جنگ میں پہل کی تیاری نہیں کررہے ،بھارتی جارحیت پر ردعمل ماضی سے مختلف ہوگا : ترجمان پاک فوج آصف غفور

22  فروری‬‮  2019

راولپنڈی(این این آئی) پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھارت پر واضح کیا ہے کہ جنگ میں پہل کی تیاری نہیں کررہے ہیں ،بھارتی جارحیت پر ردعمل ماضی سے مختلف ہوگا، پاکستان کی سالمیت کی بات ہو تو 20 کروڑ عوام اس کے محافظ ہیں، مسئلہ کشمیر خطے کے امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے آئیے اسے حل کریں ، بھارت ہمیں حیران نہیں کرسکتا ،ہم حیران کریں گے۔

پاکستان میں حالات بہتر ہورہے ہوں تو بھارت میں کوئی نہ کوئی واقعہ ہوجاتا ہے،پلوامہ واقعہ پر بھارت کی طرف سے بغیر سوچے اور تحقیق کے پاکستان پر الزامات کی بارش ہوگئی، پاکستان کے آزاد ہونے کی حقیقت بھارت آج تک تسلیم نہیں کرسکا، پاکستان بدل رہا ہے، ایک نئی سوچ آرہی ہے، ہم نے غلطیاں کیں اور ان سے سیکھا ہے ،اب غلطی کی گنجائش نہیں،بھارت کا سارا میڈیا وار جرنلزم کی طرف ہے، ہمارا میڈیا پر امن صحافت کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے،ہمیں پاکستانی میڈیا کی تعریف کرنی چاہیے،پاکستان سفارتی طور پر تنہا نہیں ، بھارت کو ایران کے ساتھ نہیں ملا سکتے، بھارت سے ہمارا 70 سال پرانا معاملہ ہے ، ایران دوست اسلامی برادر ملک ہے،فوجی ضابطہ کی خلاف ورزی پر اسد درانی کی پنشن اور دیگر مراعات روک دی گئی ہیں ،دو سینئر افسران کے خلاف قانونی کارروائی کی جارہی ہے، دونوں افسران کا کورٹ مارشل کیا جائیگا۔ جمعہ کوپاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ 14 فروری کو پلوامہ میں قابض بھارتی فوج کو کشمیری نوجوان نے نشانہ بنایا لیکن بھارت کے واقعہ کے فوری بعد پاکستان پر الزامات کی بارش کردی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اس دفعہ جواب دینے کیلئے تھوڑا سا وقت لیا ہے وقت اس لیے جو الزامات لگائے گئے تھے اس کی اپنے تئیں تحقیق کی تھی اور پھر وزیراعظم نے جواب دیا تھا۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ فروری اور مارچ میں پاکستان میں 8 اہم ایونٹس ہورہے تھے، سعودی ولی عہد کا دورہ، اقوام متحدہ میں ٹیرر لسٹ پر بات، افغان امن عمل چل، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق پر بات چیت، عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن کیس، ایف اے ٹی ایف کی سٹنگ، کرتارپور بارڈر پر دونوں ملکوں میں مذاکرات اور پاکستان

سپر لیگ کے میچز تھے۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ پلوامہ حملے کا پاکستان کو نقصان ہے، بھارت میں متعدد افراد اس حملے کی پیشگوئی کررہے تھے، مت بھولیں پاکستان میں ہونے والے ان آٹھ ایونٹس کے علاوہ بھارت میں الیکشن بھی ہونے والے ہیں جبکہ کشمیر میں اس وقت جدوجہد عروج پر ہے جو بھارت کے قابو سے باہر ہے۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ففتھ جنریشن وار فیئر میں ہے۔

