قومی اسمبلی ،نااہل شخص کو کسی بھی سیاسی جماعت کی سربراہی سے روکنے کیلئے بل مسترد ،حق میں اور مخالفت میں کتنے ووٹ آئے ،تفصیلات سامنے آگئیں

22  ‬‮نومبر‬‮  2017

اسلام آباد(این این آئی)قومی اسمبلی میں پوزیشن کے شدید احتجاج اور شور شرابے کے باوجود نااہل شخص کو کسی بھی سیاسی جماعت کی سربراہی سے روکنے کیلئے پیش کردہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بل کو حکمران اتحاد نے اکثریتی بنیاد پر مسترد کر دیاجس کے بعد سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سربراہ رہیں گے ٗ بل کے حق میں 98اور بل کی مخالفت میں 163ووٹ آئے ۔

منگل کوقومی اسمبلی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے الیکشن ایکٹ 2017 کے آرٹیکل 203 میں ترمیم کا بل پیش کیا جس کے تحت نااہل شخص کسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکتا۔ پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر نوید قمر نے بل پیش کیا جس میں کہا گیا کہ ایک شخص جب تک پارٹی کا سربراہ نہیں ہوسکتا جب تک وہ خود ممبر اسمبلی بننے کا اہل نہ ہو، نا اہل شخص باہربیٹھ کر سربراہ کے طور پر پالیسی ڈکٹیٹ کرے مناسب نہیں۔سید نوید قمر نے کہا کہ انتخابات ایکٹ بل میں مزید ترامیم بھی ہوئی ہیں ٗجب ایک شخص کو فائدہ دینے کے لیے لاتے ہیں تو پورے ملک کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، کوئی شخص پارٹی سربراہ بننے کا اہل کیسے ہے جب تک رکن بننے کا اہل نہ ہو؟انہوں نے کہا کہ آج جو حاضری نظر آرہی ہے کاش یہ حاضری گزشتہ ساڑھے چار میں ہوتی تو آج یہ قانون سازی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس ایوان کی عزت کرانا سب سے پہلے قائد ایوان کا کام ہوتا ہے، ایوان کی موجودگی ہی ایوان کا وقار بلند کرتی ہے، یہ ایوان صرف ہاتھ کھڑا کرنے کے لیے نہیں ہوتا۔پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر نے کہا کہ اگر یہ بل پاس نہیں ہوتا تو ابھی ایک مرحلہ اور بھی ہے، بل مشترکہ اجلاس میں بھی جاسکتا ہے، پھر وہی نمبر گیم نظر آئیگا جو آج نظر آیا۔انہوں نے کہاکہ ارکان پر مشتمل ایوان کوئی فیصلہ کرتا ہے اور باہر بیٹھا شخص اسے تبدیل کر دے تو یہ غیر آئینی ہے اور بدقسمتی سے ایک فرد کو فائدہ دینے کیلئے ایک ترمیم منظور کرائی گئی۔ سینیٹ میں ہمارے اس بل کو اکثریت سے منظور کرلیا گیا اور امید ہے کہ قومی اسمبلی میں بھی اسے منظور کرلیا جائیگا۔ قومی اسمبلی سے بل پاس نہ ہوا تو مشترکہ اجلاس میں جائے گا۔ ہماری کوشش ہے کہ اس ترمیم کو آج ہی منظور کرلیا جائے تاکہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی ضرورت نہ پڑے۔نوید قمر کے اظہار خیال کے دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے درمیان فقرے بازی شروع ہوئی تاہم اسپیکر کی جانب سے بار ہا ہدایات ملنے کے باوجود ارکان کی فقرے بازی ختم نہ ہوئی

۔وزیر قانون زاہد حامد نے بل کی شدید مخالفت کی، وزیر قانون زاہد حامد نے بھی بات کرنے کی کوشش کی جس پر شاہ محمود بار بار بیچ میں بولتے رہے۔ وزیر قانون زاہد حامد نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کو ذوالفقار بھٹو نے 1975 متعارف کرایا تھا لیکن پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو پارٹی کی سربراہی سے دور رکھنے کے لیے اس قانون کو ختم کردیا۔انہوں نے کہاکہ 17 نومبر 2014 میں اس قانون کے حوالے سے پارلیمنٹ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں اسی قانون کو پیش کیا گیا تھا اس وقت پاناما پیپرز نہیں آئے تھے جو ڈیڑھ سال بعد اپریل 2016 میں سامنے آئے تھے۔وزیرقانون نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے یہ کہنا صرف ایک شخص کے لیے بل لایا جارہا صحیح نہیں کیونکہ اس بل کے حوالے سے پہلے ہی اتفاق تھا۔بعد ازاں اسپیکر ایاز صادق نے بل پڑھ کر سنایا جس کے بعد مسترد کیا گیا تاہم نوید قمر نے کہا کہ ڈویژن ہے جس پر سپیکر سردار ایاز صادق نے گنتی کا حکم دیا پہلے بل کے حق میں ارکان کھڑے ہوئے جن کی گنتی کی گئی اور بعد ازاں بل کے مخالف ارکان کھڑے ہوئے جن کی گنتی کی گئی ۔گنتی کے بعد سپیکر نے نتائج کا اعلان کیا جس کے مطابق بل کے حق میں98 ووٹ آئے جبکہ مخالفت میں 163 ارکان نے ووٹ دیا جبکہ سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن میر ظفراللہ جمالی نے بل کی مخالفت نہیں کی۔نتائج کا اعلان ہوتے ہی حکومتی ارکان نے دیکھو، دیکھو شیر آیا کے پرجوش نعرے لگائے۔میڈیار پورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے 167 ارکان کے علاوہ اس کی اتحادی جماعت جے یو آئی (ف) کے 13، فنکشنل لیگ کے 5 اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے 3 ارکان شریک تھے۔ دوسری جانب اپوزیشن میں شامل پیپلز پارٹی کے 45، تحریک انصاف کے 33، ایم کیو ایم کے 24، جماعت اسلامی کے 4 جبکہ مسلم لیگ (ق) اور اے این پی کے 2،2 ارکان نے شرکت کی۔ اجلاس کے دور ان ممبر قومی اسمبلی جمشید دستی نے بولنے کی کوشش کی جس پر اسپیکر نے ان پر برہمی کا اظہار کیا اور بیٹھنے کی تاکید کی۔قبل ازیں سید نوید قمر کی جانب سے بل پیش کیے جانے کے بعد شاہ محمود قریشی نے بات کرنے کی کوشش کی جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے انہیں بار بار روکا تاہم اجازت ملنے پر شاہ محمود قریشی نے بات کرتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد کی مخالفت پر کہا کہ وزیر قانون کو حق ہے کہ بل مسترد کردیں یہ اپوزیشن کا مشترکہ بل ہے لیکن حکومت گھبرا کیوں رہی ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ قانون میں شرط تھی کہ نااہل شخص سیاسی جماعت کاسربراہ نہیں بن سکتا، اس شرط کو الیکشن ایکٹ کے ذریعے ختم کردیا گیا۔

