لندن فلیٹ خریدتے وقت مریم نواز کی بینی فشری میں حکومت نے کیسے فائدہ اٹھایا ، تحریک انصاف نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا

6  جنوری‬‮  2017

اسلام آباد (آن لائن )سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں سچ تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے ، عدالت کو بے اختیار نہ سمجھا جائے، عدالت کے پاس اختیار ہے کہ ریکارڈ پیش کرنے کا حکم جاری کرے۔جمعہ کے روز جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے پانامہ کیس کی سماعت کی ۔سماعت کے آغاز پر مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے عدالت کے روبرو مریم نواز کی آمدنی، جائیداد اور ٹیکس کی تفصیلات جمع کرائیں۔
عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مریم نواز کے نام سے1993 سے 1996 کے درمیان بے نامی فلیٹس خریدے گئے، جب فلیٹ خریدے گئے اس وقت مریم نواز کم عمر تھیں اور ان کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا، دنیا کو دکھانے کے لیے مریم صفدر کو بینی فشری ظاہر کیا گیا، ان کے اصل مالک نواز شریف ہیں، اسی طرح دبئی میں بھی بے نامی سٹیل مل لگائی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ مریم نواز آف شور کمپنیوں کی بینی فیشل مالک ہیں لیکن ان کے پاس جائیداد کے لئے رقم نہیں تھی، 2011 میں مریم نواز نے چوہدری شوگر مل سے 4 کروڑ 23لاکھ جبکہ 2012 میں اپنے بھائی حسن نواز سے 2 کروڑ 89 لاکھ روپے قرض لیا۔
2013 میں پھر والد نے 3 کروڑ سے زائد کی رقم بطور تحفہ دی۔جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ آپ کی بات سے مریم کے زیر کفالت ہونے کا معاملہ واضح نہیں ہوتا،التوفیق کیس میں مریم نواز کا نام نہیں تھا، اس میں میاں شریف، عباس شریف اور شہباز شریف کا نام ہے۔ لندن فلیٹس مریم نواز کو کب اور کیسے منتقل ہوئے۔ کیا مریم کو جائیداد منتقلی کا کوئی دستاویزی ثبوت ہے،کوئی ایسی دستاویز ہے جس سے ثابت ہو کہ 2006 کی ٹرسٹ ڈیڈ غلط ہے۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جائیداد کی تفصیل سے متعلق کوئی دستاویز نہیں تاہم مریم نواز کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی فراہم کردہ دستاویز درست ثابت کریں، ایک دستاویز میں مریم نواز سامبا بنک اور منروا کمپنی سے تعلق ظاہر کرتی ہیں، تحقیقاتی ادارے نے موزیک فرم سے آف شور کمپنیوں کی تفصیلات مانگیں اور کمپنیوں کی ملکیت اور دیگر امور سے متعلق دریافت کیا، تحقیقاتی ادارے کو بتایا گیا کہ لندن فلیٹس کرائے پر نہیں دیئے گئے، ان میں مریم اور ان کی فیملی رہائش پذیر ہے۔جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ بے نامی جائیدادوں سے متعلق قانون موجود ہے، کیا تحفے میں دی گئی رقم بے نامی ہو جاتی ہے، تنازع صرف ٹرسٹی اور بینی فیشل مالک کا ہے، مریم اور حسین نواز کے ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط ہیں اور دونوں ٹرسٹی اس ڈیڈ کو تسلیم بھی کرتے ہیں، فلیٹس کی آمدن نہیں تھی تو ٹرسٹ ڈیڈ کی کیا ضرورت تھی۔ موزیک فرم کو ٹرسٹ ڈیڈ کا نہیں بتایا گیا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اصل سوال ریکارڈ کا ہے، بار ثبوت اس پر ہوتا ہے جس کے قبضے میں چیز ہوتی ہے، معلوماتی خط میں مریم نواز کے ذرائع آمدن فیملی بزنس لکھا ہے، اس بات سے کس حد تک خاندان کے دوسرے لوگوں سے تعلق بنتا ہے، دوسرا فریق بتائے کمپنیاں کب بنی ،کس نے بنائیں اور پیسہ کہاں سے آیا، دوسرے فریق کا موقف سن کر حکم دے سکتے ہیں کہ دستاویز پیش کریں، عدالت کا اختیار ہے کہ دستاویز طلب کرے۔ سچ تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ کیس کی مزید 9 جنوری تک ملتوی کر دی گئی ۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…