عدالت نے نواز شریف کو ضمانت کیوں دی، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے وضاحت کردی،تفصیلات جاری

26  اکتوبر‬‮  2019

اسلام آباد (این این آئی) اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر منگل تک کی عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے  20، 20 لاکھ کے دو مچلکے جمع کرانے کا حکم دیدیاجبکہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہرمن اللہ نے کہاہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کو ضمانت دینے پر کوئی اعتراض نہیں، عدالت نے نواز شریف کو انسانی ہمدردی کے تحت ضمانت دی۔

ہفتہ کو پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف کی جانب سے اپنے بھائی اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کیلئے دائر متفرق درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سماعت کی تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق کو چھٹی پر ہونے کے باعث اس بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔واضح رہے کہ شہباز شریف کی جانب سے 24 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی سزا معطلی کی درخواست دائر کی گئی تھی اور استدعا کی تھی کہ اپیل پر فیصلہ ہونے تک طبی بنیادوں پر نواز شریف کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔اسی درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ نواز شریف کو ان کی مرضی کے مطابق پاکستان میں یا بیرونِ ملک علاج کروانے کی اجازت دی جائے۔ ساتھ ہی درخواست میں چیئرمین اور ڈائریکٹر جنرل نیب کو فریق بنایا گیا جبکہ اس کے ساتھ نواز شریف کی میڈیکل ہسٹری بھی فراہم کی گئی تھی۔اس معاملے پر گزشتہ روز بھی سماعت ہوئی تھی اور مزید سماعت منگل (29 اکتوبر) تک ملتوی کردی گئی تھی تاہم سابق وزیراعظم نواز شریف کی بگڑتی صحت کو دیکھتے ہوئے شہباز شریف نے اپنے وکیل خواجہ حارث کے توسط سے سزا معطلی کی سماعت ہفتے کو ہی کرنے کی ایک متفرق درخواست دائر کردی تھی۔سماعت کیلئے دائر کی گئی درخواست کے ساتھ نوازشریف کی تمام بیماریوں کی تفصیلات اور ان کی میڈیکل رپورٹس بھی منسلک کی گئی تھیں جس کو دیکھتے ہوئے عدالت نے اس معاملے کو سماعت کیلئے مقرر کیا۔

سماعت کے آغاز پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نمائندگی کرنے والے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کو گزشتہ رات معمولی ہارٹ اٹیک ہوا،جس کے بعد سے ان کی طبیعت مزید خراب ہوئی ہے اور نواز شریف کی جان کو خطرہ ہے۔سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے پوچھا کہ گزشتہ روز جو میڈیکل رپورٹ جمع کروائی اس کے بعد طبیعت کی صورتحال کیا ہے کہ درخواست دائر کرنی پڑی، گزشتہ روز کی میڈیکل رپورٹ کھولی گئی،

پڑھی گئی، آج کی نوبت کیوں آئی؟اس موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ اگر طبیعت انتہائی تشویش ناک ہے تو اس بارے میں آگاہ کیجیے۔ انہوں نے کہا کہ جو رپورٹ گزشتہ روز پیش کی گئی اس کے علاوہ اگر کوئی رپورٹ ہے جس میں ان کی طبیعت کی صورتحال بیان کی گئی ہو تو بتائیے۔اس پر وکیل صفائی نے بتایا کہ گزشتہ روز جو رپورٹ پیس کی گئی وہ 24 اکتوبر کی تھی، رپورٹ میں بتایا گیا کہ نواز شریف کو معمولی نوعیت کا ہارٹ اٹیک ہوا۔عدالت میں وکلا کی جانب سے

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی نقل عدالت میں پیش کی گئی جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا فریقین نے مخالفت کی، جس پر وکیل نے بتایا کہ زیادہ مخالفت نہیں کی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈویژن بینچ نے اس معاملے کو منگل کے لیے رکھا ہے تاہم انہوں نے کہا کہ سزا یافتہ قیدی کی طبیعت اگر ناساز ہے تو صوبائی حکومت کو اختیار ہے کہ وہ سزا معطل کرسکتی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسی صورت میں معاملہ عدالت میں نہیں آنا چاہیے،

