چیف جسٹس کا خدیجہ صدیقی قاتلانہ حملہ کیس میں بڑا فیصلہ ، ملزم احاطہ عدالت سے گرفتار

23  جنوری‬‮  2019

اسلام آباد (این این آئی) سپریم کورٹ آف پاکستان نے خدیجہ صدیقی قاتلانہ حملہ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ملز م شاہ حسین کو گرفتار کرنے کا حکم دیدیا جس کے بعد ملزم کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا گیا۔ بدھ کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔ سماعت کے دور ان خدیجہ صدیقی پر قاتلانہ حملہ کے ملزم شاہ حسین بھی کمرہ عدالت میں موجود تھا ۔ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہاکہ کیا ملزم شاہ حسین کمرہ عدالت میں موجود ہے؟۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ شاہ حسین کمرہ عدالت میں موجود ہے۔وکیل خدیجہ نے دلائل دیئے کہ ہائیکورٹ نے مقدمہ کے مکمل شواہد کو نہیں دیکھا۔وکیل خدیجہ نے کہاکہ خدیجہ صدیقی کی بہن بھی بطور گواہ پیش ہوئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہائیکورٹ کا نتیجہ شواہد کے مطابق ہے۔وکیل خدیجہ صدیقی نے کہاکہ خدیجہ صدیقی ملزم کہ کلاس فیلو تھی۔وکیل نے کہاکہ ملزم شاہ حسین نے خدیجہ پر خنجر کے 23 وار کیے۔وکیل خدیجہ نے کہاکہ ملزم نے خدیجہ کی گردن پر بھی دو وار کئے۔ وکیل خدیجہ نے کہاکہ ڈاکٹرز کے مطابق جب خدیجہ کو ہسپتال لایا گیا اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ خدیجہ صدیقی ملزم کا جانتی تھی وہ کلاس فیلو بھی تھے ،اس کے باوجود ملزم کو 5 دن کے بعد نامزد کیا گیا۔وکیل خدیجہ نے کہاکہ حملے کے وقت خدیجہ صدیقی ہوش وحواس میں نہیں تھی۔وکیل خدیجہ نے کہا کہ خدیجہ نے ڈاکٹر کو بھی اجنبی قرار دیا تھا۔وکیل خدیجہ نے کہاکہ شاہ حسین نے ارادے کے ساتھ صرف خدیجہ صدیقی پر خنجر سے حملے کیے۔وکیل خدیجہ نے کہاکہ شاہ حسین نے کار کے ڈرائیور پر حملہ نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ خدیجہ کی بہن حملے کے وقت حواس میں تھی،ملزم کو تاخیر سے مقدمے میں نامزد کیوں کیا گیا؟۔چیف جسٹس نے کہاکہ خدیجہ کی بہن نے بھی ملزم کی نشاندہی میں تاخیر کی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ خدیجہ کو دئیے گئے زخم کتنے گہرے تھے۔

وکیل خدیجہ نے کہا کہ 12 زخم 2 سینٹی میٹر کے تھے۔چیف جسٹس نے کہاکہ خدیجہ کی گردن کے اگلے حصے پر کوئی زخم نہیں تھا۔چیف جسٹس نے کہاکہ خدیجہ معاملے پر بول سکتی تھی۔وکیل خدیجہ نے کہاکہ ڈاکٹرز کے مطابق خدیجہ کی حالت خطرے میں تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات طے ہے کہ خدیجہ بات کر سکتی تھی۔وقفہ کے بعد سماعت دوبار ہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہاکہ گاڑی کے اندر سے کوئی خون آلودہ چیز پیش نہیں کی گئی۔چیف جسٹس نے کہاکہ تفتیشی افسر کا یہ کہنا کافی نہیں کہہ اس نے گاڑی میں خون دیکھا۔

