توہین رسالت ؐقانون ،اہم قدم اُٹھانے کی تیاریاں

16  اگست‬‮  2016

اسلام آباد(ااین این آئی)سینیٹ فنکشنل کمیٹی انسانی حقوق کے منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہونے والے اجلاس میں توہین رسالت قانون پر عمل درآمد یا طریقہ کار میں تبدیلی کے علاوہ معاملہ زیرغور آیا۔چیئر پرسن سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ قانون میں نہ ترمیم چاہتے ہیں نہ چھیڑ رہے ہیں ۔قانون کے غلط استعمال کو روکے جانے کا معاملہ ہے۔چاہتے ہیں کہ کوئی بے گناہ نشانہ بن کر سزا نہ پائے ۔ اس قانون سے غیر مسلوں کی نسبت مسلمان ذیادہ نشانہ بن رہے ہیں ۔کمیٹی قانون کے درست عمل درآمد کی تبدیلی تجویز کریگی۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ توہین رسالت قانون میں ترمیم نہیں چاہتے اس کا غلط استعمال روکنے کی اشد ضرورت ہے۔توہین رسالت قانون کے غلط استعمال روکنے پر مثبت ،بہتر اور جامع تجاویز دی جا سکتی ہیں۔ اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے جہاں سے بھی رہنمائی ملے لی جانی چاہئے ۔این سی ایچ آر کے چیئرمین نے اچھی سفارشات دی ہیں جن پر غور کر کے اور بہتر تجاویز دی جانی چاہئیں۔ سینیٹر نثار محمد مالاکنڈ نے کہا کہ عام قانون سازی نہیں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔علماء سے بھی مشاورت کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک میں توہین رسالت کے قوانین کا بھی جائزہ لیا جانا چاہئے۔سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ ہم توہین عدالت قانون میں ترمیم کا سوچ بھی نہیں سکتے لیکن قانون پر عمل درآمد کے حوالے سے تحفظات موجود ہیں ۔مفتی عبد الستار نے کہا کہ توہین رسالت قانون کو چھیڑا گیا تو بہت مسئلہ بن جائیگا ۔زیر غور تجاویز پر اسلامی نظریاتی کونسل سے بھی رہنمائی لی جائے۔ سینیٹر ثمینہ عابد نے کہا کہ80 فیصد بے گناہ مارے جاتے ہیں اسلامی نظریاتی کونسل کے تین چار فیصلوں سے دکھ ہو اہے۔ چیئرمین این سی ایچ آر جسٹس (ر) علی نواز چوہان نے کہا کہ میں نے قانون پر عمل درآمد کے حوالے سے جو سفارشات مرتب کی ہیں ان کے تحت کیس کی تحقیقات ایس ایس پی سے کم درجے کا پولیس افسر نہ کرے۔سماعت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سے کم کا نہ کرے۔جھوٹا مقدمہ دائر کرانے والے پر فوجداری مقدمہ درج کیا جائے جب تک الزام ثابت نہ ہو مقدمہ قابل ضمانت قرار دیا جائے ایسے مقدمات کیلئے امام مسجد اور پولیس اہلکاروں کی تربیت انتہائی ضروری ہے ۔حضور ﷺ نے بہت سے ایسے افراد کو معاف کیا تھا ۔ اس مقدمے میں فرد کی پشیمانی کو بھی مدنظر رکھا جائے اگر کوئی توہین رسالت کرنے سے انکار کرتا ہے تو اس صورت میں شبہ کو بھی مدنظر رکھا جائے۔سیکرٹری وزارت انسانی حقوق ندیم اشرف نے کہا کہ اس قانون کے حوالے سے خوف کی فضا قائم ہو گئی ہے کوئی وکیل دفاعی مقدمہ لینے پر آمادہ نہیں ۔ججز بھی مقدمات لینے سے خوف کا شکار ہوتے ہیں۔ توہین رسالت قانون کے غلط استعمال روکنے پر توجہ رکھی ہو گی اور آگاہی کے ذریعے پیغام بھی جائے کہ نیک نیتی سے کام لیا جا رہا ہے۔ توہین رسالت قانون کے غلط استعمال روکنے کیلئے کمیٹی کے مزید اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا جس میں سول سوسائٹی اور معاشرے کے دیگر شعبوں سے متعلقہ اسلامی نظریاتی کونسل،علمائے کرام ،ماہرین ،قانون دانوں کو بھی مشاورت کیلئے مدعو کیا جائیگا۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ میرے اسلامی نظریاتی کونسل پر تحفظات موجود ہیں۔اسلامی نظریاتی کونسل سے رہنمائی کا طلبگار نہیں روشنی کی بجائے اسلامی نظریاتی کونسل درجہ حرارت بڑھاتی ہے۔سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ تمام فریقین کے ساتھ تفصیلی مشاورت کے بعد فیصلے کئے جائیں۔سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ قانون کا غلط استعمال روکنا ضروری ہے ۔ اجلاس میں کراچی آپریشن میں گرفتار ر کئے گئے 6ہزار افراد جو بعد میں رہا ہوئے اور دوران حراست فتاب احمد کی ہلاکت کا معاملہ اور بلوچستان میں ہونیو الے 1200افراد کی اموات کا معاملہ ڈی جی رینجرز ،آئی جی ایف سی ،ہوم سیکرٹری صوبہ بلوچستان کی اجلاس میں عدم شرکت پر موخر ۔ سینیٹر میر کبیر نے کوئٹہ بم دھماکے کو وحشت ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ واقعہ کیسے رونما ہوا احتیاطی تدابیر کیا تھیں اہم ترین کمیٹی تھی بریفنگ دی جانی چاہئے تھیں۔1953کے زلزلے سے یہ بڑا حادثہ تھا۔ چیئر پرسن کمیٹی نسرین جلیل نے کہا کہ ڈی جی رینجرززسندھ ،آئی جی بلوچستان،ہوم سیکرٹری بلوچستان کی اجلاس میں عدم شرکت پر ممبران کمیٹی احتجاج کرتے ہوئے چلے گئے ہیں۔ کمیٹی اجلاس میں بیرون ملک کی ایک جعلی این جی او کی طرف سے کراچی آپریشن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہ ہونے کی رپورٹ پر بھی غور ہوا۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے این جی او کو جعلی ثابت کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی سے رابطہ کر کے تصدیق کرنے کی کوشش کی جس پر رحیم اللہ یوسف زئی نے آگاہ کیا کہ نہ اس جعلی این جی او کا ممبر ہوں نہ ہی رپورٹ دیکھی ہے اور یہ بھی کہا کہ یہ کوئی دو نمبری ادارہ ہے ۔ فرحت اللہ بابر نے مزید کہا کہ رینجرز فوج کا ا دارہ ہے یہ جعلی رپورٹ پیش کر کے فوج کی ساکھ کو خراب کیا جا رہاہے ۔ میں اس بات پر احتجاج نہیں کر رہا کہ جعلی رپورٹ پیش کر کے کمیٹی کو دھوکہ دیا جا رہا ہے بلکہ اس بات پر ہے کہ ہماری فوج کی ساکھ کو متاثر کیا گیا ہے جس کی وجہ سے آئندہ کوئی بھی رینجرز کی بات کو تسلیم نہیں کریگا بلکہ اس کی تحقیقات کرائی جائیں۔سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ ایس پی راو انور اور اس جیسے اہلکار زیر سماعت کیسز پر ٹی وی پر آکر تبصرے کرتے ہیں وہ کس حیثیت سے یہ تحقیقا ت میڈیا کے سامنے لیک کرتے ہیں ،کیا ان کے خلاف کوئی محکمانہ کاروائی نہیں ہوتی۔سیکرٹری وزار ت انسانی حقوق نے کہا کہ جو کیس زیر سماعت ہے اس پر کسی افسر کو بیان دینے کا اختیار نہیں یہ کام عدالت کا ہے۔افسوس کی بات ہے کہ ایسی باتیں میڈیا پر نشر کر دی جاتی ہیں۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ایس ایس پی ایک سرکاری ملازم ہے وہ اپنی حدود سے تجاوز کر رہا ہے ۔سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ وزارت داخلہ سرکاری افسر کی جانب سے تحقیقات کے حوالے سے میڈیا پر بات کرنے کے معاملے کو دیکھے ۔ کوئٹہ دھماکے میں وکلاء کے جاں بحق ہونے والے معاملے پر بھی غور ہوا۔سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ ہمارے وکلاء کی ایک پوری نسل کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔بتایا جائے کہ بلال انور کانسی کونسے کیسز ڈیل کر رہے تھے ۔ لا پتہ افراد کے کیسز دیکھ رہے تھے ا ور جاں بحق ہونے والے باقی وکلاء بھی کون کونسے کیسز دیکھ رہے تھے کمیٹی کو وکلاء کے کیسز کے حوالے سے بھی رپورٹ دی جائے ۔اجلاس میں این سی ایچ آر اور وزارت کے درمیان این سی ایچ آر کے فنڈز کے اجراء،پرنسپل اکاوئنٹنگ آفیسر کے اختیار کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔چیئرمین این سی ا یچ آر نے کہا کہ سیکرٹری وزارت یقین دلائیں گے بجٹ جلد جاری کیا جائیگا۔سیکرٹری کے نیچے رہ کر ادارہ کام نہیں کرے گا ۔ جس پر سیکرٹری وزارت نے آگاہ کیا کہ ایکٹ کے تحت قائم این سی ایچ آر کا فنڈ قائم کیا گیا سو ملین پچھلے سال جاری کر دیا گیا ۔بیس ملین ایک دو دنوں میں جاری کر دیئے جائینگے۔ اجلاس میں کوئٹہ بم دھماکے کے شہداء سینیٹر جہانزیب جمالدینی کے بیٹے سنگت جمالدینی ،سینیٹر نثار محمد مالا کنڈ کی والدہ کے ایصال ثواب اور لواحقین کو صبر جمیل اور زخمیوں جکی جلد صحت یابی کیلئے دعا کی گئی۔آج کے اجلاس میں سینیٹرز فرحت اللہ بابر،نثار محمد،میر کبیر احمد شاہی،محمد علی سیف،ستارہ ایاز،سحر کامران،ثمینہ عابد،مفتی عبد الستار کے علاوہ سیکرٹری وزارت ندیم اشرف ،این سی ایچ آر کے چیئرمین علی نواز چوہان، ڈی آئی جی کوئٹہ شکیل احمد درانی نے شرکت کی۔

موضوعات:



کالم



اللہ کے حوالے


سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…