فریقین اور پنجاب حکومت کو بلاکر پوچھ لیتے ہیں۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ میں بھی تحریر ہے کہ نواز شریف کی طبیعت تشویش ناک ہے۔علاوہ ازیں عدالت نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ رجسٹرار آفس نے بتایا کہ ٹی وی چینلز پر ڈیل سے متعلق خبریں نشر کی گئیں اس پر عدالت نے متعلقہ چینلز اور اینکرز کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کردئیے۔عدالت عالیہ نے چیئرمین پیمرا، 2 ٹی وی پروگرامز’بریکنگ نیوز ود مالک‘ اور اینکر سمیع ابراہیم کو نوٹس جاری کیے، ساتھ ہی پروگرام میں شرکت کرنے والے عامر متین،

کاشف عباسی اور حامد میر کو بھی نوٹس جاری کردئیے گئے۔ عدالت نے وزیراعظم پاکستان، وزیراعلیٰ پنجاب اور چیئرمین نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ آج ہی کوئی نمائندہ مقرر کرکے 4 بجے تک عدالت بھجوائیں۔وقفہ کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی،نیر رضوی،سینئر صحافی اور اینکرز حامد میر، کاشف عباسی، سمیع ابراہیم، محمد مالک، عامر متین،نواز شریف کی جانب سے عطا تارڑ اور منور دگل ایڈوکیٹ،سیکرٹری داخلہ اعظم سلمان اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل پنجاب فیصل چوہدری عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ بڑی معذرت سے آپ اینکرز کو بلایا ہے،

بد قسمتی سے آپ جب اندازے لگاتے ہیں کہ ڈیل ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ آپ سب قابل عزت ہیں، یہ بہت عرصے سے ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کو فئیر ٹرائل کے پرنسپل ہیں وہ دیکھنا چاہیے،ہمارے ہاں کیس ٹرائل بعد میں آتا ہے، میڈیا ٹرائل پہلے آجاتا ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ سمیع ابراہیم صاحب نے کہا کہ ڈیل ہوئی ہے، کیا جوڈیشری ڈیل کا حصہ ہے، کیا وزیراعظم ڈیل کا حصہ ہے؟۔چیف جسٹس نے کہاکہ میں اعتماد کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نا قابل رسائی ہیں، گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے ایک کیس میں ضمانت دی کیا وہ ڈیل ہے۔ عدالت نے پیمرا کے نمائندے سے مکالمہ کیا کہ روز پروگرام دیکھتے ہیں،

خوش ہوتے ہونگے آپ۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ  پوری قوم کوہیسٹیریاں کا مریض بنا دیا ہے،کیا یہ ملک اس لیئے حاصل کیا گیا تھا، آپ عسکری اداروں کو بھی بدنام کر رہے ہیں۔چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے اینکرز سے مکالمہ کیا کہ کیا ڈیل ہے، آپ بتائیں۔ عدالت نے پیمرا حکام پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ آپ لوگوں نے عدالتوں پر کیچڑ اچھال کے رکھ دیا ہے۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ جو ریڑھی والا باتیں کرتا ہے وہ سب میڈیا پر بات ہوتی ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ آپ عسکری اداروں کو بھی بدنام ہونے دے رہے ہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ آپ سو رہے ہیں پیمرا کوئی کام ہی نہیں کر رہی۔ اینکر پرسن عبد المالک نے کہاکہ

میڈیا ملک کو برباد نہیں کر رہا ہے۔ حامد میر نے کہاکہ میں جاننا  چاہتا ہوں کہ میں نے کہاں توہین عدالت کیا؟۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ آپ روز پروگرام دیکھتے ہیں؟ انجوائے کرتے ہوں گے کہ عدلیہ پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ریڑھی والے کی زبان ٹی وی پر استعمال ہو رہی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ آپ عسکری اداروں اور منتخب وزیراعظم کو بھی بدنام ہونے دے رہے ہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ قرآن پڑھا ہے؟ اس میں حکم ہے کہ سنی سنائی بات آگے نہ پھیلا دیں۔ عبد المالک نے کہاکہ میڈیا نے اس ملک کو تباہ نہیں کیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ یہ بات پیمرا کے بارے میں کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ

اس ملک کی تباہی میں ہر ایک کا کردار ہے، آپ بتائیں کہ کیا پیمرا اپنی ذمہ داریاں بخوبی سرانجام دے رہا ہے؟۔ عدالت عالیہ نے اینکرز کو تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر یہ کہا جاتا ہے کہ ڈیل ہورہی ہے، تو جوڈیشری کے بغیر ڈیل نہیں ہو سکتی، اگر ڈیل ہو رہی ہے تو اس کو دریافت کرنے میں ہماری مدد کریں۔چیف جسٹس نے کہاکہ آپ تمام اینکر پرسنز ہمارے لیے قابل احترام ہیں، کیس بعد میں عدالت آتا ہے اور میڈیا ٹرائل پہلے ہو جاتا ہے جس کا پریشر عدالت پر آتا ہے۔چیف جسٹس  نے کہاکہ ججز سے متعلق بھی سوشل میڈیا پر ان کا ٹرائل شروع ہو جاتا ہے۔ عامر متین نے کہاکہ میڈیا کی خرابی کی بات کرنے کے بجائے واضح بات کرنی چاہئے کہ کس نے کیا غلط بات کی۔

چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت سیاسی معاملات میں الجھنا نہیں چاہتی مگر سیاست دانوں کے کیسز پر قانون کے مطابق کارروائی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ وزیراعظم کی نمائندگی کون کرنے آیا ہے۔ سیکرٹری داخلہ نے کہاکہ وزیراعظم کی جانب سے میں پیش ہوا ہوں۔ دور ان سماعت سیکرٹری داخلہ نے عدالت میں پریزن رولز پڑھ کر سنائے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ قیدی کی طبی بنیادوں پر ضمانت عدالت میں  نہیں آنی چاہیے تھی، یہ صوبائی حکومت کی زمہ داری ہے۔چیف جسٹس  نے کہاکہ پریزن کے قانون کا کیا، ان تمام قیدیوں کا کیا ہوگا جو اس عدالت سے رجوع نہیں کر سکتے۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ وزیراعلی پنجاب اگر مخالفت نہیں کرتے تو ایفیڈیوٹ جمع کرائیں۔

چیف جسٹس ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے ا ستفسار کیاکہ کیا آپ کے پاس ایفیڈیوٹ ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ میڈیکل رپورٹ دیکھنی تھی، وقت کی کمی تھی۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست عدالت نہیں آنی چاہئے، حکومت کا اختیار ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے پتہ کیا کہ پنجاب حکومت نے جیل میں تمام بیمار قیدیوں کا معلوم کیا؟ آپ نے میڈیکل بورڈ مقرر کیا جس نے کہا کہ نواز شریف کی حالت تشویشناک ہے۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ میڈیکل بورڈ نے کہا کہ بیماری جان لیوا ہے۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب کو ہدایت کی کہ آپ آدھے گھنٹے میں چیئرمین نیب سے ہدایات لے کر عدالت کو بتائیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ چئیرمین  سے باہر جانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ ضمانت کی مخالفت کرنی ہے تو ایفیڈیوٹ جمع کرائیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ باہر  جائیں چیئرمین نیب سے ہدایت لے کر آئے، چیف جسٹس نے کہاکہ آدھے گھنٹے کیلئے باہر جائیں، چیئرمین نیب کی ہدایت لے کر آئیں،منگل تک نواز شریف کو کچھ ہو جاتا ہے تو آپ کی ذمہ داری ہوگی۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ ہم اس کو اپنے کندھوں پر نہیں لیں گے یہ آپ کی زمہ داری ہے۔عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی پنجاب کو بھی چیف منسٹر پنجاب سے ہدایت لاکر آنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ کتنے قیدی بیماریوں سے جیلوں میں مر گئے ہیں، رپورٹ جمع کرائیں، قیدی کی حالت تشویشناک ہو تو  صوبائی حکومت کی ضمانت دینے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ اگر حکومت درخواست ضمانت کی مخالفت کرے گی تو ہم ضمانت مسترد کر دیں گے لیکن اس دوران نواز شریف کو اگر کچھ ہوا تو ذمہ دار نیب اور حکومت ہو گی۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ

حکومتی وزرا تمام ذمہ داری عدالتوں پر ڈالنے کے بیان دے رہے ہیں، صرف ہاں یا نا میں جواب دیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ اس تمام معاملے میں وفاقی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ آپ جذباتی نہ ہوں، صرف مخالفت کریں اور ذمہ داری لیں یا مخالفت نہ کریں۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ قانون پر عمل درآمد خالصتا پنجاب حکومت کی ذمہ داری تھی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ ایسا کوئی قیدی جس کی جان کو خطرہ ہے اس کا کیس صوبائی حکومت خود پراسیس کر کے مچلکوں پر ضمانت دے سکتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ نیب کی سزا تو 14 سال قید تک ہوتی ہے مگر سزائے موت کی قیدیوں کو بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ضمانت دی جا سکتی ہے۔  چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ اگر آپ تینوں بیان حلفی نہیں دے رہے تو پھر یقینا کہیں کچھ غلط ضرور ہے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب قاسم چوہان نے کہاکہ ہم ابھی ہاں یا نا کرنے کی پوزیشن میں نہیں بلکہ May be zone میں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر تینوں بیان حلفی نہیں دے رہے تو کہیں کچھ غلط ہے، منگل تک کی ضمانت کی آپ ذمہ داری نہیں کے رہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم وزیراعلی پنجاب کو طلب کرلیں گے، وہ پھر  عدالت کو بتائیں، منگل تک ہاں یا نہ کہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ آدھا گھنٹہ اور لے لیں اور عدالت کو واضح بتائیں۔ اس موقع پر ایک بار کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا گیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہم وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کو ہدایات جاری کر رہے ہیں،وزیراعلیٰ پنجاب، وزیراعظم عمران خان اور چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اس معاملے پر فیصلہ کریں۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہاکہ انسانی بنیادوں پر ہمیں نواز شریف کی ضمانت کی درخواست پر کوئی اعتراض نہیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے پہلے آپ سے کہا کہ عدالت کیساتھ فئیر رہیں۔ دور ان سماعت چیف جسٹس نے پاکستان پرزن رولز کی سیکشن  143 کا حوالہ پیش کیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں جیل کے بیمار قیدیوں سے متعلق کیا اقدامات کیے؟ عدالت نے عدالتی فیصلے کی روشنی میں تمام جیلوں میں قید بیمار قیدیوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔ عدالت نے کہاکہ سیکرٹری داخلہ متعلقہ صوبائی حکومتوں سے معلومات لے کر دو ہفتوں میں تفصیلی جواب جمع کرائیں۔واضح رہے کہ سابق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے 24 اکتوبر کو ہی لاہور ہائی کورٹ میں ایک الگ درخواست دائر کی تھی جس میں چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی استدعا کی گئی تھی۔بعد ازاں 25 اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت منظور  کرتے ہوئے انہیں ایک کروڑ روپے

کے دو ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا تھااگرچہ درخواست کے منظور ہونے کے بعد نواز شریف نیب کی حراست سے رہائی ممکن ہوگئی تاہم جیل سے اس وقت تک باضابطہ رہائی ممکن نہیں جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ العزیزیہ کیس میں ان کی سزا معطل کرکے ان کی ضمانت منظور نہیں کرتی۔واضح رہے کہ العزیزیہ اسٹیل ملز میں نواز شریف 7 سال قید کی سزا کا سامنا کر رہے ہیں۔یاد رہے کہ21 اکتوبر کو نواز شریف کی صحت اچانک خراب ہونے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں جس کے بعد انہیں لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔مسلم لیگ (ن) کے قائد کے پلیٹلیٹس خطرناک حد تک کم ہوگئے تھے جس کے بعد انہیں ہنگامی بنیادوں پر طبی امداد فراہم کی گئی تھیں۔سابق وزیر اعظم کے چیک اپ کے لیے ہسپتال میں 6 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا تھا جس کی سربراہی ڈاکٹر محمود ایاز کر رہے ہیں جبکہ اس بورڈ میں سینئر میڈیکل اسپیشلسٹ گیسٹروم انٹرولوجسٹ، انیستھیزیا اور فزیشن بھی شامل ہیں۔بعد ازاں اس میڈیکل بورڈ میں نواز شریف کے ذاتی معالج سمیت مزید دیگر ڈاکٹرز کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…