زینب قتل کیس کا تاریخی فیصلہ آگیا،درندہ صفت مجرم عمران کو4بار سزائے موت دینے کا حکم

17  فروری‬‮  2018

لاہور(سی پی پی)انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے معصوم زینب کے درندہ صفت قاتل مجرم عمران کو 4 بار سزائے موت دینے کا حکم دیدیا،مجرم عمران علی کو عدالت کی جانب سے بچی کو اغوا کرنے، جنسی زیادتی کرنے، قتل اور 788 کی دفعات کے تحت سزا سنائی گئی۔انسدادِ دہشت گردی عدالت نے بچی کے ساتھ بدفعلی پر عمر قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا اور اس کے علاوہ بچی کی لاش کو گندگی کے ڈھیرمیں

چھپانے کے جرم میں 7 سال قید کی سزا اور 10 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔پراسکیوٹر جنرل احتشام قادر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجرم عمران کو بدفعلی پر عمر قید کی سزا بھی سنائی گئی ہے،ہم ان ممالک میں شامل ہو گئے ہیں جہاں سائنسی بنیادوں پر ثبوتوں پر سزا دی جا سکتی ہے۔قصور کی کمسن مقتول زینب کے والد محمد امین کہتے ہیں کم سے کم وقت میں مقدمے کا فیصلہ آنا اچھی کوشش ہے، اس کے لیے وہ چیف جسٹس پاکستان کے شکر گزار ہیں۔گزشتہ روز لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اہم کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ زینب کے قاتل کے خلاف جج سجاد احمد نے 4 روز تک روزانہ 9 سے 11گھنٹے سماعت کی،56 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔ یاد رہے کہ صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا کہ اس وقت ان کے والدین عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں

شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تو ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا تھا تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔بچی کی لاش ملنے کے بعد قصور میں پر تشدد مظاہروں کا آغاز ہوا اور میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب اہلِ علاقہ نے

مشتعل ہو کر ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا اور دروازہ توڑ کر دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے

قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی تھی۔بعد ازاں وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔23 جنوری کو وزیرِ اعلی پنجاب شہباز شریف نے زینب کے والد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا، یاد رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے دعوی کیا گیا تھا کہ ملزم

عمران کو پاکپتن سے گرفتار کیا گیا تھا۔24 جنوری 2018 کو قصور میں کم سن زینب کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزم کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جبکہ عدالت نے ملزم کو 14 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔6 فروری 2018 کو زینب قتل کیس میں پولیس نے اہم پیش رفت کرتے ہوئے مرکزی ملزم عمران کو مزید 7 بچیوں کے ریپ اور قتل کیسز میں نامزد کر دیا تھا اور لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی

عدالت سے ملزم کا مزید 3 روزہ ریمانڈ بھی حاصل کیا تھا۔8 فروری پنجاب پولیس نے زینب سے متعلق کیس میں ملزم عمران کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرکے ملزم کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا تھا۔9 فروری کو اے ٹی سی نے قصور میں ریپ کے بعد قتل کی جانے والی زینب کے کیس میں گرفتار ملزم عمران کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کردیا تھا۔یاد رہے کہ 14 فروری کو ملزم محمد عمران کے وکیل

مہر شکیل ملتانی اپنے موکل کا مقدمہ لڑنے سے معذرت کرتے ہوئے اس کیس سے دستبردار ہوگئے تھے۔مہر شکیل ملتانی کے دستبردار ہونے کے بعد سرکاری وکیل محمد سلطان کو عمران کا وکیل مقرر کردیا گیا تھا۔ساڑھے گیا رہ سو افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد22 جنوری کو عمران علی پکڑا گیا جو اس کے محلے میں رہتا ہے۔ملزم عمران کا ڈی این اے زینب سمیت 8 بچیوں سے مل گیا،جو کہ گزشتہ 2سالوں میں قصور میں زیادتی کے بعد

قتل کی گئی تھیں۔پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ فرانزک رپورٹس کے مطابق عمران ہی زینب کا قاتل ہے۔گزشتہ دنوں ملزم عمران کی جانب سے قصور کی کمسن بچی زینب کو درندگی کا نشانہ بنانے کے اعتراف کے بعد ملزم عمران کے وکیل نے اپنا وکالت نامہ واپس لے لیا تھا۔عمران کے وکیل کا کہنا تھا کہ اقرار جرم کے بعد ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ سفاک ملزم کا کیس لڑوں۔انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کی جانب سے فیصلے سنانے

کے موقع پر قصور کی کمسن مقتول زینب کے والد محمد امین بھی موجود تھے۔ جیل آمد کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ کم سے کم وقت میں مقدمے کا فیصلہ آنا اچھی کوشش ہے۔ اس کے لیے وہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے شکر گزار ہیں۔واضح رہے کہ قصور کی 6 سالہ زینب4 جنوری کو اغوا ہوئی اور 9 جنوری کو لاش اس کے گھر سے کچھ فاصلے پر خالی پلاٹ سے ملی تھی۔زینب کے میڈیکل سے یہ بات

سامنے آئی کہ اسے زیادتی کے بعد قتل کیا گیاتھا ۔لاش ملتے ہی قصور کے شہری مشتعل ہو گئے تھے اورشہر بھر میں مظاہرے ہوئے جن میں2 افراد جان سے گئے۔ اہل علاقہ کے احتجاج اور میڈیا پر خبر کے بعد یہ ہائی پرو فائل کیس بن گیا ۔سپریم کورٹ اور وزیراعلی پنجاب نے واقعے کا فوری نوٹس لیا تھا۔

موضوعات:



کالم



مشہد میں دو دن (دوم)


فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…

ہم بھی کیا لوگ ہیں؟

حافظ صاحب میرے بزرگ دوست ہیں‘ میں انہیں 1995ء سے…

مرحوم نذیر ناجی(آخری حصہ)

ہمارے سیاست دان کا سب سے بڑا المیہ ہے یہ اہلیت…

مرحوم نذیر ناجی

نذیر ناجی صاحب کے ساتھ میرا چار ملاقاتوں اور…

گوہر اعجاز اور محسن نقوی

میں یہاں گوہر اعجاز اور محسن نقوی کی کیس سٹڈیز…