ہم پوری اسلامی دنیا میں ثالثی کرانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں لیکن ہمارے پاس پاکستانی مسلمانوں کو پاکستانی مسلمانوں کے ساتھ بٹھانے کیلئے وقت نہیں‘ کیوں؟ریاست اور سیاسی جماعتوں نے مذہبی اختلافات کو علماء کرام اور عوام پر کیوں چھوڑ رکھا ہے‘ حکومت اور سیاستدان اس ایشو سے کیوں غائب ہیں؟ جاوید چودھری کا تجزیہ

20  ستمبر‬‮  2018

وزیراعظم خان نے کل سعودی عرب کے العربیہ انگلش ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم پوری مسلم امہ‘ تمام مخالف مسلمان ملکوں کو آپس میں جوڑنا چاہتے ہیں‘ ہم اسلامی دنیا کو ایک میز پر بٹھانا چاہتے ہیں‘ ہم ان کے اختلافات ختم کر کے ان میں اتحاد پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے ملک کے اندر ہماری صورتحال کیا ہے؟ ہمارے وزیراعظم اور ہماری سیاسی جماعتوں کے قائدین نے کبھی یہ سوچا‘ مسلمان مسلمان کو 70 سال سے کافر قرار دے رہے ہیں‘ ایک مسلمان دوسرے مسلمان فرقے کی مسجد اور

امام بارگاہ میں نماز نہیں پڑھتا‘ یہ دوسرے مسلک کے امام کو امام نہیں مانتا‘ ہمارے ملک میں ہر سال سینکڑوں لوگ مذہبی اختلافات کی بنیاد پر قتل کر دیئے جاتے ہیں‘ بارہ ربیع الاول ہو یا پھر محرم عوام کو ریاست بچانے کیلئے ڈبل سواری پر پابندی اور موبائل فون بند کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے‘ پولیس اور رینجرز کی چھٹیاں ختم کر دی جاتی ہیں اور فوج کو بلا لیا جاتا ہے‘ ہم ستر برسوں میں پاکستانی مسلمانوں میں اتحاد قائم نہیں کر سکے‘ ہم انہیں اکٹھا نہیں بٹھا سکے‘ ہم نے سعودی عرب اور ایران کے اختلافات خاک ختم کرنے ہیں‘ ہم نے شام‘ فلسطین‘ افغانستان اور قطر کو خاک اکٹھا بٹھانا ہے‘ ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر بنایا تھا لیکن آج ہم اسلام کے نام پر ہی ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں‘ آج کے انڈیا میں مسلمان کافروں سے محفوظ ہیں لیکن پاکستان میں مسلمان مسلمان کے ہاتھوں محفوظ نہیں‘ کیوں؟ ہم پوری اسلامی دنیا میں ثالثی کرانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں لیکن ہمارے پاس پاکستانی مسلمانوں کو پاکستانی مسلمانوں کے ساتھ بٹھانے کیلئے وقت نہیں‘ کیوں؟ اور ہماری تمام سیاسی جماعتیں الیکشنوں میں معیشت‘ بے روزگار‘ بجلی‘ گیس‘ ڈیمز‘ صحت‘ تعلیم‘ صنعت حتیٰ کہ سپورٹس تک کیلئے لائحہ عمل جاری کرتی ہیں لیکن ان میں سے کوئی پارٹی ملک میں مذہبی رواداری‘ مسلکی اختلافات کے خاتمے اور محرم اور ربیع الاول پرامن کے قیام پر

کوئی لائحہ عمل نہیں دیتی‘ کیوں؟ ریاست اور سیاسی جماعتوں نے مذہبی اختلافات کو علماء کرام اور عوام پر کیوں چھوڑ رکھا ہے‘ حکومت اور سیاستدان اس ایشو سے کیوں غائب ہیں‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا اور میں سمجھتا ہوں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ کا یوم شہادت مذہبی رواداری پیدا کرنے کیلئے بہترین دن ہے کیونکہ امام حسین رضی اللہ کسی ایک فرقے بلکہ کسی ایک مذہب یا ملک کے نہیں تھے‘ یہ پوری انسانیت کے لیڈر تھے اور ہم اگر ان کے یوم شہادت پر اس ملک میں رواداری پیدا نہیں کر سکتے تو پھر ہم کبھی مسلمان کو مسلمان کے ساتھ نہیں بٹھا سکیں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…