پاکستانی عوام اور فوج اپنی سرزمین کا دفاع کرنا جانتے ہیں، وزیراعظم

15  فروری‬‮  2018

اسلام آباد (آئی این پی) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستانی عوام اور فوج اپنی سرزمین کا دفاع کرنا جانتے ہیں، بھارت کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے ایل اوسی کی خلاف ورزی اور عام شہریوں کو نشانہ بناتا ہے ، پاک فوج ایل اوسی پر بھارت موثرجواب دیتی ہے، بھارت خطے میں امن و استحکام کیلئے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کیلئے مذاکرات کرے ۔

افغانستان بارے پاکستان کا موقف واضح ہے کہ مسئلے کا حل جنگ میں نہیں مذاکرات سے ہی ممکن ہے، پاکستان اس میں کردار ادا کرتا رہے گا ،کابل حکومت کی اپنی ناکامیوں اور خامیوں کی ذمہ داری پاکستان پر نہیں ڈالی جاسکتی، اداروں کے درمیان کوئی ٹکرائو نہیں ،آئین میں سب کے اختیارات موجود ہیں، الیکشن کمیشن کوسینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ معاملے کو دیکھنا چاہئے،جو لوگ پیسے سے سینیٹر منتخب ہو ئے ان کا بائیکاٹ کریں گے ،مسلم لیگ (ن) ایسے کسی عمل میں نہ تو شریک ہے اور نہ ہی حمایت کرتی ہے، پارٹی میں مشاورت کے بعد نئے چیئرمین سینٹ کے نام پر غور ہوگا ، نگران وزیراعظم کے لئے خورشید شاہ سے وقت آنے پر مشاورت کی جائے گی، پاکستان کوٹیرر فنانسنگ واچ لسٹ میں ڈالنے کے حوالے سیمیٹنگ 20فروری کو ہو گی ، حقائق سامنے رکھے جائیں گے،بیرونی ممالک کو پاکستان کے موقف اور حقائق سے آگاہ کیا جا رہا ہے،یل این جی ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جس سے انرجی کا بحران ختم کرنے میں مدد ملی ہے، کچھ سیاسی مخالفین خود کو میڈیا میں زندہ رکھنے کے لئے بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں ،نواز شریف ‘ مریم نواز اور کیپٹن (ر)صفدر کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا فیصلہ وزارت داخلہ کرے گی، نواز شریف کا ملک سے انرجی بحران کے خاتمے کا وعدہ پورا کیا جارہا ہے، بجہ وافر مقدار میں ہے ، ٹرانسمیشنز لائنز کا بڑا ایشو نہیں رہا اصل مسئلہ بجلی چوری کا ہے،بجلی چوری والے علاقوں میں چوری دوگنا ہو گئی ہے۔

جمعرات کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ’ آئی این پی‘‘ کے ایڈیٹر طارق محمود سمیر کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں ملک سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے کئے گئے اقدامات اور نئے پاور پلانٹس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میاں نواز شریف نے ملک سے انرجی کے بحران کے خاتمے کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کیا جارہا ہے۔ بجلی بہت آگئی ہے ٹرانسمیشنز لائنز کا بھی اتنا بڑا ایشو نہیں رہا اصل مسئلہ بجلی کی چوری کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب آٹھ سے دس گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی تھی تو بجلی کی چوری بھی رک جاتی تھی اب جب بجلی زیادہ دی جارہی ہے تو جن علاقوں میں بجلی کی چوری کی شکایات وصول ہوئی ہیں وہاں بجلی کی چوری دوگنا بڑھ گئی ہے۔ یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کو حل کرنے کے لئے صوبوں کو وفاق کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سردی کے موسم میں ٹیکنیکل ایشوز آتے جاتے رہتے ہیں اور جن پر وزارت توانائی اپنے بروقت اقدامات اٹھاتی ہے۔

جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ جولائی میں عام انتخابات کے موقع پر گرمی کا سیزن ہوگا اس وقت لوڈشیڈنگ کی کیا صورتحال ہوگی تو وزیراعظم نے کہا کہ الیکشن کے موقع پر لوڈشیڈنگ کا کوئی پرابلم نہیں ہوگا جتنی ڈیمانڈ ہے اتنی بجلی بنائی جاسکتی ہے۔ پاور پلانٹس تیزی سے لگ رہے ہیں صارفین کو بجلی پہنچائی جارہی ہے میں پھر وہی کہوں گا اصل مسئلہ بجلی چوری کا ہے۔