چیف جسٹس نے کہاکہ گاڑی میں خون آلودہ سیٹ یا میٹ بطور شواہد پیش نہیں کیا گیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ تفتیشی افسر نے شواہد جمع نہ کر کے سنگین غلطی کی۔وکیل خدیجہ صدیقی نے کہاکہ ایف آئی آر ڈرائیور کی درخواست پر درج ہوئی۔چیف جسٹس نے کہاکہ ڈرائیور ملزم کو جانتا تھا لیکن نامزد نہیں کیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ خدیجہ اور شاہ حسین روزانہ ملتے تھے ،ڈرائیور روزانہ خدیجہ کو پک اینڈ ڈراپ کرتا تھا،کیسے ممکن ہے کہ ڈرائیور شاہ حسین کو نا جانتا ہو۔وکیل خدیجہ نے کہاکہ فوجداری مقدمات میں گواہ رشتہ دار ہی آتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ خدیجہ کیس میں اصل گواہ ڈرائیور ہے جو انکا تنخواہ دار تھا۔چیف جسٹس نے کہاکہ ملزم کا نام ایف آئی آر میں نہیں تھا تو اس نے ضمانت قبل از وقت گرفتاری کیوں کرائی؟۔چیف جسٹس نے کہاکہ ڈرائیور نے شاہ حسین کو ملزم نامزد کیا۔ وکیل خدیجہ نے کہاکہ خدیجہ کے بیان کے بعد ڈرائیور نے شاہ حسین کو ملزم قرار دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کے پی کے ہسپتالوں میں پولیس موجود ہوتی ہے۔وکیل خدیجہ نے کہاکہ ملک بھر کے ہسپتالوں میں پولیس موجود ہونی چاہیے۔چیف جسٹس نے کہاکہ گاڑی سے دو بال ملے تھے کیا ان کا ڈی این اے ہوا۔

وکیل خدیجہ نے کہا کہ بالوں کو فورنزک لیب بھجوانے کا کہا گیا تھا۔وکیل نے کہاکہ فورنزک لیب کے بقول انہیں بال موصول نہیں ہوئے۔چیف جسٹس نے کہاکہ خطے کی بہترین اور دنیا کی دوسری بہترین فورنزک لیب لاہور میں ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ پنجاب فور نزک لیب پر ہمیں فخر ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہاکہ فورنزک لیب میں دنیا کے ماہر ترین افراد نوجود ہیں،کیس میں ہائی پروفائل کا لفظ کئی مرتبہ استعمال ہوا، کیا ہائی پروفائل کیلئے قانون بدل جاتا ہے، جرم جرم ہوتا ہے ہائی پروفائل ہو یا لو پروفائل ہو۔

وکیل خدیجہ نے کہا کہ ہائیکورٹ نے شواہد کا درست جائزہ نہیں لیا، چیف جسٹس نے کہاکہ ملزم آخر خدیجہ کو کیوں مارنا چاہتا تھا، ملزم چاہتا تو خدیجہ کو ایسی جگہ مار سکتا تھا جہاں کوئی نہ ہوتا۔ وکیل خدیجہ نے کہا کہ ریکارڈ پر ایسی کوئی بات نہیں کہ اقدام قتل کی وجہ کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ گولی مارنا آسان لیکن خنجر مارنا شدید اشتعال پر ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عام طور پر قتل کی وجہ ہوتی ہے کہ میری نہیں تو کسی کی نہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ دوسری عمومی وجہ لڑکی کی طرف سے بلیک میلنگ ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ خدیجہ کے کیس میں دونوں وجوہات سامنے نہیں آئیں۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ کسی کلاس فیلو نے کیس میں گواہی نہیں دی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اصل سوال یہ ہے کہ خدیجہ پر حملہ کس نے کیا؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ خدیجہ اور شاہ حسین کے درمیان تعلقات مقدمہ سے سات ماہ پہلے ختم ہوگئے تھے، تعلقات ختم ہونے کے بعد بھی دونوں ایک ہی کلاس میں پڑھتے رہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایک سال اکٹھے قانون پڑھ کے عملی تجربے کا سوچا۔

پنجاب کے پراسیکیوٹر نے خدیجہ کے وکیل کے تمام دلائل اپنا لئے اور ملزم شاہ حسین کی سزا ختم کرنے کی مخالفت کر دی۔اس موقع پر ایک بار پھر سماعت کے دور ان وقفہ کیا گیا اور جب سماعت دوبار ہ شروع ہوئی تو ملزم شاہ حسین کے وکیل کے دلائل دیئے ۔ وکیل ملزم نے کہاکہ شاہ حسین اور خدیجہ کا ایک دوسرے سے قریبی تعلق تھا، وکیل ملزم نے کہاکہ دونوں کے گھر والے بھی ایک دوسرے کو جانتے تھے۔وکیل ملزم نے کہاکہ دونوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا۔

اگر شاہ حسین نے یہ حملہ کیا تو ابتداء میں ہی اس کا نام لینے میں کیا امر مانع تھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ خدیجہ اور اسکی بہن زخمی ہوئیں۔وکیل ملزم نے کہاکہ خدیجہ کے زخموں کی گنتی کے دوران پولیس اور اسکے رشتہ دار ہسپتال میں موجود تھے۔وکیل ملزم نے کہاکہ شاہ حسین کا نام انکو معلوم بھی تھا۔وکیل ملزم نے کہاکہ اگر شاہ حسین نے حملہ کیا تو اس وقت کیوں نہیں نام لیا اسکا۔وکیل ملزم نے کہاکہ شاہ حسین اس حملے میں ملوث نہ تھا۔

