بی این پی کی آل پارٹیز کانفرنس،گوادر کے بارے بڑا مطالبہ،ن لیگ نے بڑا اعتراف کرلیا

10  جنوری‬‮  2016

اسلام آباد(نیوزڈیسک) بی این پی مینگل کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاءنے تمام صوبوں کوبرابر کے حقوق دینے اوروزیراعظم سے اپنی طرف سے بلائی گئی اے پی سی میں کئے گئے وعدے پورے کرنے کامطالبہ کرتے ہوئے کہاہے کہ امن نہیں ہوگا تو راہداری نہیں بنے گی،تمام قومیتوں کو شریک کئے بغیرملک ترقی نہیں کرسکتا،ناانصافی ہوگی توجنگیں ہونگی،ہمیں اپنی ترجیحات بدلناہونگی،آئین کے تحت اپنے حقوق کامطالبہ کرتے ہیں، نظرثانی کے چکرمیں کہیں آئین متنازع نہ ہوجائے،گوادرپربلائی گئی اے پی سی اقتصادی راہداری کی نذرہوگئی،بلوچستان کے85فیصد عوام صاف پانی پینے سے محروم ہیں، گوادر کو اقتصادی راہداری میں سے کوئی حصہ نہیں دیا جا رہا ، راہداری کے خلاف نہیں لیکن جائز حق ملنا چاہیے،18 ویں ترمیم پر عمل درآمد کردیا جائے تو تمام معاملات خود بخود حل ہو جائیں گے،کے پی کے اور بلوچستان کو پسماندہ رکھا جارہاہے، حقوق کی بات کریں تو ہمیں غدار کہا جاتا ہے، صرف نقشوں میں لائنیں دکھا کر خوش نہ کیا جائے، حقائق سے آگاہ کیا جائے، تحفظات دور نہ کئے گئے تو اندر ہی اندر لاوا پکتا رہے گا، اقتصادی راہداری کے سیاسی جماعتوں کے دکھائے گئے نقشے درست نہیں، کسی بھی صوبہ کو نظرانداز کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پنجاب میں کوئی ایک میٹرو یا اورنج ٹرین اور آئل اینڈ گیس پائپ لائن کا کوئی منصوبہ سی پیک میں شامل نہیں ، اقتصادی راہداری کا کوئی بھی روٹ تبدیل نہیں کیا گیا اور نہ ہی کوئی انتظامی پلاننگ کی گئی ہے، کراچی پشاور موٹر وے 1990 کا منصوبہ ہے،اقتصادی راہداری منصوبہ میں کسی قسم کی غیرشفافیت نہیں ہوگی، دنیا کے تھنک ٹینک راہداری منصوبہ کو گیم چینجر قرار دے رہے ہیں،پاکستان ریلوے کو پچاس سالوں میں یتیم اور لاوارث سمجھا گیا،اقتصادی راہداری منصوبہ کے تحت ریلوے کا پہلا فیز2020 ءجبکہ دوسرا فیز2025ءتک مکمل ہوگا، رواں مالی سال کے آخر تک ریلوے کا خسارہ کم کرکے 24 ارب روپے لائیں گے، ایک دوسرے کا نکتہ نظر سمجھنا ہی جمہوریت ہے اور یہی آمریت اور جمہوریت کا فرق بھی ہے۔اتوارکوبلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کے زیراہتمام اسلام آباد میں پاک چین اقتصادی راہداری پر مختلف سیاسی جماعتوں کے اعتراضات ، تحفظات اور اختلافات پرغور وفکر اورمشترکہ حل نکالنے کےلئے آل پارٹیز کا نفرنس منعقد کی گئی۔کانفرنس میں وفاقی وزراءاحسن اقبال، خواجہ سعد رفیق، سینٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق، سردار اختر مینگل، مولانا فضل الرحمان، آفتاب احمد خان شیرپاﺅ، محمود خان اچکزئی، افراسیاب خٹک، فرحت اللہ بابر، لیاقت بلوچ اور بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک سمیت مختلف سیاسی رہنماﺅں نے شرکت کی۔ کانفرنس میں تمام جماعتوں کے رہنماﺅں نے اپنے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ چین سے گوادر تک کسی بھی موٹر وے کی فنانسنگ چین کی طرف سے نہیں کی گئی۔