ماضی کا خوبصورت استعارہ فورٹ منرو!

11  جنوری‬‮  2016

اللہ تعالیٰ نے وطن عزیز میں بہت خوبصورت وادیاں اور پہاڑ تخلیق کئے ہیں جن میں سر فہرست شمالی علاقہ جات اور بعد میں بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں بھی زیارت جیسا خوبصورت مقام تخلیق کر دیا ہے اس طرح ڈیرہ غازی خان سے دو گھنٹے کی مسافت پر فورٹ منرو واقع ہے جو اناری کے نام سے بلوچوں کی تاریخ میں زندہ ہے کیونکہ اس کا قدیم نام اناری ہے اور یہاں پھر لغاری (علیانی) تمن دار کی سرداری ہے اس لیے یہ علاقہ سابق صدر فاروق احمد لغاری مرحوم کے آباؤ اجداد کا بھی تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اب سرداری نظام کو زبردست مشکلات کا سامنا ہے وہ سردار جو کبھی بلوچوں کے سیاہ سفید کا مالک ہوا کرتا تھا لیکن اب ایسا نہیں رہا لیکن اب یہ بلوچ باشعور اور تعلیم یافتہ ہو رہے ہیں فورٹ منرو6ہزار فٹ سے زائد بلندی پر واقع ایک صحت افزا مقام ہیں جس کو 1887ء کرنل منرو نے فتح کرنے کے بعد اپنے نام پر فورٹ منرو بنا کر بسایا اس وقت انگریزوں نے اناری کو فتح کرنے کے لیے سب سے پہلے ایک سڑک تعمیر کروائی اور اس راستہ سے ہی بعد میں انگریز بلوچوں پر قابض ہوئے ۔فورٹ منروبھی 1950ء سے قبل آزاد قبائلی علاقہ تھا جو بعد میں تمن داروں کی اکثریت رائے کے بعد پنجاب کا مستقل حصہ بن گیا۔ کرنل منرو کے قلعہ کے آثار اب قریباً مٹ چکے ہیں صرف چند خستہ حال دیواریں رہ گئی ہیں اس جگہ پر بلوچوں نے انگریزوں کا مقابلہ کیا تھا اور کئی

243931

ماہ تک انگریز فوج کو اپنی توڑدار بندوقوں سے فائرنگ کرتے ہوئے رکے روک رکھا‘

بعد میں سرداروں کی مداخلت سے بلوچ پیچھے ہٹ گئے اور یوں پنجاب کی آخری سرحد اور بلوچستان کی ابتدائی سرحد پر حکومت برطانیہ کا جھنڈا لہرانے لگا ۔کرنل منرو کے بعد کرنل سنڈیمن جب ڈیرہ غازی خان کا پی اے ڈپٹی کمشنر بنا تو اس نے جہاں پر پوری بلوچ قوم کے لیے ناقابل فراموش خدمات سرانجام دی تو وہاں پر فورٹ منرو میں ڈی سی ہاؤس اور پی اے ہاؤس بھی تعمیر کروائے جو آج تک کرنل سنڈیمن کی یاد میں باقی ہیں۔ حکومت برطانیہ ہی کے دور میں فورٹ منرو کو مقبولیت ملنا شروع ہوئی جبکہ اپریل سے لے کر ستمبر تک حکومت برطانیہ کا گرمائی ہیڈ کواٹر فورٹ منرو ہی ہوتا تھا ‘گھوڑوں کے ذریعے ڈاک ملتان اور ڈیرہ غازی خان سے فورٹ منرو تک انگریز کمشنر اور ڈپٹی کمشنر تک لائی جاتی جبکہ مقامی فیصلے بلوچ تمن دار سردار جرگہ کے ذریعے کیا کرتے تھے وہ امن اور خوشی کا دور تھا کہ جب ایک تنہا آدمی پیدل یا گھوڑے پر سوار ہو کر بلوچستان تک چلا کرتا تھا مقامی جرگہ میں قتل اور اغوا کے فیصلہ جات بھی بھر پور انصاف کے ذریعے ہوا کرتے تھے جن کو انگریز انتظامیہ بھی تسلیم کیا کرتی تھی بلوچوں کو ان کے رسم و رواج کے مطابق رہنے کی مکمل طور پر آزادی تھی اور ان کے جرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی باڈر ملٹری پولیس کا نظام سنڈیمین نے متعارف کروایا۔ بی ایم پی میں مقامی بلوچوں بھرتی ہوا کرتے تھے جن کا سربراہ پی اے(پولیٹکل اسسٹنٹ) ہوتا ہے یہ نیم فورس پہاڑ کے اندر امن قائم رکھنے کا کام کرتی تھی اور اب بھی کسی نہ کسی