پاکستان کی 64 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے تو میں تھوڑا سا حوالہ دے دوں کہ نوجوان نسل سمجھ لے کہ کیسے بات چیت چل رہی ہے؟۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان نے بھارت کے ان الزامات کا جواب دیا اور پاکستان نے اپنے طور پر پلوامہ واقعہ کی تحقیقات کیں کیونکہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف سازشیں اور دہشت گری کی اور بھارت نے آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری 72 سال کی تاریخ ہے،1947 میں ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور پاکستان آزاد ہوا،اس حقیقت کو بھارت آج تک قبول نہیں کرسکا،1947 ء اکتوبر میں بھارت نے کشمیر پر حملہ کیا اور 72 سال سے کشمیر میں کشمیریوں پر اس کے ظلم و ستم جاری ہیں۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ 1965 میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی ہوئی اور بھارت اسے انٹرنیشنل بارڈر پر لے آیا اور وہاں اسے شکست ہوئی۔

لیکن ہم ایک نوزائیدہ ملک تھے ہمارے وسائل اور فوج بھی کم تھی تو اس وقت ہمار املک جو ترقی کی راہ پر گامزن تھا اس پر اثرات مرتب ہوئے۔انہوں نے کہا کہ 1971ء میں مشرقی پاکستان سے جو ہمارا زمینی فاصلہ تھا اور جو وہاں کے مسائل تھے اسے بھارت نے استعمال کیا، مکتی باہنی کا کردار آپ کے سامنے ہے۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ اصل دہشت گردی بھارت نے تب کی جب مکتی باہنی کے ذریعے

وہاں پر حالات خراب کروائے گئے لیکن اس سانحے سے بھی ہم سنبھلے۔انہوں نے کہا کہ 1971 سے لے کر 1984 تک ایسا عرصہ تھا جس میں ہماری مشرقی سرحد پر کسی قسم کا کوئی واقعہ نہیں ہوا، حالات پرسکون تھے، ایل او سی کی خلاف ورزی نہیں ہوئی اور ہم ایک طریقے سے دوبارہ استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن تھے لیکن سیاچن کا واقعہ ہوا۔انہو ں نے کہاکہ ایک ایسا علاقہ جہاں

افواج پاکستان کی موجودگی نہیں تھی وہاں پر بھارت نے ہمارے علاقے پر قبضہ کیا اور اس وقت سے لے کر اب تک دنیا کے بلند ترین مقام پر افواج پاکستان ڈٹی ہوئی ہیں اور مقابلہ کررہی ہیں۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ اسی دوران افغانستان میں سوویت یونین نے حملہ کیاجس کے بعد 1998 میں ہم نے دفاع کیلئے جوہری طاقت حاصل کی کیونکہ اس کی مدد سے بھارت کی جانب سے ہم پر روایتی جنگ

مسلط کرنے کے امکانات ختم ہوجاتے۔انہوں نے کہا کہ جب یہ امکانات ختم ہوئے تو بھارت نے غیرروایتی حکمت عملی اپناتے ہوئے ہمارے ملک میں دہشت گردی کو فروغ دینا شروع کیا۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ 2001 میں جب عالمی سیکیورٹی فورسز نے افغانستان میں طالبان کے خلاف آپریشن شروع کیا تو بھارت نے مشرقی سرحد پر بھارت نے کشیدگی شروع کردی اور ہماری توجہ اس طرف ہوگئی۔

آصف غفور نے کہا کہ اگر اس وقت ایسا نہیں ہوا ہوتا تو ہم بہتر پوزیشن میں ہوتے کہ مغربی سرحد سے پاکستان میں داخل ہونیوالی دہشت گردی کو داخل نہ ہونے دیتے اور وہ اتنی نہ پھیلتی جتنی اس کے نتیجے میں پھیلی۔انہوں نے کہا کہ 2008 میں جب ہم دہشت گردی کے خلاف بھرپور جنگ لڑرہے تھے ہمیں کامیابیاں مل رہی تھیں تو ایک مرتبہ پھر بھارت اپنی افواج کو سرحد پر لے آیا جس کا مقصد یہ تھا کہ

