30 سال تک 10 ہزار میگاواٹ بجلی کا خواب،جب ڈاکٹرثمرمبارک نے بڑے بڑے دعوے کرنے کے بعد قومی خزانے اربوں کا نقصان کردیا،چیف جسٹس برہم ،بڑا حکم جاری کردیا

18  اکتوبر‬‮  2018

اسلام آباد(این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے تھرکول منصوبے میں گیسی فکیشن سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کی تحقیقات نیب کے سپرد کردیں۔ جمعرات کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے تھرکول پاور پراجیکٹ سے متعلق کیس کی سماعت کی، منصوبے کے چیئرمین ڈاکٹر ثمر مبارک مند بھی عدالت میں پیش ہوئے۔عدالت نے آڈیٹر جنرل کو تھرکول منصوبے کا فارنزک آڈٹ کا حکم دیتے ہوئے 15 دن کے اندر رپورٹ طلب کرلی اور چیف سیکرٹری سندھ کو ہدایت کی کہ منصوبے سے متعلق اشیاء قبضے میں لیں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا دیکھا جائے اس منصوبے میں کرپشن تو نہیں ہوئی۔عدالتی معاون سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ منصوبے کی فزیبیلٹی رپورٹ واضح نہیں ہے ٗ30 سال تک 10 ہزار میگاواٹ بجلی کا کہا گیا تھا، ماہرین کے مطابق منصوبے سے زیر زمین پانی کم ہوگا اور اس سے ماحولیات پر بھی برا اثر پڑے گا۔سلمان اکرم راجہ نے بتایا ایک کمیٹی نے کہا ہے کہ یہ ناکام منصوبہ ہے مزید رقم نہیں دینی چاہیئے، ثمر مبارک کے منصوبے کی منظوری دینے والوں کو بھی دیکھنا چاہیے تھا۔اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلی بار احساس ہوا کہ ارب کیا ہوتا ہے، اربوں روپے درخت کے پتوں کی طرح اڑا دیے گئے، 3.8 ملین تو اس منصوبے پر لگ چکے ہیں، اس کا کون ذمہ دار ہے اور کیا ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے یہ پیسے دینے ہیں۔چیف جسٹس نے عدالتی معاون سے استفسار کیا کہ کہاں گئے ڈاکٹر ثمرمبارک مند کے وہ دعوے، کیا اس معاملے کو ایف آئی اے کو نہ بھیج دیں، یا اس کی نئے سرے سے تحقیقات کرائی جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ منصوبے پر بہت شور مچایا گیا کہ میں نے ایسا کام کردیا جو آج تک کسی سائنسدان نے نہیں کیا، 100 میگا واٹ منصوبے سے 3 میگا واٹ بجلی بھی نہیں آرہی۔چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان غریب ملک ہے کیا اس کا پیسہ ایسے ضائع کرنا ہے، تھرکول گیسیفیکیشن سے بجلی بنانے کے دو طریقے ہیں، ایک کوئلہ نکال کر بجلی پیدا کی جاتی ہے، دوسرا وہ جو بندر گاہوں پر پلانٹ لگائے ہیں۔

نیب پراسیکیوٹر اصغر حیدر نے عدالت میں منصوبے سے متعلق رپورٹ پیش کی اور کہا کہ انجینئرز کے مطابق زیر زمین گیسیفیکیشن سے بجلی بنانا ممکن نہیں۔عدالتی معاونین سلمان اکرم راجا اور شہزاد الہی نے بھی اپنی تجاویز جمع کرائیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی اور سندھ حکومت کی کیا پوزیشن ہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا اس منصوبے کا سارا پیسہ وفاقی حکومت نے دیا جب کہ زمین سندھ حکومت کی ہے۔عدالت کے موجود منصوبے کے چیئرمین ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے کہا کہ اس منصوبے میں کوئی ماحولیاتی آلودگی نہیں ہوئی، آسٹریلیا کی ایک کمپنی بھی زیر زمین گیسی فکیشن کر رہی تھی، وکیل اس منصوبے کے بارے میں نہیں بتا سکتے۔ چیف جسٹس نے ڈاکٹر ثمر سے مکالمے کے دوران کہا کہ مجھے پتا تھا آپ یہی کہیں گے، جب ثمر مبارک نے دعوے کیے تو رومانس ہوگیا، کہا گیا کہ مفت بجلی ملے گی لیکن خزانے کو 4 ارب کا نقصان کردیا گیا۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…