’’آٹھ سال کی عمر میں اغوا ہوئی ،3بار بکی ‘‘ خوفناک قبائلی رسم ’ملوار‘ کی بھینٹ چڑھنے والی خاتون کی کہانی جس نے سب کو آبدیدہ کر دیا ۔۔ آخر یہ ملوار کیا بلا ہے ؟

26  اپریل‬‮  2017

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)قبائلی رسم ملوار جو کئی نو عمر بچیوں کا بچپن کھا چکی ہے۔ ملوار کی خوفناک چڑیل کا شکار کئی خواتین آج بھی اس معاشرے میں موجود ہیں جن کے ذہن اس رسم سے چھلنی اور چہروں پر متعدد سوالات موجود ہیں۔ اسی طرح کی ایک کہانی صوابی کی آٹھ سالہ نور البہا کی بھی ہے جو صرف آٹھ سال کی عمر میں اغوا ہوئی اور ملوار جیسی خون آشام رسم کا

شکار بن کر اپنے گھروالوں سے کئی دہائیوں تک جدا رہی ۔ایکسپریس ٹربیون کی ایک رپورٹ کے مطابق نور البہا صرف آٹھ سال کی تھی جب اسے اس کے آبائی علاقے صوابی سے اغوا کر لیا گیا اور قبائلی رسم ملوار کے تحت شادی کیلئے کرم ایجنسی کے ایک خاندان کو 70ہزار روپے میں فروخت کر دیا گیا۔ قبائلی رسم ملوار وفاقی عملداری کے علاقے فاٹا میں آج بھی تمام تابناکیوں کے ساتھ جاری ہے جس میں دلہا کا خاندان دلہن کی قیمت ادا کر کے اس کا بیان کر کے اسے لے جاتا ہے۔بہا کے مطابق جب مجھے اغوا کیا گیا تو میں گھر کے باہر اپنی گڑیا کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ ایک عورت نے مجھے دبوچ لیا اور گھسیٹنے لگ گئی، میں بہت چلائی مگر میرا چلانا بے سود رہا اور اور کوئی میری مدد کو نہ آسکا۔ پھر کچھ دنوں بعد مجھے پتہ چلا کہ مجھے ملوار کے تحت کرم ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کے ہاتھوں فروخت کر دیا گیا جو وادی تیراہ میں رہائش پذیر تھا۔ بہا بتاتی ہیں کہ فروخت ہونے والی دلہن کی قیمت کا تعین اس کی جسمانی مضبوطی ، خوبصورتی اورذہانت کے مطابق کیا جاتا ہے۔شادی کے تین سال بعد بہا کے خاوند نے اسے طلاق دینے کا فیصلہ کیا اور اسے طلاق دینے کے بعد ایک اور شخص کو فروخت کر دیا۔بہا کی دوسری شادی 11سال کی عمر میں ایک اور شخص سے کر دی گئی اور ملوار ہوتی

بہا دوسرے ہاتھ بیچ گئی۔ اس کا دوسرا خاوند بسلسلہ روزگار قطر میں رہائش پذیر تھا جہاں اس کی موت واقع ہو گئی ۔ اس کے سسرالیوں نے اس کے خاوند کی وفات کے بعد مال غنیمت سمجھتے ہوئے ایک بوڑھے شخص جس کی پہلے سے دو بیویاں تھیں ملوار کی رسم کے تحت پھر فروخت کر دیا۔ایک ہاتھ سے دوسرے اور پھر تیسرے ہاتھ بکتی نور البہا اس دوران صوابی میں مقیم

اپنے خاندان سے رابطوں کیلئے کوششوں میں مصروف رہی۔ اس نے کئی صوتی پیغامات کیسٹس میں ریکارڈ کروائے اور جاننے والوں سے درخواست کی کہ وہ اس کے گھر والوں کو خط لکھ کر اس کی اطلاع دیں مگر اس کی منت سماجت کا جواب خاموش رہ کر دے دیا جاتا جس کا مطلب تھا کہ اب وہ تمہارا گھر یا تمہارے گھر والے نہیں بلکہ تم ایک ایسا مال ہو جس کو قیمت دے کر خریدا گیا ہے۔