وکیل ملزم نے کہاکہ شاہ حسین کی جائے وقوعہ پر عدم موجودگی کے باعث ابتدا میں اسکا نام نہیں لیا گیا۔وکیل ملزم نے کہاکہ ڈاکٹر نے بھی لکھا خدیجہ جب ہسپتال لائی گئی تو ہوش و ہواس میں تھی۔دوران سماعت وکیل صفائی خالد رانجھا کی گزارش پر ملزم شاہ حسین نے کورٹ میں دلائل دینے کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے ملزم کو 2 منٹ تک بات کرنیکی اجازت دی۔ملزم شاہ حسین نے کہا کہ تعلقات کے خاتمے اور شادی سے انکار پر اس کا نام لیا گیا اور خدیجہ صدیقی نے جرح میں مجھے بھیجے گئے خطوط پر اعتراض کیا۔

شاہ حسین نے عدالت کے روبرو کہا کہ استغاثہ نے مجھے ڈیسپریٹ شخص ظاہر کرنیکی کوشش کی۔دوسری جانب خدیجہ صدیقی نے کہا کہ شاہ حسین مجھے جذباتی کرکے بلیک میل کر رہا تھا۔چیف جسٹس نے خدیجہ صدیقی سے ڈاکٹر کو دیئے گئے بیان سے متعلق سوال کیاجس پر خدیجہ صدیقی نے جواب دیا کہ ‘مجھے بہت کم یاد ہے، یہ بھی یاد نہیں کہ میں نے بولا بھی تھا یا نہیں جبکہ مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ میں زندہ بھی ہوں یا نہیں۔دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔

بعد ازاں فیصلہ سناتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزم کو گرفتار کر نے کاحکم دیا تاہم عدالت عظمیٰ نے سیشن کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا، جس کے تحت ملزم کی 7 سال کی سزا کم کر کے 5 سال کر دی گئی تھی عدالتی فیصلے کے بعد پولیس نے ملزم کو گرفتار کرلیا ۔یاد رہے کہ خدیجہ صدیقی سٹی لاء یونیورسٹی لندن میں بار ایٹ لاء کی طالبہ ہیں، جن پر مئی 2016 میں شاہ حسین بخاری نامی ایک شخص نے خنجر کے 23 وار کیے تھے۔

ملزم شاہ حسین، ایڈووکیٹ تنویر ہاشمی کا بیٹا ہے جس کے خلاف اقدام قتل کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔کیس کی سماعت کے بعد مجسٹریٹ کورٹ نے شاہ حسین کو 7 سال قید کی سزا سنائی، جس کے خلاف انہوں نے سیشن کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔شاہ حسین بخاری کی درخواست پر سیشن کورٹ نے مجسٹریٹ کورٹ کی جانب سے دی گئی 7 سال کی سزا کم کر کے 5 سال کر دی تھی۔بعدازاں خدیجہ صدیقی کو زخمی کرنے کے ملزم شاہ حسین کو لاہور ہائیکورٹ نے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

جس پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیا تھا۔ فیصلہ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خدیجہ صدیقی نے کہا کہ اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں جس نے اس مقام پر پہنچایا۔ خدیجہ صدیقی نے کہاکہ آج عورت کی جیت ہوئی،یہ فیصلہ ملک بھر کی خواتین کیلئے پیغام ہے کہ حق کیلئے آواز اٹھانے پر انصاف ضرور ملے گا۔خدیجہ صدیقی نے کہا کہ میڈیا کا بہت شکریہ جنہوں اس کیس کو لمحہ بہ لمحہ کور کیا۔ خدیجہ صدیقی نے کہاکہ آج ایک مثال قائم ہوئی ہے۔

وکیل خدیجہ نے کہاکہ تفصیلی دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ دیا۔ وکیل خدیجہ نے کہاکہ سپریم کورٹ نے سیشن کورٹ کا پانچ سال کا فیصلہ بحال کیا۔وکیل خدیجہ نے کہاکہ سپریم کورٹ نے تمام حقائق کا باریک بینی کا جائزہ لیا،خواتین پر تشدد کیخلاف یہ لکی کیس ہے جو دو سال میں سپریم کورٹ آگیا۔انہوںنے کہاکہ اس کیس میں ایکسٹرا آرڈینری پریشر تھا، ہر کورٹ میں پریشر کا سامنا رہالیکن میڈیا کی وجہ سے پریشر کم ہوا۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…