے جہاں ہزاروں شہری اور مقامی باشندے آباد ہیں، عدالت عظمیٰ نے

وفاقی حکومت کو احکامات جاری کیے ہیں کہ وہ زمین کی خریداری کرے جب کہ حکومت کا کام صرف سرکاری منصوبوں کے لیے زمین خریدنا ہے ،ایس سی بی اے ایچ ایس کلی طور پر ایک غیر سرکاری منصوبہ اور نجی سکیم ہے۔پلاٹوں کے لیے عدالت عظمیٰ کے جن موجودہ معزز ججوں نے اپلائی کیا ہے ان میں جسٹس سردار اعجازفضل خان ، جسٹس فیصل عرب ،

جسٹس مظہر عالم خان اورجسٹس سجا د علی شاہ شامل ہیں۔ ہائیکورٹ کے قریب دو درجن موجودہ ججوں نے بھی اس سکیم میں پلاٹوں کے لیے اپلائی کیا ہے،تا ہم سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی ایک بڑی تعداد نے اس سکیم میں پلاٹوں کے لیے اپلائی نہیں بھی کیا،ر یکارڈ سےثابت ہو تا ہے کہ ایس سی بی اے ایچ ایس سے متعلقہ مقدمے کی پانچ میں سے

آخری سماعت 10اکتوبر کو ہوئی جس کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سنا ، بینچ میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس عمر عطا بندیال شامل تھے، تا ہم جسٹس فیصل عرب نے کیس سے جان چھڑا لی، سپریم کورٹ کے ججوں کے علاوہ ہائیکورٹ کے بیس ججوں نے بھی اس سکیم میں پلاٹوں کے لیے درخواست دے رکھی ہے ، ان میں لاہور ہائیکورٹ کے

آٹھ ججوں کے علاوہ ایک ایڈیشنل جج شامل ہے۔ اسی طرح سندھ ہائی کورٹ کے بھی سات موجود ہ ججوں اور ایک ایڈیشنل جج نے پلاٹ کے لیے اپلائی کیا ہے۔بلوچستان ہائیکورٹ کے تین ججوں نے اپلائی کیا ہے جب کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج اور پشاور ہائیکورٹ کے ایک ایڈیشنل جج نے بھی مذکورہ سکیم میں پلاٹ کیلئے اپلائی کر رکھا ہے، ایس سی بی اے ایچ ایس

میں پلاٹ کے لیے درخواست دینےو الے دیگر بڑے ناموں میں اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی، سابق اٹارنی جنرلز مولوی انوار لحق، انور منصور خان، عاصمہ جہانگیر، سابق وزرائے قانون بابر اعوان ،فاروق ایچ نائیک، سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ خواجہ محمد شریف ، جسٹس ( ر)فقیر کھوکھر اور عارف حسین خلیجی شامل ہیں۔سپریم کورٹ کے ایک سابق جج جنہوں نے

ایس سی بی اے ایچ ایس کے مقدمات بھی سنے، انہوں نے تصدیق کی کہ پلاٹ کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔دی نیوزسے گفتگو کرتے ہوئے معزز جج نے کہا کہ اگرچہ انہوں نے ایس سی بی اے ایچ ایس کے مقدمات سنے ہیں لیکن انہیں اس کی تفصیلات یاد نہیں ،انہوں نے کہا کہ انہیں یاد نہیں کہ 2016کے آخر یا 2017کے آغاز میں پلاٹ کے لیے اپلائی کیا تھا،انہوں نے کہا

پلاٹ کے لیے اپلائی کرنے کے بعد وہ ایس سی بی اے ایچ ایس سے متعلق کسی مقدمے کے بینچ کا حصہ نہیں تھے۔تاہم ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ستمبر 2016تک سوسائٹی کے مقدمات سنتے رہے ہیں۔ایس سی بی اے ایچ ایس سے متعلق مقدمات سننے والوں میں سپریم کورٹ کا پہلا بینچ چیف جسٹس ناصر املک، جسٹس گلزار خان اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل تھا،

