جنرل راحیل شریف کی اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی کا ڈراپ سین،پاکستان نے سرپرائز دیدیا

18  جولائی  2017

اسلام آباد (این این آئی) وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امورسرتا ج عزیز نے کہاہے کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سعودی عرب میں تاحال کسی فوج کی قیادت نہیں کررہے ٗاس وقت فوج بنی ہے اور نہ ہی ٹی او آرز کو حتمی شکل دی گئی ہے ٗاسلامی فوجی اتحاد کے ٹی او آرز سے متعلق پارلیمنٹ کو آگاہ کیا جائے گا ٗافغانستان میں مسئلہ کا فوجی حل نہیں ہے ٗ مفاہمتی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ٗ امن عمل کو افغان قیادت میں اور افغانوں کے اپنے ذریعے ہونا چاہئے ٗہماری پالیسی واضح ہے ٗ

ہم ہر قسم کے دہشت گردوں کے خلاف ہیں، ہم ان سے ہر جگہ لڑیں گے اور اپنی سرزمین پر ان کو برداشت نہیں کریں گے ٗخطے میں پائیدار امن کے لئے پاک امریکہ تعلقات ناگزیر ہیں جبکہ چیئر مین سینٹ میاں رضا ربانی نے مشیر خارجہ کے بیان پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ ابھی تک سعودی اتحاد کے ٹی او آرز تک نہیں بنے اور فوج تیار ہوگئی ٗآپ نے تو اس فوجی اتحاد کا سربراہ بھی مقرر کر دیا ہے، آپ کے سابق آرمی چیف سعودی اتحاد کی سربراہی کیلئے بھی چلے گئے ٗوہاں کیا کررہے ہیں ۔منگل کو سینٹ میں قائد حزب اختلاف اور اپوزیشن کے کئی ارکان کی طرف سے جمع کرائی گئی تحریک کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہاکہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سعودی عرب میں تاحال کسی فوج کی قیادت نہیں کر رہے، اس وقت فوج بنی ہے اور نہ ہی ٹی او آرز کو حتمی شکل دی گئی ہے۔سرتاج عزیز نے بتایا کہ ٹی او آرز کو حتمی شکل دینے کیلئے رکن ممالک اور وزیردفاع کے درمیان ملاقات ہونی تھی ٗ جو تاحال نہیں ہو سکی۔مشیر امور خارجہ نے مزید کہا کہ اسلامی فوجی اتحاد کے ٹی او آرز سے متعلق پارلیمنٹ کو آگاہ کیا جائے گا۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ امریکی سینیٹ کی آرمز سروسز کمیٹی کے چیئرمین جان مکین کی سربراہی میں 2 سے 3 جولائی تک 5 رکنی امریکی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا اور اس دوران وزیراعظم اور مشیر سے بھی ملاقاتیں کیں ٗ

امریکی سینیٹرز کا وفد آرمی چیف سے بھی ملا اور انہیں انسداد دہشت گردی آپریشنز کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ یہ وفد پاکستان سے افغانستان گیا جہاں جان مکین نے افغانستان میں سلامتی کی صورتحال اور حکمت عملی کے فقدان کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا۔ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک اور محفوظ پناہ گاہوں کے حوالے سے بھی انہوں نے پاکستان میں اپنے رابطوں کے دوران تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بھی افغانستان پر اپنا تجزیہ پیش کیا اور اس بات سے اتفاق کیا کہ وہاں صورتحال خراب ہو رہی ہے۔

ہم نے رائے دی کہ اس مسئلہ کا فوجی حل نہیں ہے اور مفاہمتی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے افغان مفاہمتی عمل کے سلسلے میں سہولت فراہم کرنے کے لئے کیو سی جی کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ امن عمل کو افغان قیادت میں اور افغانوں کے اپنے ذریعے ہونا چاہئے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے ہم نے وفد کو بتایا کہ 2013ء سے موجودہ حکومت نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے قبائلی علاقوں سمیت ملک بھر سے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو تباہ کیا۔

امریکی وفد کو وانا کا دورہ بھی کرایا گیا اور اس آپریشن کے نتائج کے بارے میں بتایا گیا۔ وفد کو سرحد پر نگرانی بڑھانے اور باڑ لگانے کے ذریعے محفوظ بنانے کے بارے میں بتایا گیا۔ وفد کو بتایا گیا کہ پاکستان میں تین ملین افغان پناہ گزین رہتے ہیں اور ان کی واپسی ضروری ہے۔ ہم نے دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی ہے اور پاکستان نے افغانستان کو انسداد دہشت گردی اور سرحدی انتظام کے لئے ادارہ جاتی تعاون کی پیشکش کی ہے اور اس سلسلے میں ہم خلوص اور شفافیت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

ہم نے ٹرمپ انتظامیہ کو بھی اپنے تجزیہ سے آگاہ کر دیا ہے۔ ہماری پالیسی واضح ہے، ہم ہر قسم کے دہشت گردوں کے خلاف ہیں، ہم ان سے ہر جگہ لڑیں گے اور اپنی سرزمین پر ان کو برداشت نہیں کریں گے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ ہم اپنے قومی مفاد میں یہ سب کچھ کر رہے ہیں اور اس کا کسی ملک کی پالیسی سے تعلق نہیں۔ خطے میں پائیدار امن کے لئے پاک امریکہ تعلقات ناگزیر ہیں۔