بہا بتاتی ہے کہ اس نے متعدد آڈیو پیغام اور خطوط اپنے گھر والوں کو ارسال کئے مگر کچھ نہ ہو سکا اور بالآخر میں اسے قسمت کا لکھا مان کر خاموش ہو کر بیـٹھ گئی۔ آخر کارایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بہا کے ہاتھ اپنے گھر والوں سے رابطے کا ایک نادر موقع دکھائی دیا جسے اس نے ہر قیمت پر حاصل کرنے کا ارادہ باندھ لیا۔ کرم ایجنسی میں بے گھر افراد کے لئے

لگائے گئے درانی کیمپ میں رہتے ہوئے بہا کو معلوم ہوا کہ کیمپ سے ایک بارات نوشہرہ کیلئے جا رہی ہے جس کیلئے اس نے گھر کے بڑوں سے اجازت لی اور شادی میں شرکت کیلئے بارات کے ساتھ روانہ ہو گئی۔ نوشہرہ اور صوابی جو کہ بہا کا آبائی علاقہ ہے

دونوں جڑواں شہر ہیں جہاں سے وہ با آسانی اپنے گھر والوں تک پہنچ سکتی تھی۔دو تین دن انتظار کرنے کے بعد بہا دوپہر کے وقت اپنے گائوں پہنچ گئی۔ وہ بتاتی ہے کہ جب وہ اپنے آبائی علاقے پہنچی تو وہاں کی ہر چیز بدل چکی تھی ۔ وہاں ایسا کوئی نہیں تھا جو میرے والدین اور گھر والوں کو جانتا ہو۔ اتفاق سے میں وہاں ایک دکاندار سے ملی جس نے مجھے پہچان لیا ۔

دکاندار نے بہا کو اس کے والدین کے انتقال کر جانے کی افسوسناک خبر سنائی جسے سن کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی اسے کچھ سمجھ نہ آیا ۔ آخر اس نے اپنے بھائیوں کی تلاش شروع کی جو علاقہ چھوڑ کر نئی جگہ منتقل ہو چکے تھے۔بہا بتاتی ہے کہ اسے اپنے بھائی کا موبائل نمبر مل گیا جس پر اس نے کال کی دوسری جانب اس کا بھائی بات کر رہا تھا،

بہا نے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے نام بتانے شروع کر دئیے جس کی تصدیق کرتے ہوئے بھائی نے اسے پہچان لیا۔کئی سال کی جدوجہد کے بعد آخر کار بہا اپنے بھائیوں سے ملنے میں کامیاب ہو گئی ۔ اس کے بھائیوں نے اس سے اصرار کیا کہ وہ اب واپس آجائے اور ان کے ساتھ صوابی میں ہی رہے ۔ اپنے بھائیوں سے ملنے کے بعد بہا کی بے چینی ختم ہو چکی تھی ،

بھائیوں کے بے تحاشا اصرار کے باوجود نور البہا نے واپس وادی تیراہ کرم ایجنسی میں اپنے بچوں اور ان کے بچوں کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اب وہ اس قبائلی زندگی کی عادی ہو چکی تھی ، وادی تیراہ کی دشوار گزار پہاڑیاں ہی اس کا مسکن بن چکی تھیں ۔

نور البہا کا اب زیادہ تر وقت اپنے پوتے پوتیوں اور بنیادی مرکز صحت میں کام کرتے ہوئے گزرتا ہے ۔ بہا خدمت خلق کے ایک ادارہ کے ساتھ وابستہ ہے جہاں وہ بنیادی مرکز صحت میں مقامی افراد اور ڈاکٹرز کے درمیان رابطے کار کا کردار ادا کرتی ہے۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…