معصوم بچی زینب کا قاتل عمران کون تھا؟ ملزم پہلے ڈی این اے ٹیسٹ سے کیسے بچ نکلا؟پولیس نے اسے پہلے ’’بے گناہ‘‘ سمجھ کرکیوں چھوڑا؟جاوید چودھری کے انکشافات

23  جنوری‬‮  2018

خواتین وحضرات ۔۔ آج معصوم بچی زینب کا قاتل عمران علی گرفتار ہو گیا‘ عمران علی زینب کی گلی میں رہتا تھا‘ یہ بچی کو اکثر (اوقات) اپنے ساتھ (گھمانے) لے جاتا تھا‘ یہ چارجنوری کو بچی کو گلی سے ساتھ لے گیا اور بعد ازاں 9جنوری کو بچی کی لاش ملی‘ یہ لاش ملنے کے بعد بھی خاندان کے ساتھ ملتا رہا‘ پولیس نے 14 جنوری کو ۔۔اس کا ڈی این اے سیمپل بھی لیا‘ یہ گرفتار بھی ہوا ۔۔لیکن پولیس نے ۔۔اسے بے (گناہ) سمجھ کر چھوڑ دیا‘ یہ رہائی کے بعد

مختلف شہروں میں گھومتا رہا‘ یہ دوبارہ گرفتار ہوا‘ ۔۔اس کا دوبارہ ڈی این اے ٹیسٹ ہوا‘ ڈی این اے میچ کر گیا اور یوں یہ گرفتار ہو گیا‘ ملزم کی گرفتاری نے چند حقائق ثابت کر دیئے‘ پہلی حقیقت زینب کے معاملے میں پنجاب حکومت کی سائنسی بنیادیں فیل ہو گئیں‘ پنجاب حکومت نے پنجاب آئی ٹی بورڈ بنایا تھا‘ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر عمر سیف ہیں‘ بورڈ نے اربوں روپے لگا کر پولیس سسٹم کو کمپیوٹرائزیشن کی‘ پولیس کو دس مہنگے ترین سافٹ ویئر بنا کر دیئے گئے ۔۔لیکن آپ ۔۔ان سافٹ ویئرز کا کمال ملاحظہ کیجئے‘ عمران علی نے ایک کلو میٹر کے ریڈیس میں آٹھ بچیوں کو ریپ کے بعد قتل کر دیا مگر سسٹم نے الرٹ جاری کی اور نہ ہی ۔۔اس نے وارننگ دی‘ ڈی آئی جی پولیس‘ آئی جی‘ پولیس اور چیف منسٹر تک ۔۔ان واقعات سے بے خبر رہے‘ دوسری حقیقت زینب کا کیس سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے اٹھایا‘ چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا‘ اگر یہ نوٹس نہ ہوتا‘ اگر میڈیا یہ ایشو نہ اٹھاتا تو یہ بچی بھی باقی بچیوں کی طرح ماضی کا قصہ بن جاتی‘ تیسری حقیقت ملزم کو آئی ٹی بورڈ کی سائنسی بنیادوں نے گرفتار نہیں کیا‘ یہ شروع میں ڈی این اے سے بھی بچ نکلا تھا‘ یہ روایتی پولیسنگ‘ خفیہ اداروں اور اپنی غلطی کی وجہ سے گرفتار ہوا‘ اربوں روپے کی پولیس کمپیوٹرائزیشن فیل ہو گئی اور چوتھی حقیقت زینب کیس کی وجہ سے پنجاب حکومت کا کرائم میپنگ سسٹم جعلی‘ فضول اور کرپٹ ثابت ہو گیا چنانچہ نیب کو پنجاب کے آئی ٹی بورڈ کا احتساب بھی کرنا چاہیے۔
خواتین وحضرات وہ سائنسی بنیادیں کہاں ہیں جن کے ذریعے زینب کے قاتل نے گرفتار ہونا تھا‘جن کے ذریعے پنجاب میں جرائم پر قابو پایا جانا تھا‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا جبکہ ہم آج کے پروگرام میں میاں شہباز اور عمران خان کے تازہ ترین بیانات پر بھی بات کریں گے (ساٹس‘ شہباز شریف/عمران خان) 31 جنوری کے بعد ضمنی الیکشن ممکن نہیں رہیں گے چنانچہ اگر عمران خان اور شیخ رشید نے استعفے دینے ہیں تو یہ 31 جنوری کے بعد دیں گے‘ ہم اس پر بھی بات کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔



کالم



مشہد میں دو دن (دوم)


فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…

ہم بھی کیا لوگ ہیں؟

حافظ صاحب میرے بزرگ دوست ہیں‘ میں انہیں 1995ء سے…

مرحوم نذیر ناجی(آخری حصہ)

ہمارے سیاست دان کا سب سے بڑا المیہ ہے یہ اہلیت…

مرحوم نذیر ناجی

نذیر ناجی صاحب کے ساتھ میرا چار ملاقاتوں اور…

گوہر اعجاز اور محسن نقوی

میں یہاں گوہر اعجاز اور محسن نقوی کی کیس سٹڈیز…