243931 copy

رنگ میں بی ایم پی نے اپنے وجود کو قائم رکھا ہواہے۔

فورٹ منرو کی ترقی سابق صدر فاروق لغاری کے دور میں ہوئی جس میں پینے کے پانی کا مسئلہ بھی حل کیا گیا اور پہاڑوں سے نکلنے والے منہ زور جھرنوں پر پل بھی تعمیر کئے گئے اور سڑکیں بھی بنائی گئی۔ لیکن بعد میں تعمیراتی کام نہ ہونے کی وجہ سے اب ڈیرہ غازی خان سے فورٹ منرو تک سڑک ٹو ٹ پھوٹ کا شکار ہے ‘دوسری طرف اس خوبصورت ٹھنڈی وادی میں گزشتہ تین برس سے پینے کے پانی کا مسئلہ عروج پر ہے یہاں پر اانے والے سیاحوں کو پانی کیلئے دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ مقامی لوگ ٹرالیوں کے ذریعے دور سے پانی حاصل کرکے مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں اب یہ نوید سنائی جارہی ہے کہ پانی کا مسئلہ رواں برس حل کرلیا جائے گا اس طرح65کروڑروپے کی لاگت سے چیئر لفٹ کا منصوبہ بھی بن چکا ہے جن پر بہت جلد کام شروع ہونے والا ہے۔ فورٹ منرو میں دامیس جھیل کے نام ایک خوبصورت مقام بھی ہے جہاں کبھی ایک کشتی بھی چلا کرتی تھی جو اب حوادث زمانہ کی نظر ہو چکی ہے اور جھیل بھی کئی دفعہ خشک ہو چکی ہے ۔ روایت کے مطابق اس جھیل میں کرنل منرو کی لاڈلی بیٹی دامیس ڈوب کر ہلاک ہوئی تھی اسلئے جھیل کو دامیس کا نام دیا گیا۔ فورٹ منرو میں انگریز کیپٹن مسٹر ایم ایل کی 26سالہ بیوی مسزمیڈویلون کی قبر سمیت پانچ قبریں ہیں جن میں آٹھ ماہ کے انگریز بچے جیمیز کی قبر بھی جن کی کتبہ تاریخ پیدائش 23ستمبر1897ء اور وفات26اپریل1898ء درج ہے مسز میڈویلون کی قبر2007ء میں برطانیہ سے آئے ہوئے اسکے انگریز سیاح رشتہ داروں نے کھود کر اس میں سے قیمتی نوادرات اس کا جسد خاکی فورٹ منرو سے چوری کر کے لیے گئے۔ یہ قبر1906ء میں بنائی گئی تھی اور اس وفا شعار 26سالہ بیوی سے انتہائی محبت کرنے والے خاوند کیپٹن مسٹر ایم ایل نے انتہائی عقیدت سے تعمیر کروائی جس پر پرانی انگلش میں ایک انتہائی خوبصورت عبارت بھی کندہ کروائی جو اب ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے بوسیدہ ہو چکی ہے انگریز وں نے یہاں نہانے کے جو تالاب بنوائے تھے وہ بھی

CXSZC

حوادث زمانہ کی نظر ہو چکے ہیں لیکن ان تالابوں کے آثار موجود ہیں ۔

فورٹ منرو کی آب و ہوا خشک ہے کیونکہ سبزہ کی کمی ہونے کی وجہ سے آب و ہوا خشک ہو جاتی ہے۔ فورٹ منرو کی شمال میں گور جانی تمن دار کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے جبکہ ڈیرہ غازی خان اور چوٹی تک جانے کیلئے قدیم سڑک بھی اب تک موجود ہے اس طرح فورٹ منرو سے بلوچستان اور افغانستان جانے کے لئے قدیم راستہ بھی موجود ہے جو انتہائی دشوار گزار ہے اور قدیم دور میں اسی راستوں میں اونٹوں اور گھوڑوں کے ذریعے سفرکرنا بڑا مشکل ہوتا تھا کیونکہ یہ تنگ راستہ بڑی بڑی رود کوہوں اور چٹانوں کو کاٹ کر بنایا گیا ہے کیونکہ اس زمانہ کے لوگ طاقت اور مشکلات کے عادی تھے اور ہم جیسے لوگ کمزور اور سہل پسندی کے عادی ہیں۔ جو اس راستے پر سفر کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ فورٹ منرو میں بلوچوں کے مختلف فرقے آباد ہیں۔ جن میں علیانی‘ بجرانی‘ شاہوانی‘ ہیدانی‘ والیدنی‘ قاعانی‘میریدانی وغیرہ شامل ہیں۔یہ تمام فرقے علیانی لغاری کو اپنا سردار تسلیم کرتے ہیں جبکہ لغاری سردار نائیر کوٹ برکھان بلوچستان سے دوسو سال قبل ہجرت کر کے چوٹی کے مقام پر حملہ کر کے احمدانیوں سے چھین کر اس تمام علاقہ کے سردار بن گئے تھے۔ لغاریوں میں سردار جمال خان لغاری اور سردار فاروق لغاری مرحوم نے زبردست مقبولیت حاصل کی اور اب ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ سردار جمال خان لغاری بھی اپنے آباؤ اجداد کی طرح یہاں کے مکینوں کے لیے لازوال کام کروائیں تا کہ ان کا نام ان بلوچوں میں زندہ رہے۔



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…