اقتدار اورا ختیار کا منبع اس عمارت کے پاس نہیں جس پر کلمہ لکھا ہوا ہے اچھا ہوتا اگر ڈی جی آئی ایس پی آر اور عدلیہ۔۔پرویز رشید نے پاکستانیوں کو غلام قرار دیتے ہوئےکس سے آزادی حاصل کرنیکا مشورہ دے دیا

12  جون‬‮  2018

اسلام آباد (این این آئی)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر پرویز رشید نے کہاہے کہ ایک ٹوئٹ رخ بدل دیتی ہے ٗسیمینار میں ڈی جی آئی ایس پی آر کو بھی شرکت کی دعوت دی جاتی اور عدلیہ سے بھی کسی کو مدعو کیا جانا چاہیے تھا ٗگناہ گاروں اور نیکو کاروں کے درمیاں جنگ جاری رہے گی۔ منگل کو سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیمینار میں ڈی جی آئی ایس پی آر کو بھی شرکت کی دعوت دی جاتی

اور عدلیہ سے بھی کسی کو مدعو کیا جانا چاہیے تھا۔انہوںنے کہاکہ ایک ٹوئٹ رخ بدل دیتی ہے، ایک ملاقات پریس ریلیز بدل دیتی ہے، ایک فون کال سفر روک دیتی ہے اور فیصلوں کو تبدیل کر دیتی ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حالیہ صورت حال کے حوالے سے انہوں نے سوال اٹھایا کہ جتنا ہم بھگت رہے ہیں اس سے زیادہ اور کتنا بھگتنا ہے؟پرویز رشید نے کہا کہ گناہ گاروں اور نیکو کاروں کے درمیاں جنگ جاری رہے گی اور کیا کبھی کسی شخص سے پوچھا جائے گا کہ واپسی کی کون سی شرائط ہیں؟مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ دوسری جانب عدالت میں پیشیاں بھگتنے والے سابق وزیراعظم کبھی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔انہوںنے کہاکہ جمہور نے وطن ضرور حاصل کیا لیکن رہنے والوں کو آزادی میسر نہیں، ہم آئین کی روح پر ایک دن بھی عمل نہ کرسکے، اقتدار اور اختیار کا منبع اس عمارت کے پاس نہیں جس پر کلمہ لکھا ہوا ہے، جو باہر بیٹھا ہے ملک واپس آنے کے لیے ضمانت مانگ رہا ہے، پاکستان کو جمہوری ریاست بنانے کی جدوجہد کرنا ہوگی، ایسی جدوجہد جس میں نہ کوئی ٹویٹ رخ بدلے، نہ ملاقات پریس ریلیز بدلے اور نہ ہی فون کال کوئی سفر روکے۔واضح رہے کہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئےا سلام آباد میں آزادی اظہار رائے کو درپیش خطرات اور آئندہ انتخابات کے موضوع پر پی پی پی رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا کہ عام انتخابات سے پہلے بڑی

خاموشی کے ساتھ کو (بغاوت) ہوچکا ہے ٗیہ گزشتہ تمام بغاوتوں سے مختلف ہے، سویلین حکومت کے پاس پاور نہیں تھی، وزیر اعظم کے احکامات کو ٹویٹ کے ذریعہ رد کیا گیا، خارجہ امور پر بھی ٹویٹ کی گئی، کچھ بڑے چینلز کو آف ائیر کیا، کچھ اخبارات کو راتوں رات ٹھیلوں سے غائب کیا گیا، سوشل میڈیا پر بھی قدغن لگائی جارہی ہے۔فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ڈان لیکس میں سول حکومت نے

اسٹیبلشمنٹ سے کچھ معاملات پر صرف تحفظات کا اظہار ہی کیا تھا، تحفظات سے قومی سلامتی کیسے متاثر ہوگئی، سول اور ملٹری میں اتفاق رائے نہیں ہے، پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی سول اور ملٹری تعلقات میں پل کا کردار ادا کرے، سابق فوجی سربراہ کی نوے ایکڑ زمین سے متعلق ٹویٹ کی شدید مذمت کرتا ہوں، توہین عدالت اور سائبر کرائم ایکٹ میں ترامیم ہونی چاہیے،

آرٹیکل 184 تین سے متعلق پارلیمان کو قانون سازی کرنی چاہیے۔انہوںنے کہاکہ وہ ادارے جو صحافیوں پر بغیر ثبوت کے الزامات لگاتے ہیں اس معاملے پر بھرپور احتجاج کیا جانا چاہیے۔فرحت اللہ بابر نے آزاد اظہار رائے پر بین الاقوامی کانفرنس بلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ پارلیمنٹ میں یہ معاملہ اٹھایا جائے ٗ پارلیمنٹ ان افراد کو بھی بلائے جن پر الزامات لگائے گئے۔

موضوعات:



کالم



عمران خان پر مولانا کی مہربانی


ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…