جب آل سعود کے مخالفین نے قبضہ کی غرض سے خانہ کعبہ پر حملہ کیا تو مقابلے کیلئے فرانس کے کمانڈوز بلائے گئے، مگر ایک شرعی مسئلہ پیدا ہوا کہ غیر مسلم خانہ کعبہ کے اندر کیسے داخل ہوں؟ عربوں نے اس مسئلے کا کیا حل تلاش کیا؟ نامور کالم نگار کا انکشاف

19  مارچ‬‮  2018

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) ایک موقر قومی اخبار میں شائع ہونے والے معروف کالم نگار مستنصر حسین تارڑ کے کالم میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب میں جو نظام رائج ہے، ظاہر ہے اس کا بنیادی مقصد سعودی خاندان کی بادشاہت کو مستحکم کرنا ہے۔ جس کے لیے وہاں کے شیوخ اور علماء کرام جابر سلطان سے پوچھ کر کلمہ فتویٰ دیتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا جب آل سعود کے مخالفین نے خانہ کعبہ پر قبضہ کر لیا تھا۔

مستنصر حسین تارڑ مزید اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ اول اول تو انہیں ایرانی قرار دیا گیا تھا لیکن پھر کُھلا کہ یہ تو گھریلو معاملہ ہے اور ماشاء اللہ سعودی افواج کے بس میں نہ تھا کہ وہ ان دہشت گردوں کو خانہ کعبہ سے نکال باہر کریں اور پھر زر کثیر خرچ کے دنیا کے اس وقت کے بہترین کمانڈو جو کہ فرانسیسی تھے انہیں کرائے پر حاصل کیا گیا اور یہاں ایک شرعی مسئلہ درپیش ہو گیا کہ فرانسیسی تو کافر تھے وہ کیسے خانہ کعبہ میں داخل ہو کر شر پسندوں کا مکو ٹھپ سکتے تھے تو اس کا حل یہ نکالا گیا کہ جب وہ تشریف لائے تو انہیں کہا گیا کہ ایک مجبوری ہے آپ جو کچھ ہم عربی میں کہیں گے اسے دوہرا دیں انہیں کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ انہوں نے دہرا دیا۔ یعنی انہوں نے کلمہ پڑھ لیا اور عارضی طور پر مسلمان ہو گئے۔ ان میں سے ایک کمانڈو نے بیان دیا تھا کہ جب ہم سعودی عرب پہنچے تو عربوں نے ہمیں کچھ دوہرانے کو کہا۔ جس کا مطلب ہم نہیں جانتے تھے، بہر طور مجھے یاد ہے کہ جب ایک بار میمونہ کچھ عرصہ بیٹے کے ساتھ جدہ میں بسر کر کے واپس لاہور آئی تو ایئر پورٹ پر اس کی مسرت دیکھنے والی تھی‘ کہنے لگی پاکستان کی کیا بات ہے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ یہاں زندگی ہے۔ بچے کھیلتے نظر آ رہے ہیں خواتین اور لڑکیاں بازاروں میں چلتی پھرتی ہیں لوگ خوش نظر آ رہے ہیں۔ وہاں تو کوئی مسکراتا بھی نہیں۔ شکر ہے میں ایک تہذیب یافتہ معاشرے میں واپس آ گئی ہوں۔ لیکن اب پچھلے دنوں ایک سانحہ ہو گیا ہے۔

ہم کافر ہوئے ہیں تو وہ مسلمان ہو گیا ہے یا پھر ہم مسلمان ہوئے ہیں اور وہ کافر ہو گیا۔ یکدم یوٹرن لے لیا ہے اور ہم پریشان کھڑے ہیں بقول اظہار الحق کے ہم نے اپنے ٹیلی ویژن توڑ ڈالے‘ اپنی خواتین کو یہ لمبے لمبے سیاہ چوغے پہنا دیے۔ ہر اس شے کو حرام قرار دیا جس میں خوشی کے حصول کا کوئی ذرہ بھر خدشہ تھا۔ اپنے بچوں کو سعودی امداد سے قائم ہونے والے مدرسوں میں داخل کرا دیا۔ شلواریں گھٹنوں سے اوپر کر لیں۔ یہاں تک کہ خدا حافظ کی بجائے اللہ حافظ کہنے لگے۔ اپنے علاوہ ہر فرقے کو کافر قرار دیا۔ یعنی ہمارا حال تو نورجہاں جیسا ہو گیا کہ ساہنوں نہر والے پل تے بلا کے خورے ماہی کتھے رہ گیا۔ ہم نہر والے پُل پر حیران پریشان کھڑے ہیں اور ماہی جانے کدھر گیا۔ ماہی کے علماء کرام نے ایک اور فتویٰ دے دیا کہ پردے کے لیے عبایا پہننا ضروری نہیں ہے۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…