بھارت، دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کو روکنا چاہتا تھا جس کا زندہ ثبوت کلبھوشن کی صورت میں ہمارے پاس موجود بھی ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم خطے میں امن کی کوششیں کررہے ہیں اور پاکستان میں آنے والی نسلوں کو بہتر مستقبل دینے کی سوچ پنپ رہی ہے۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ 1988،1989 میں دو طرفہ بات چیت کا آغاز کیا پاکستان نے ہمیشہ امن کی پیشکش کی، 2003 میں ڈی جی ایم اوز کے درمیان ہاٹ لائن کی۔

اور لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کیلئے ایک معاہدہ کیا جس میں گزشتہ 2 برس میں بھارت نے تاریخ میں سب سے زیادہ خلاف ورزی کی۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ لائن آف کنٹرول پر ہم نے 5 کراسنگ پوائنٹس بھی قائم کیے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ 2004 سے 2008 تک 5 مرتبہ ہماری مذاکرات کے لیے بیٹھک بھی ہوئی لیکن اس مرحلے کو بھی ممبئی حملے جیسے تناظر میں بھارت نے ختم کردیا۔

ترجمان آصف غفور نے کہا کہ دسمبر 2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا اس وقت وہاں 2002 میں عام انتخابات اور صدارتی انتخابات ہونے تھے اور یہی وہ وقت تھا جب نائن الیون کے بعد پاکستان میں مغربی سرحد سے دہشت گردی ملک میں داخل ہونا شروع ہوئی۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ بھارت کی کوشش ہے کہ پاکستان کو سفارتی محاذ پر تنہا کردیا جائے لیکن آپ دیکھ رہے ہیں۔

کس طرح سفارتی لوگ اور سرمایہ کاری پاکستان میں آرہی ہے اور پاکستان ایئرفورس اور پاک بحریہ کی مشقوں میں بیرون ملک کی افواج نے بھی حصہ لیا۔انہوں نے کہاکہ پلوامہ حملے کے بعد جو ویڈیو جاری کی گئی ہے اس کا اگر تکنیکی جائزہ لیں تو وہ بھی آپ کو بہت سے شواہد دیگی کہ وہ کس طرح کی ہے؟۔پاکستان کی جانب سے ردعمل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان بدل رہا ہے، ایک نئی سوچ آرہی ہے۔

ہم نے بہت قربانیاں دے کر یہ مقام حاصل کیا ہے، اب ہم میں صبر آرہا ہے، ہم نے افغانستان میں موجود فورسز کو القاعدہ کے خلاف کامیابی حاصل کرنے میں مدد دی۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ہم نے غلطیاں کی اور ان سے سیکھا بھی لیکن اب غلطی کی گنجائش نہیں، پلوامہ واقعے پر وزیر اعظم نے جو پیش کش کی وہ پہلے کبھی نہیں کی گئی جبکہ جب بھی ہم مذاکرات کی بات کرتے تھے تو بھارت کہتا تھا۔

دہشت گری پر بات کریں اور وزیر اعظم نے یہ بھی پیش کش کی کہ ہم اس پر بھی بات کرنے کو تیار ہیں۔ترجمان پاک فوج نے بھارت کو واضح پیغام دیا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ آپ حکومت کی امن کی پیشکش پر ذمہ داری سے غور کریں گے اور خطے کی ترقی و امن میں رکاوٹ نہیں بنیں گے، ہم 21 ویں صدی میں ہیں، ہمارے پاس بہت سے چیلنجز ہیں، عوام کو تعلیم صحت اور جینے کا حق حاصل ہے۔

بھارت آنے والی نسلوں سے اپنی بے وقوفی کے ذریعے یہ حق نہ چھینے، پاکستان اور پاکستانیت سے دشمنی کریں انسانیت سے مت کریں۔انہوں نے کہا کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور دو جمہوری ملکوں میں جنگ نہیں ہوتی، اگر آپ جمہوریت ہیں تو اس کے اصولوں کو بھی سامنے رکھیں۔میجر جنرل آصف غفور نے سوال کیا کہ پلوامہ کے بعد کشمیریوں اور مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوا۔