صوبوں اور وفاق کے درمیان اس معاملے پر تعاون ہونا چاہئے جب سب ادارے تعاون کریں گے تو بجلی چوری روکنے میں کامیابی ہوگی۔ وزیراعظم نے کہا کہ چار ڈسٹری بیوشن کمپنیوں سکھر‘ حیدر آباد‘ کوئٹہ اور پشاور میں بجلی کی چوری کی شرح چالیس فیصد ہے یہ کئی سالوں سے بجلی چوری کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جب مثال کے طور پر دس گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی تھی تو بجلی کی چوری میں بھی کمی ہوجاتی تھی۔

اور جب بجلی زیادہ مل رہی ہے اور جن علاقوں میں چوری ہے وہاں اس کی شرح بڑھ جائے گی اور اس کے لئے وزارت توانائی کو ہدایات دی ہیں کہ وہ موثر اقدامات کرے اور صوبوں کے ساتھ بھی کوآرڈینیشن بڑھائے۔ وزیراعظم نے ایل این جی منصوبے کے متعلق ایک سیاسی پارٹی کے رہنما کی طرف سے انہیں نااہل قرار دینے کی درخواست سپریم کورٹ سے مسترد ہونے کے سوال پر کہا کہ سیاسی مخالفین ایسے ہی کام میں لگے رہتے ہیں۔

ایل این جی ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جس سے انرجی کا بحران ختم کرنے میں مدد ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بطور وزیر پٹرولیم اور وزیراعظم کے طور پر قومی اسمبلی اور سینٹ میں کئی مرتبہ ایل این جی منصوبہ پر بریفنگ دے چکے ہیں وہاں ضروری دستاویزات بھی دی جاچکی ہیں کچھ سیاسی مخالفین خود کو میڈیا میں زندہ رکھنے کے لئے بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں۔

جس میں کوئی وزن نہیں میں تو کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ اس ایشو پر سامنے آکر بات کریں۔ یہ الزام وہ لگا رہے ہیں جن کے اپنے ہاتھ صاف نہیں ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف ‘ ان کی بیٹی مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے نام ای سی ایل میں ڈالنے سے متعلق نیب کے خط پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نیب کے خط آتے ہیں جس میں سفارشات کی جاتی ہیں۔

یہ معاملہ وزارت داخلہ کا ہے وہی اس کو دیکھ رہی ہے اور وہی اس کے متعلق فیصلہ کرے گی۔ وزیراعظم سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد موٹر وے کے ذریعے لاہور جانے کی تجویز سے متعلق دیئے گئے حالیہ ریمارکس پر جب سوال کیا گیا تو وزیراعظم نے کہا کہ نواز شریف نے پنجاب ہائوس میں پارٹی رہنمائوں سے ملاقات کے دوران ہلکے پھلکے انداز میں یہ بات کی تھی اور انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا تھا اور نہ ہی کسی پر الزام لگایا ہے۔

پارٹی میں جب بھی اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو سب اس پر عمل کرتے ہیں۔ پہلے یہ فیصلہ ہوا تھا کہ موٹر وے کے ذریعے جائیں گے بعد ازاں پارٹی قیادت نے اس فیصلے پر نظر ثانی کرلی جسے سب نے تسلیم کرلیا۔ امریکہ کی طرف سے ٹیرر فنانسنگ واچ لسٹ میں پاکستان کو شامل کرنے پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اس معاملے پر تمام حقائق اور پاکستان کا موقف ممبر ممالک کے سامنے رکھے گئے ہیں۔

اس حوالے سے میٹنگ 20فروری کو ہورہی ہے وہاں بھی حقائق سامنے رکھے جائیں گے۔ ایک آرڈیننس کا اجراء بھی کردیا گیا ہے وہ بھی پراسیس کا حصہ تھا اس معاملے پر کوئی دقت نہیں ہے اور بیرونی ممالک کو پاکستان کے موقف اور حقائق سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ سینٹ کے الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ میرا اس حوالے سے واضح موقف ہے کہ جس جماعت کا ایک صوبے میں ایک بھی ایم پی اے نہیں ہے وہ کس بنیاد پر وہاں سے اپنے سینیٹر منتخب کرانے کی بات کررہی ہے۔

