وزیراعظم کا انتخاب،اپوزیشن اتحاد کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ،ن لیگ کو صرف پیپلزپارٹی نے ہی سرپرائز نہیں دیا بلکہ اور کون کون الگ رہا؟ حیرت انگیز صورتحال

17  اگست‬‮  2018

اسلام آباد(این این آئی)پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ملک کے 22ویں وزیراعظم منتخب ہو گئے ہیں وہ ہفتہ کو ایوان صدر حلف اٹھائیں گے ٗتحریک انصاف کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار عمران خان نے 176ووٹ حاصل کئے ٗ ان کے مد مقابل شہباز شریف کو 96ووٹ ملے ٗ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا ۔ جمعہ کو اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہواجس میں قائد ایوان کا انتخاب عمل میں آیا ٗایوان میں نئے قائد کا انتخاب ڈویژن کے ذریعے کیا گیا۔

اسپیکر نے اراکین کو قائد ایوان کے انتخاب کے طریقہ کار سے متعلق آگاہ کیا اور اراکین کو ہدایت کہ جو اراکین عمران خان کے حق میں ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں تو اسپیکر کے دائیں جانب لابی اے میں چلے جائیں اور جو شہبازشریف کو ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں وہ اسپیکر کے بائیں جانب لابی بی میں چلے جائیں جس کے بعد اراکین اپنی اپنی لابی میں چلے گئے۔رائے شماری کا عمل مکمل ہونے کے بعد اسپیکر نے نتائج کا اعلان کیا جس کے تحت عمران خان قائد ایوان منتخب ہوگئے، عمران خان کو 176 جبکہ شہباز شریف کو 96 ووٹ ملے۔ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے قائد ایوان کے انتخاب میں کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہیں دیا۔رائے شماری میں عمران خان کو تحریک انصاف کے علاوہ ایم کیوایم ، بی اے پی، مسلم لیگ (ق)، بی این پی، عوامی مسلم لیگ اور جے ڈبلیو پی کے ارکان نے ووٹ دیا۔ مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف کو ان کی جماعت کے علاوہ ایم ایم اے کے ارکان کی بھی حمایت حاصل تھی۔نومنتخب وزیر اعظم عمران خان ہفتہ کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ حلف برداری کی تقریب ایوان صدر میں ہوگی اور صدر مملکت ممنون حسین ان سے حلف لیں گے۔ تقریب میں شرکت کے لیے خصوصی دعوت نامے جاری کئے جاچکے ہیں۔یاد رہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں وزیراعظم کو مملکت کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت حاصل ہے جو اپنی کابینہ کے ذریعے امور مملکت چلاتا ہے ٗاب تک 21 سربراہان اس عہدے پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

خان لیاقت علی خان ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم تھے ۔مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے خان لیاقت علی خان 14 اگست 1947 کو ملک کے پہلے وزیراعظم منتخب ہوئے جو 4 سال 2 ماہ اور 2 روز تک اس عہدے پر خدمات انجام دیتے رہے ٗ16 اکتوبر 1951 کو ایک تقریب کے دوران انہیں گولی مار کر شہید کیا گیا جس کے بعد وزارت عظمیٰ کیلئے خواجہ ناظم الدین کا انتخاب عمل میں لایا گیا۔پاکستان کے دوسرے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے 17 اکتوبر 1951 کو پاکستان کے دوسرے وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف لیا اور وہ ایک سال اور 6 ماہ تک اس عہدے پر فائز رہے۔

مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے خواجہ ناظم الدین کی حکومت 17 اپریل 1953 کو اس وقت کے گورنر جنرل ملک غلام محمد خان نے ختم کی۔ملک کے تیسرے وزیر اعظم محمد علی بوگرا نے ملک کے تیسرے وزیراعظم کی حیثیت سے 17 اپریل 1953 کو عہدے کا حلف لیا اور 2 سال تین ماہ اور 26 دن تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے چوہدری محمد علی 12 اگست 1955 کو وزیراعظم منتخب ہوئے وہ پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم تھے اور ایک سال ایک ماہ اس عہدے پر رہنے کے بعد انہی کی جماعت نے 12 ستمبر 1956 کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عہدے سے فارغ ہوئے۔