جس نے 10 ستمبر2014 کو ایس سی بی اے ایچ ایس کے مقدمے کی سماعت کی، ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے کہ سوسائٹی کے مقدمات کی کل سترہ سماعتیں ہوئی ہیں ، جن میں مختلف بینچ شریک تھے۔30اپریل 2015 جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے جس میں جسٹس سردار اعجاز افضل شامل تھے ،اس نے ایس سی بی اے ایچ ایس مقدمے کے بارے میں فیصلہ دیا ِکہ

’ہمیں آگاہ کیا گیا ہے کہ آئی سی ٹی لینڈ ایکوزیشن کلیکٹرنے ایف جی ای ایچ ایف کے ارکان ا ور ایس سی بی اے کے لیے تحصیل اسلام آباد کے گاؤں تمہ اور موفریاں میں زمین حاصل کی ہے ‘۔ڈی جی ایف جی ای ایچ ایف نے بتایا ہے کہ رہائشی حصہ سرکاری وفاقی ملازمین اور ایس سی بی اے کے لیے ایف جی ای ایچ ایف پارٹی بنیادوں پرڈیولیپ کرے گی اور وہ اپنی پالیسی

کے تحت کمرشل ایریا کو رہائشی پلاٹوں کورعایتی نرخوں پر دینے کے لیے استعمال کرے گی ،ا سی طرح کے ایک اور فیصلے میں جو13اپریل2016کو جسٹس سردار اعجاز افضل کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سنایا جس کے دوسرے رکن مشیر عالم تھے،اس میں کہا گیا کہ پٹیشنر کےفاضل اے ایس سی نے تحریری سمجھوتہ پیش کیا ہے جو سی ڈبلیوا۔1۔ 1کی جگہ لے گا،اس میں

فاضل اے ایس سیز جواب دہندہ اور جواب دہندہ چار خود حاضر ہوئے، وہ مذکورہ سمجھوتے کی شرائط پر متفق ہیں اس لیے پٹیشن کو مذکورہ دستاویز کی بنیاد پر خارج کیا جاتاہے8106.6کنال کے لیے سیکشن فور جاری کر دیا گیا ہے، ایل اے سی اس زمین کے حصول کے لیے قیمت کا تعین دو ہفتے میں کرے گا، ہاؤسنگ فاؤنڈیشن اور ایس سی بی اے 8106.6کنال زمین کے لیے

تخمینہ کردہ رقم کابندوبست کریں گے جیسے ہی رقم کا بندوبست ہو جائے گا کمشنر ریونیو اسلام آباد فوری طور پر لینڈ ایکوزیشن کا نوٹی فیکیشن جاری کریں گے، اور لینڈایوارڈ کا اعلان کریں گے ہاؤسنگ فاؤنڈیشن بلٹ اپ پراپرٹی کی قیمت کا بھی تعین کرے گی۔یہ ذکر بھی بے محل نہ ہو گا کہ وزیر اعظم نے 13نومبر2012کوسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ارکان کیلئے رہائشی سو سائٹی

کی منظوری دی لیکن اس میں کہیں ذکر نہیں کہ اس مقصد کے لیے زمین کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہو گی تا ہم سپریم کورٹ میں جو پٹیشن داخل کی گئی اس میں نہ صرف وزیر اعظم کے احکامات پر عمل درآمد بلکہ زمین کے حصول کی بھی درخواست کی گئی جو وزیر اعظم کے احکامات کے مندرجات سے بالکل مختلف بات ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے

حکم پر عمل درآمد نہیں ہوا تو توہین عدالت سمیت سخت احکامات جاری کیے گئے، دوسری طرف حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں وہ غیر قانونی طور پر چند بااثر افراد کی خوشنودی کے لیے بارہ ہزارافرا دسے جبری طور پر زمین خالی نہیں کرا سکتی۔یہ بھی اہم بات ہے کہ عدالت عظمیٰ کے بینچ میں وہ جج شامل ہوتے رہے ہیں جنہوں نے پلاٹ کیلئے اپلائی کیا یا پھر اپلائی کرنے