کیسے سینیٹر منتخب کرائے گی صرف خرید و فروخت ہی ایک طریقہ رہ جاتا ہے الیکشن کمیشن کو بھی اس معاملے کو دیکھنا چاہئے کہ سینٹ کے الیکشن میں کیا ہورہا ہے کیا شکایات اور باتیں سامنے آرہی ہیں ۔ جو بھی لوگ خرید و فروخت کرکے منتخب ہو کر سینیٹر منتخب ہو کر آئیں گے ہم ان کا بائیکاٹ کریں گے انہیں بدنام کریں گے کیونکہ یہ لوگ کسی طرح بھی عوام کے منتخب نمائندے نہیں ہوسکتے۔

مسلم لیگ (ن) ایسے کسی عمل میں نہ تو شریک ہے اور نہ ہی حمایت کرتی ہے۔ جہاں تک نئے چیئرمین سینٹ کے انتخابات کا تعلق ہے اس حوالے سے پارٹی میں مشاورت کے بعد نئے چیئرمین سینٹ کے نام پر غور ہوگا اور 3مارچ کو سینٹ کے انتخابات کے بعد اس معاملے پر فیصلہ ہوگا۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کی طرف سے نگران حکومت کے لئے اچھی شہرت کے حامل شخصیت کو نامزد کرنے کے بیان پر وزیراعظم نے کہا کہ نگران وزیراعظم کے لئے خورشید شاہ سے وقت آنے پر مشاورت کی جائے گی۔

اور خورشید شاہ اس حوالے سے جو بات کررہے ہیں رائے دے رہے ہیں کہ اچھی شہرت کے حامل شخصیت کو آنا چاہیئے اور جس پر کوئی داغ نہ ہو اور وہ شفاف انتخابات کرانے کی اہلیت رکھنے والی شخصیت ہو تو میں خورشید شاہ کی رائے سے مکمل اتفاق کرتا ہوں اور مناسب وقت پر اس حوالے سے ان سے مشاورت کی جائے گی۔ وزیراعظم نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ اداروں کے درمیان کوئی ٹکرائو والی بات نہیں ہے۔

آئین میں ہر ادارے کا دائرہ اختیار واضح کیا گیا ہے عدلیہ ہو یا کوئی اور ادارہ یا سویلین سب کے اختیارات موجود ہیں اس وقت میڈیا بھی ایک ادارہ بن چکا ہے سب کو اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے اور اپنی اپنی ذمہ د اری کا مظاہرہ کرنا چاہئے اسی میں ملک کا فائدہ ہے۔ اگر صرف اخباری خبروں اور ہیڈ لائنز تک خود کو محدود کرلیا جائے گا تو اس سے ملک کا نقصان ہوگا۔ ملک اور سب کا مفاد اسی میں ہے کہ آئین پر عمل کیا جائے ۔

اگر صرف ہیڈ لائنز کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنے ہیں تو بات نہیں بنے گی۔ بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر مسلسل خلاف ورزیوں اور سویلینز کی شہادتوں کے معاملے پر ایک سوال پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے واضح کیا کہ پاکستان کی عوام اور فوج اپنی سرزمین کا دفاع کرنا جانتے ہیں جب بھی بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی جاتی ہے تو پاک فوج موثر طریقے سے اس کا جواب دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی تیز ہورہی ہے اور وہاں پر پڑنے والا دبائو کم کرنے کے لئے بھارت لائن آف کنٹرول پر مسلسل فائرنگ کرتا ہے اور سویلین کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حکومت نے اقوام متحدہ ‘ او آئی سی اور دیگر عالمی فورمز پر بار بار یہ مسئلہ اٹھایا ہے سویلینز کو نشانہ بنانا بھارت کا ایک بزدلانہ فعل ہے۔

پاک فوج ہر موقع پر بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کا مقابلہ کرتی ہے۔ انہوں نے بھارت کو پیغام دیا کہ خطے میں امن و استحکام کے لئے بھارت مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کے لئے مذاکرات کرے۔ افغانستان کی صورتحال کے بارے میں ایک سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کے بارے میں پاکستان کا سیدھا اور واضح موقف ہے کہ مسئلے کا حل جنگ میں نہیں مل بیٹھ کر بات چیت اور مذاکرات سے ہی حل ممکن ہے۔ کابل حکومت کی اپنی ناکامیوں اور خامیوں کی ذمہ داری پاکستان پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ ہم ہمیشہ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ افغان گروپس آپس میں بیٹھ کر مسائل حل کریں اور ان کو آپس میں بٹھانے میں پاکستان بھرپور تعاون کررہا ہے اور مزید کریگا اور معاونت ہم کرسکتے ہیں یہی ہمارا موقف ہے۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…