بل پیش کیے جانے کے بعد ایوان میں شوروغل شروع ہوگیا اور ارکان شور شرابا کرنے لگے ٗشاہ محمود قریشی نے حکومتی ارکان کے شور شرابے پر کہا کہ وزرا ایوان کا ماحول خراب کررہے ہیں۔وزیر قانون کے بعد قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کا دفاع کرنے والا آج نواز شریف کا دفاع کررہا ہے۔خواجہ سعد رفیق نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نعروں سے تاریخ نہیں بدلی جاسکتی ،آئین میں تجاوزات کھڑی کی گئیں ہیں ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں ، انہوں نے کہا کہ غاضب مشرف نے بے نظیر اور نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کے لئے جبراً اس کو قانون کا حصہ بنایا ہم اس تجاوزات کو ہٹانا چاہتے ہیں۔ یہ کام آج نہیں 2014ء میں شروع ہوا۔ پھر اچانک مزاج بدلے‘ انداز بدلے یا کسی کے کہنے پر یہ کرنے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی قیادت کا فیصلہ اس کے کارکن کریں گے چند لوگوں کو 21 کروڑ کے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں دیں گے۔انہوں نے کہا کہ یہ وہ جنگ ہے جو ہم نے ہی نہیں پیپلز پارٹی ‘ ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی نے بھی لڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ جمہوریت کی جنگ ہے۔ ملک میں جمہوریت کو آگے بڑھنے نہیں دیا جارہا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد نے اس کے لئے اپنی جانیں دیں۔یہ وقت ہم سے پہلے بی بی پر آیا۔ انہوں نے بہت بھگتا اب ہم بھگت رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن جماعتوں نے جمہوریت کی جنگ لڑی ان کو نظریہ ضرورت کے تحت ‘ نفرت‘ تعصب کے تحت ایسے قوانین بنانے کی کوشش نہ کریں۔ اس سے جمہوریت کمزور ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کوئی کون ہوگا جو ہمیں یہ سبق پڑھائے کہ یہ آپ کا لیڈر ہوگا۔ وقت کی پکار کو سنیں‘ جمہور کی آواز سنیں‘ پارلیمنٹ مائنس کرنے کا مل کر مقابلہ کریں، انہوں نے کہا کہ جب کسی کو سیاست سے مائنس کیا جاتا ہے تو ایوان مائنس ہوتا ہے ، انہوں نے کہا کہ ایسے قانون بنانے سے گریز کیا جائے جو پاکستان میں جمہوریت کو نہ پنپنے دے۔ اس سے قبل خواجہ سعد رفیق نے اپنی تقریر کا آغاز اپوزیشن بنچوں کی طرف ہاتھ کرکے اس شعر سے کیا کہ ’’ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے‘‘،ذہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے،کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے،زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا،بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے جس پر اپوزیشن ارکان نے اوئے اوئے کے نعرے بلند کئے۔بل پیش کئے جانے کے دوران دونوں طرف سے ارکان نعرے بازی کرتے رہے، اپوزیشن ارکان نے گلی گلی میں شور ہے نواز شریف چور ہے اور چور ، ڈاکو نامنظور کے نعرے لگائے جس کے جواب میں حکومتی ارکان نے دیکھو دیکھو کون آیا، شیر آیا، شیر آیا ، میاں تیرے جانثار ،بے شمار بے شمار ، اک واری فیر شیر ،شیر کے نعرے لگائے ، سپیکر نے ارکان کو نعرے بازی سے منع کیا ، تحریک پر ووٹنگ کے بعد حکومتی ارکان نے ایک مرتبہ پھر اک واری فیر شیر کے نعرے لگائے اسی شور شرابے میں سپیکر نے اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔



کالم



اللہ کے حوالے


سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…