انہوں نے واضح کیا کہ اقتصادی راہداری منصوبہ کے تحت آنے والے 46ارب ڈالر پاکستان کی صوابدید پر نہیں ہیں اور نہ ہی یہ سرکاری شعبہ کا ترقیاتی پروگرام کا حصہ ہے، اس میں سے 35 ارب ڈالر توانائی کے شعبہ میں لگ رہے ہیں جبکہ 11 ارب ڈالر انفراسٹرکچر اور شاہراہوں پر لگیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ اور پشاور سے دو مزید کوریڈور بن رہی ہیں۔ تاپی اور کاسا 1000 خیبرپختونخوا سے ہوکر گزرے گا، اقتصادی راہداری منصوبہ دوطرفہ ہے اور اس پر چین اور پاکستان کے ماہرین کا کسی منصوبہ کی فزیبلٹی رپورٹ پر اتفاق ضروری ہے، حکومت پاکستان تنہا ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 46 ارب ڈالر پہلا فیز ہے، 2030 تک کئی سو ارب ڈالر پاکستان میں آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے دن ہی یہ اتفاق ہوا تھا کہ اس کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے، عالمی مالیاتی ترقیاتی اداروں سے جہاں ممکن ہوا ان سے معاونت لی جائے گی جہاں ممکن ہوا حکومت پاکستان سرمایہ لگائے گی۔ اسی طرح چین بھی اپنے وسائل سے اس منصوبہ پر سرمایہ کرے گا، یہ 15 سالہ منصوبہ ہے، اس کی مفاہمت کی یادداشت میں واضح لکھا ہے کہ یہ مرحلہ اور ایک ترتیب سے مکمل ہوگا۔ اقتصادی راہداری منصوبہ میں کسی بھی سطح اور کسی بھی مرحلہ پر کسی صوبہ سے کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوگا، یہ قومی منصوبہ ہے اور چینی صدر پارلیمنٹ میں بھی تمام جماعتوں سے اس کا وعدہ کرکے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے الزام عائد کیا ہے کہ راہداری منصوبہ کے تحت آنے والے 46 ارب ڈالر کی تفصیلات چھپائی جا رہی ہیں، اس کی مکمل تفصیلات 28 مئی کی اے پی سی میں دی گئی تھیں جبکہ دونوں ایوانوں کی قائمہ کمیٹیوں اور خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو بھی اس کی معلومات دی گئی ہیں اس میں کوئی چیز خفیہ نہیں رکھی گئی، انہوں نے بتایا کہ ان 46 ارب ڈالر میں سے 35 ارب 8 کروڑ 30 لاکھ ڈالر توانائی کے شعبہ میں آئی پی پیز کے ذریعے لگائے جائیں گے جن سے 17045 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی، روڈ یا ہائی وے پر چھ ارب دس کروڑ ڈالر، ریلوے کے دو منصوبوں پر تین ارب 69 کروڑ، گوادر میں دس منصوبوں پر 97 کروڑ 90 لاکھ ڈالر اور آپٹک فائبر کے ایک منصوبہ پر چار کروڑ چالیس لاکھ ڈالر لگائے جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب میں توانائی کیلئے مختص سرمایہ میں چھ ارب 90 کروڑ ڈالر، بلوچستان میں 7 ارب دس کروڑ ڈالر، جبکہ سندھ میں 11 ارب 50 کروڑ ڈالر کے منصوبے شامل ہیں۔خیبرپختونخوا میں 870 میگاواٹ کا سکی کناری کا منصوبہ اس میں شامل ہے۔داسو پر چار ارب ڈالر لگائے جائیں گے۔ احسن اقبال نے کہا کہ معلومات کی کمی کی وجہ سے خدشات پیدا کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انرجی کے جن منصوبوں کا ہوم ورک مکمل تھا ان کو اقتصادی راہداری منصوبہ میں شامل کیا گیا۔