مسلسل 4 وزرائے اعظم مسلم لیگ سے منتخب ہوتے رہے لیکن ملک کے پانچویں وزیراعظم حسین شہید سہروردی کا تعلق عوامی لیگ سے تھا۔حسین شہید سہروردی نے 12 ستمبر 1956 کو وزارت عظمیٰ کا حلف لیا اور ایک سال، ایک ماہ اور 5 دن تک اس عہدے پر خدمات انجام دیں ، انہوں نے پارٹی پر کنٹرول کم ہونے اور اتحادیوں کی حمایت چھوڑنے پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ابراہیم اسماعیل چندریگر نے 17 اکتوبر 1957 سے 16 دسمبر 1957 تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر خدمات انجام دیں اور وہ تقریباً 55 روز تک ملک کے وزیراعظم رہے۔وہ ملک کے چھٹے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے ٗ

مسلم لیگ کے ابراہیم اسماعیل چندریگر کو اکثریتی جماعت ریپبلکن پارٹی اور عوامی لیگ کی جانب سے عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد عہدے سے ہٹایا گیا اور وہ ایک ماہ اور 29 تک وزیراعظم رہے۔فیروز خان نون کا تعلق ریپبلکن پارٹی سے تھا اور انہوں نے 16 دسمبر 1957 کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتویں وزیراعظم کی حیثیت سے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا اور وہ 9 ماہ اور 21 روز تک اس منصب پر فائز رہے۔نورالامین ملکی تاریخ کی کم ترین مدت تک وزیراعظم رہے، 1971 کی جنگ کے دوران انہیں صرف 13 روز تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر رہنے کا شرف حاصل ہوا،

وہ 7 دسمبر 1971 سے 20 دسمبر 1971 تک وزیراعظم پاکستان رہے۔پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے 14 اگست 1973 کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا اور 5 جولائی 1977 تک اس عہدے پر فائز رہے۔وہ پاکستان کے 9ویں وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے ٗذوالفقار علی بھٹو مجموعی طور پر تین سال 10 ماہ اور 21 دن وزیراعظم پاکستان رہے جنہیں اس وقت کے آرمی چیف ضیاالحق نے مارشل لا لگا کر عہدے سے ہٹایا۔1985 میں غیرجماعتی انتخابات کے نتیجے میں محمد خان جونیجو آزاد حیثیت میں رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور 24 مارچ 1985 کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا اور 29 مئی 1988 تک اس عہدے پر فائز رہے

وہ پاکستان کے 10ویں وزیر اعظم تھے ٗمحمد خان جونیجو کو اس وقت کے صدر نے آئین کی آٹھویں ترمیم کے تحت خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے عہدے سے ہٹایا ، اس طرح وہ 3 سال 2 ماہ اور 5 دن تک وزیراعظم پاکستان رہے۔بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 کو پاکستان اور اسلامی ممالک کی تاریخ میں پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں اور وہ 6 اگست 1990 تک اس عہدے پر فائز رہے۔بے نظیر بھٹو ایک سال 8 مہا اور 4 روز تک وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہیں وہ ملک کی گیارہویں وزیر اعظم منتخب ہوئی تھیں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف پہلی مرتبہ 6 نومبر 1990 کو وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئے

اور وہ 18 جولائی 1993 تک اس منصب پر فائز رہے، جن کی حکومت اس وقت کے صدر غلام اسحاق ڈار نے آئین کے آرٹیکل 58 ٹو بی کے ذریعے ان کی حکومت کا خاتمہ کیا۔نواز شریف دو سال 7 ماہ اور 4 دن تک وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے ٗانہوں نے اپنی حکومت کے خاتمے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور عدالت عظمیٰ کی جانب سے حکومت بحالی کے حکم کے بعد انہوں نے ایک معاہدے کے تحت عہدے سے استعفیٰ دیا، اسی معاہدے کے تحت اس وقت کے صدر نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ٗبے نظیر بھٹو 19 اکتوبر 1993 کو دوسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئیں اور اس مرتبہ بھی وہ اپنی 5 سالہ مدت پوری نہ کرسکیں

اور صدر فاروق لغاری نے 5 نومبر 1996 میں ان کی حکومت کا خاتمہ کیا۔بے نظیر بھٹو اس مرتبہ 3 سال اور 17 روز تک وزیراعظم پاکستان رہیں۔نواز شریف 17 فروری 1997 کو دو تہائی اکثریت سے ملک 14ویں اور دوسری مرتبہ وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئے لیکن اس مرتبہ بھی وہ اپنی مدت پوری نہ کرسکے اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا خاتمہ کیا ٗنواز شریف اپنے دوسرے دور حکومت میں 2 سال 7 ماہ اور 25 روز تک وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے۔15۔مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے میر ظفراللہ جمالی ملک کے 15ویں وزیراعظم کی حیثیت سے منتخب ہوئے، انہوں نے 23 نومبر 2002 کو اپنے عہدے کا حلف لیا

اور 26 جون 2004 تک اس عہدے پر فائز رہے ٗظفراللہ جمالی ایک سال 7 ماہ اور 3 روز تک وزارت عظمیٰ کے منصب پر رہے اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر عہدہ چھوڑا۔قومی اسمبلی نے 30 جون 2004 کو چوہدری شجاعت حسین کو ملک کے 16ویں وزیراعظم کی حیثیت سے انتخاب کیا ٗوہ 26 اگست 2004 تک اس عہدے پر فائز رہے، انہوں نے ایک ماہ اور 27 روز تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہنے کے بعد استعفیٰ دیا ٗمسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے شوکت عزیز نے 28 اگست 2004 کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا اور وہ 15 نومبر 2007 تک اس عہدے پر فائز رہے۔شوکت عزیز پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے

جنہوں نے پارلیمانی مدت ختم ہونے کے بعد عہدے سے سبکدوش ہوئے، وہ 3 سال 2 ماہ اور 18 روز تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر رہے ٗ2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد یوسف رضا گیلانی نے 25 مارچ وزارت عظمیٰ کا حلف لیا اور 19 جون 2012 تک اس عہدے پر فائز رہے، انہیں سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے جرم میں نااہل کیا اور اس طرح وہ 4 سال 2 ماہ اور 25 روز تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے نااہل ہونے کے بعد راجا پرویز اشرف نے 22 جون 2012 کو 19ویں وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے حلف لیا اور 9 ماہ اور 2 دن تک اس عہدے پر فائز رہے

راجا پریوز اشرف نے پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکومت مکمل ہونے کے بعد عہدے سے سبکدوش ہوئے ٗ2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے بعد نواز شریف ملکی تاریخ میں تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے، وہ تین مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر رہنے والے واحد پاکستانی ہیں۔نواز شریف نے 5 جون 2013 کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا اور 4 سال ایک ماہ اور 23 روز تک اس عہدے پر رہے، جنہیں سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہ اترنے پر نااہل کیا۔پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے شاہد خاقان عباسی نے یکم اگست 2017 کو وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا اور 10 ماہ تک اس عہدے پر فائز رہے۔شاہد خاقان عباسی مسلم لیگ ن کا دور حکومت مکمل ہونے کے بعد 31 مئی 2018 کو عہدے سے سبکدوش ہوئے وہ ملک کے 21ویں وزیر اعظم تھے ۔

موضوعات:



کالم



عمران خان پر مولانا کی مہربانی


ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…