کے عمل سے گزر رہے ہیں۔سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس خلیل الرحمان نے دی نیوز سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے حاضر سروس ججوں کو اس طرح کی سکیموں میں پلاٹوں کے لیے اپلائی نہیں کرنا چاہئے اگر کر بھی دیا ہے تو انہیں اس کے مقدمات کی سماعت سے الگ رہنا چاہئے۔کسی بھی سوسائٹی یا ایسوسی ایشن کا رکن ہونا غیر قانونی کام نہیں لیکن

ایک ایسی ہاؤسنگ سوسائٹی جس سے آپ نے پلاٹ لینا ہے اس کے مقدمات کی سماعت بھی کر رہے ہوں ایسی صورت میں سوالات تو اٹھیں گے۔جسٹس (ر)ناصرا سلم زاہد نے کہا کہ حکومت صرف سرکاری مقاصد کے لیے زمین حاصل کر سکتی ہے، مجھے نہیں معلوم کہ اس معاملے میں عدالت نے کس طرح سرکاری مقاصد کی تعریف کی ہے، میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ

آپ جو کچھ بتارہے ہیں وہ ہواہے، وہ کس طرح چنیدہ بااثر افراد کے لیے زمین لینے کا کہہ سکتے ہیں اور وہ کس طرح اسی زمین میں پلاٹ کے لیے اپلائی کر سکتے ہیں جسٹس ناصر اسلم زاہد نے دوٹوک انداز میں کہا کہ کوئی بھی اپنے کاز کے لیے جج نہیں ہو سکتاآپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو کس قدر پر کشش مراعات دی جاتی ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے

ججوں کو حکومت بھی قیمتی پلاٹ دیتی ہے، یہ نہیں ہونا چاہئے اور اسے رکنا چاہئے۔جسٹس(ر) شائق عثمانی نے کہا کہ جج حلف اٹھانے سے پہلے ہی اس سکیم میں پلاٹ کے لیے اپلائی کر سکتے ہیں،جیسے ہی وہ حلف اٹھاتے ہیں ان کی بار ایسوسی ایشن کی رکنیت ختم ہو جاتی ہے، اگر وہ بار کے رکن نہیں تو وہ کس طرح اس سکیم میں پلاٹ کے لیے اپلائی کر سکتے ہیں، اسی طرح

سپریم کورٹ کا جج اس بینچ کا حصہ نہیں بن سکتااگر اس نے اس سکیم میں پلاٹ کے لیے اپلائی کر رکھا ہے۔جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا کہ حلف اٹھانے کے بعد سپریم کورٹ کا جج بار کا رکن نہیں رہتا اس لیے وہ بار کی کسی بھی سکیم کے لیے پلاٹ کے لیے بھی اپلائی کرنے کا حق نہیں رکھتا، اگر انہوں نے اس سکیم میں پلاٹ کے لیے اپلائی کیا بھی ہے تو وہ اس کے مقدمے

کی سماعت نہیں کرسکتے ۔جسٹس(ر)ناصر اقبال نے کہا کہ جج حکومت کی طرف سے ایک پلاٹ کے اہل ہیں اس لئے وہ کسی دوسرے پلاٹ کا استحقاق نہیں رکھتے، وہ ہائوسنگ فائونڈین یا ایس سی بی اے کی کسی سکیم سے پلاٹ نہیں لے سکتے، یہ قابل فہم ہے کہ کوئی بھی جج حلف اٹھا ہے تو وہ بار کا رکن نہیں رہتا۔ جب وہ رکن ہی نہیں تو کس طرح پلاٹ لے سکتے ہیں۔

جسٹس(ر)اللہ نواز نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ اس معاملے پر بڑی سخت ہے کہ حکومت صرف اپنے مقاصد کیلئے زمین لے سکتی ہے تاہم پاکستان کی سپریم کورٹ کا نکتہ نظر دوسرا ہے، ملک کے نامور وکیل عابد حسین منٹو نے کہا کہ جج کو کسی بھی ایسی بینچ میں شامل نہیں ہونا چاہئے جس میں اس کے مفادات موجود ہوں۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…