کوئلہ کے منصوبوں کو ترجیح دی گئی کیونکہ پاکستان کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے اور ہم کم سے کم مدت میں اس بحران سے قوم کو نجات دلانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر مشرقی اور مغربی دونوں روٹس کا نقشہ بھی شرکاءکو دکھایا۔ کل جماعتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جن علاقوں سے تیل گیس سمیت دیگر ذرائع موجود ہیں وہاں کے لوگوں کو بنیادی حقوق دینے سے کسی کو انکار نہیں، پنجاب کو وسائل کے استمعال کا طعنہ دینے والوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ لاہور کا دورہ کریں، ایسا نہیں کہ سارا کچھ ایک جگہ ہی لگایا گیا ہے ، سوئی سے نکلنے والی گیس دیگر علاقوں میں پہلے دی جانی اور وہاں کے لوگوں کو بعد میں اس کی فراہمی ناانصافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تین صوبوں کو جوڑنے والے ریلوے کے موجودہ ٹریک پر 70 فیصد مسافر سفر کر رہے اور مال برداری ہورہی ہے اس لئے اقتصادی راہداری منصوبہ میں پہلے مرحلہ پر 2020ءاس روٹ کو مکمل کیا جائے گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ریلوے کو بہتر اور قومی اثاثہ بنائیں جو منافع بخش ادارہ ہو، ساری زندگی کشکول لے کر نہیں پھرنا چاہتے اگر ہم نے ریلوے کو منافع بخش بنانا ہے تو ایم ایل ون پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی اس مرحلہ میں کراچی سے کوٹری تک نیا ٹریک بچھے گا، دوسرے فیز میں اٹک سے کوٹری تک ریلوے لائن بچھے گی اور یہ مرحلہ 2025ءمیں مکمل ہوگا، ہم صرف چین کی سپورٹ پر یقین نہیں رکھتے بلکہ بی او ٹی کی بنیاد پر دنیا بھر سے سرمایہ کاری کا خیرمقدم کریں گے۔کانفرنس سے آفتاب احمد خان شیرپاﺅ، افراسیاب خٹک، فرحت اللہ بابر، لیاقت بلوچ ، بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک،سرداراخترمینگل سمیت دیگرنے بھی خطاب کیا۔پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمودخان اچکزئی نے اپنے خطاب میں کہاکہ امن نہیں ہوگا تو راہداری نہیں بنے گی،تمام قومیتوں کو شریک کئے بغیرملک ترقی نہیں کرسکتا،ناانصافی ہوگی توجنگیں ہونگی۔انہوں نے کہاکہ تمام صوبوں کو برابرکاحق دیاجائے کسی سے ناانصافی نہ کی جائے۔جے یوآئی کے سربراہ مولانافضل الرحمان نے اپنے خطاب میں کہاکہ آئین جو حق دیتا ہے اس کے مطالبے پرہمیں کیاکچھ کہہ دیاجاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں اپنی ترجیحات بدلناہونگی۔ مولانافضل الرحمان نے کہاکہ آئین کے تحت اپنے حقوق کامطالبہ کرتے ہیں، نظرثانی کے چکرمیں کہیں آئین متنازع نہ ہوجائے۔ اس موقع پر انہوں نے شکوہ کیاکہ گوادرپربلائی گئی اے پی سی اقتصادی راہداری کی نذرہوگئی۔ بی این پی مینگل کے سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ 85 فیصد بلوچ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، 80 فیصد بلوچ علاقوں میں گیس نہیں جب کہ 60 فیصد بلوچ علاقے بجلی سے محروم ہیں۔ 63 فیصد بلوچ غربت کی لکیرکے نیچے زندگی بسرکررہے ہیں۔ ہم اقتصادی راہداری کے خلاف نہیں لیکن بلوچستان کو اس کا جائز حق ملنا چاہیے، صوبے میں 12ہزار افراد پر مشتمل سیکیورٹی ڈویڑن بنایا جارہا ہے لیکن اس میں بلوچستان سے کسی کو بھرتی نہیں کیا جارہا، گوادر میں ترقیاتی کاموں پر کچھ خاص کام نہیں ہوا،گوادر کی تصویر کو دیکھا جائے تو چند مکانات کے علاوہ باقیوں کی حالت ابتر ہے، گوادر کو اقتصادی راہداری میں سے کوئی حصہ نہیں دیا جا رہا ،گوادر کی ملکیت بلوچستان کودی جائے۔ بلوچستان سے استحصال کا فوری خاتمہ کیا جائے، بندرگاہوں اور قدرتی وسائل بارے صوبے کو بااختیار بنایا جائے، گوادر کے مقامی لوگوں کو حق رائے دہی دیا جائے اور صوبے میں جغرافیائی تبدیلیوں کو بند کیا جائے۔گوادر منصوبے کو دیکھا جائے توکچھ علاقوں میں ترقی ہوتی نظر آتی ہے۔نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو نے کہا کہ اقتصادی راہداری منصوبہ بلوچستان کے تشخص کا مسئلہ ہے، اگر 18 ویں ترمیم پر عمل درآمد کردیا جائے تو تمام معاملات خود بخود حل ہو جائیں گے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ترقی میں ہماری ترقی ہونی چاہیے، ہمیں سوچنا ہوگا کہ یہ نوبت کیوں آئی۔ اعلان کیاگیا کہ مغربی روٹ پہلے بنے گا ہم نے یقین کر لیا۔ ہمارا حق تھا کہ منصوبے کی پہلی اینٹ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں رکھی جاتی۔ وہ صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں مگر ان سے کسی نے رابط نہیں کیا، وہ ذاتی حیثیت میں چین کے سفیر سے ملے لیکن ان کا جواب بتایا نہیں جاسکتا۔ بلوچستان میں ایک سڑک کا افتتاح کیا گیا جس کو مغربی روٹ کا نام دیا گیا 46 ارب تقسیم ہو چکے ہیں اور ہم یہاں بیٹھے ہیں۔پرویز خٹک نے کہا کہ کے پی کے اور بلوچستان کو پسماندہ رکھا جارہاہے اور صرف پنجاب میں منصوبے کیوں بنائے جا رہے ہیں۔ کیا ہم اندھے یا نا سمجھ ہیں جو ہمیں سمجھ نہیں آتی، ہم ملک کے خلاف یا غدار نہیں لیکن حقوق کی بات کریں تو ہمیں غدار کہا جاتا ہے، صاف بتا دیں کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو ترقی دینا ہے یا نہیں، ان کے صوبے میں سڑکیں اور سہولیات نہیں ہوں گی تو کیسے انڈسڑیل زون بنائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں صرف نقشوں میں لائنیں دکھا کر خوش نہ کیا جائے بلکہ حقائق سے آگاہ کیا جائے، افسوس ہے کہ مشاہد حسین سید سے بھی انصاف نہیں ملا، ہمارے تحفظات دور کر دیئے جائیں، تحفظات کا اظہار نہیں کریں گے لیکن اگر تحفظات دور نہ کئے گئے تو اندر ہی اندر لاوا پکتا رہے گا۔وزیراعلی پرویز خٹک نے کہا کہ اقتصادی راہداری منصوبے کی رقم کہاں لگنی ہے یہ فیصلہ ہوچکا ،46 ارب میں سے34 ارب صرف بجلی کے منصوبوں پر لگیں گے۔انہوں نے کہاکہ وہ اپنے طورپرچینی حکام سے ملے لیکن جو جواب ملا وہ بتا نہیں سکتے ، وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود سی پیک پر ان سے کسی نے رابطہ نہیں کیا۔جے یو پی کے اویس احمد نورانی نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے بلوچستان حکومت کو پیکج دیا مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوا، کانفرنس کے بعد ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے جو وزیراعظم کو تحفظات سے آگاہ کرے۔



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…