آپ امن اور ترقی چاہتے ہیں تو کلبھوشنوں کو ہمارے ملک میں مت بھیجیں، خطے کے امن کو تباہ نہ کریں اور ترقی کے موقع کو مت گنوائیں، اگر ہماری یہ سوچ ہے کہ خطے نے مل کر ترقی کرنا ہے تو ہم جنگ کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہتے۔انہوں نے کہا کہ ہم گزرے ہوئے کل کی افواج نہیں، ہمارے تینوں سپہ سالار سے لے کر سپاہی تک نے اپنے ہاتھ سے جنگ لڑی ہے، بھارت ایک معلوم خطرہ ہے۔

اور ان کیلئے جواب تیار ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم جنگ کی تیاری نہیں کررہے لیکن دفاع کرنا ہمارا حق ہے کیونکہ جنگ اور بدلے دھمکی بھارت کی طرف سے آرہی ہے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ بھارت نے جو راستہ اختیار کیا کہ حملے ہوتے ہی بغیر ثبوت کے پاکستان پر الزمات لگادیئے، ٹماٹر بند کردئیے، پسندیدہ ملک کا درجہ واپس لے لیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اس معاملے پر

تحقیقات اور بات چیت کی پیش کش کی، خطے کے معاملے خاص طور پر کشمیر پر بات چیت کرنے کی پیش کش کی، بھارت کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیوں کشمیری اس حد پر پہنچ گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم 21 ویں صدی میں ہیں ہمارے خطے میں بہت سارے چیلنجز ہیں اور دونوں ممالک کے عوام کو بہتر زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے ناکہ جنگ ، جس کی بھارت بات کر رہا ہے ۔

آصف غفور نے کہا کہ آج آپریشن ردالفساد کو 2 برس ہوگئے ہیں، اس آپریشن میں بلاتفریق دہشگردوں کا خاتمہ کیا اور کافی بڑی تعداد میں دھماکا خیز مواد برآمد کیا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ آپ بھارت کو ایران کے ساتھ نہیں ملا سکتے، بھارت سے ہمارا 70 سال پرانا معاملہ ہے جبکہ ایران دوست اسلامی برادر ملک ہے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ہم نے اپنی قوم کو اس طرف لے کر جانا ہے۔

جہاں انہیں تعلیم، روز گار اور ہر سہولت مل سکے۔ ایک سوال کے جواب میں ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ایران میں ہونے والے واقعے پر پاک ایران سرحد، وہاں کی قیادت اور سیکیورٹی فورسز سے روابط ہیں اور سرحد کی صورتحال کو مل کر بہتر کریں گے۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ صحافت دو طرح کی ہوتی ہے، ایک امن کیلئے اور دوسری جنگ کیلئے، بھارت کا سارا میڈیا وار جرنلزم کی طرف ہے۔

ہمیں پاکستانی میڈیا کی تعریف کرنی چاہیے، ہمارا میڈیا پر امن صحافت کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان کی سالمیت کی بات ہو تو 20 کروڑ عوام اس کے محافظ ہیں، مسئلہ کشمیر خطے کے امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے آئیے اسے حل کریں ۔ انہوں نے کہاکہ آپ ہمیں حیران نہیں کرسکتے ہم آپ کو حیران کریں گے۔ایک سوال پر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ جنرل (ر) اسد درانی کی ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کی

خلاف ورزی پر انکوائری ہورہی تھی، فوجی ضابطہ کی خلاف ورزی پر اسد درانی کی پنشن اور دیگر مراعات روک دی گئی ہیں جبکہ دو سینئر افسران کے خلاف قانونی کارروائی کی جارہی ہے، دونوں افسران کا کورٹ مارشل کیا جائے گا۔ آپریشن ردالفساد پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ آپریشن دیگر تمام آپریشنز سے زیادہ مشکل ترین تھا، ملک میں ان دیکھے دہشت گردوں، سہولت کاروں سے واسطہ تھا ۔ انہوں نے کہا کہ سرحد پر باڑ لگانے سے افغانستان سے حملوں میں کمی ہوگئی ہے۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…