اپوزیشن ارکان نے کابل میں امریکی سروسز کمیٹی کے چیئرمین کی جانب سے شمالی وزیرستان کے دورہ کے فوری بعد دیئے گئے بیان کے اثرات کو زیر بحث لانے کی تحریک پیش کی تھی۔ مشیرخارجہ کے بیان پر چیئرمین سینیٹ رضاربانی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک سعودی اتحاد کے ٹی او آرز تک نہیں بنے اور فوج تیار ہوگئی آپ نے تو اس فوجی اتحاد کا سربراہ بھی مقرر کر دیا ہے، آپ کے سابق آرمی چیف سعودی اتحاد کی سربراہی کے لیے بھی چلے گئے،

وہ وہاں کیا کر رہے ہیں، ریٹائرڈ فوجی کرنل اور بریگیڈیئر رینک کے افسران وہاں جا رہے ہیں ٗ امریکی سینیٹرز پاکستان آتے ہیں اور صرف اسٹیبلشمنٹ سے ملاقاتیں کرکے چلے جاتے ہیں انہوں نے کبھی منتخب نمائندوں سے ملاقات نہیں کی۔رضاربانی نے مشیر خارجہ سے استفسار کیا کہ اگر ٹی او آرز پاکستان کی مرضی کے مطابق نہ بنے تو حکومت کیا کریگی ٗ اگر اتحادی فوج کا قیام عمل میں آگیا اور اس نے مشرق وسطیٰ کے کسی ملک کے خلاف کارروائی کی تو آپ کیا کریں گے، آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس کا اثر نہیں پڑیگا۔

سرتاج عزیزنے جواب دیا کہ ہماری اطلاع کے مطابق ابھی تک عسکری اتحاد کو کوئی فوج ترتیب نہیں دی گئی، یمن میں جن ممالک نیفوج بھیجی ہے وہ اس اتحاد کے ذریعے نہیں گئی جبکہ سابق آرمی چیف اسی پالیسی پر عمل کریں گے جو پاکستان کی پارلیمنٹ بنائیگی۔چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ جوہری طاقت کے حامل ملک کے سابق فوجی سربراہ کو آپ نے حساس جگہ پر بھیج دیا اور آپ کو ٹی او آرز کا پتہ بھی نہیں۔انہوں نے کہاکہ اگر ٹی او آرز پاکستان کی نیشنل سیکیورٹی کے مفاد میں نہ ہوئے،

تو پھر آپ کیا کریں گے، آپ تو پہلے ہی راحیل شریف کو سعودی عرب بھیج چکے ہیں۔سینیٹ میں اسلامی فوجی اتحاد سے متعلق تحریک پر بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ راحیل شریف نے ریٹائرمنٹ سے 10 ماہ قبل فوجی کے تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ذریعے مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کا اعلان کیا۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ راحیل شریف کا 10 ماہ قبل توسیع نہ لینے کے اعلان کا مقصد کیا تھا جبکہ کسی نے انہیں مدت ملازمت میں توسیع کی پیشکش بھی نہیں کی تھی تو انہوں نے یہ اعلان کیوں کیا؟

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کیا راحیل شریف سعودی عرب کو پیغام دینا چاہتا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ دستیاب ہیں؟پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا فرحت اللہ بابر نے کہاکہ چھ جولائی کو اقوام متحدہ نے جماعت الحرار پر پابند عائد کی ٗپاکستان میں جماعت الحرار کو کالعدم قرار دیا گیا انہوں نے کہاکہ جب جیش محمد پر پابندی کی بات آئی تو چین کے ذریعے ویٹو کرایا گیا دفتر خارجہ کی پالیسی میں تضاد کیوں ہے ؟ پیپلز پارٹی کی سحر کامران نے کہاکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی مضحکہ خیز ہے ٗ

حکومت کو پانا ما سے ہی فرصت نہیں ہے جس قسم کے تضادات سامنے آرہے ہیں ملک وہاں اور دنیا میں تنہا ہورہا ہے ٗ وزیر خارجہ نہ ہونے کی وجہ سے پارلیمان کو بھی اعتماد میں نہیں لیا جارہا ہے سمجھ سے بالا تر ہے کہ حکومتی معاملات کیسے چل رہے ہیں ؟سینیٹر تاج حیدر نے کہاکہ امریکہ نے ایک ایک کر کے مسلمان ممالک کو مفادات کیلئے استعمال کیا امریکی معیشت اور ترقی اسلحہ کی فرخت پر کھڑی ہے اسلامی اتحاد فوج کی کمان سنبھالنے پر پارلیمنٹ کو اندھیرے میں رکھا گیا ٗ

پہلے ہم امریکہ اور اب سعودی عر ب کیلئے لڑ رہے ہیں ٗ وزیر دفاع اور مشیر خارجہ نے پالیسی بیان دیا کہ ہم اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے یہ حرمین شریفین کی نہیں سعودیہ کی جنگ ہے ۔وزار ت خارجہ اس بات کی یقین دہانی کرائے کہ یمن کے معاملے پر استعمال نہیں ہونگے ۔عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ فرقہ وارانہ فساد نہیں ہونے دیں گے انہوں نے کہاکہ ہم نے اپنے ملک کو تباہ کر دیا ہے امریکہ نے ہمیں کیا دیا ہے۔

امریکی جنگ پورے ملک میں پھیلی جان مکین نے بھی کہاکہ حقانی گروپ کی حمایت چھوڑ دیں افغانستان میں بھی جا کر کہا ٗ سعودی عرب میں ہمارے سپہ سالار کو خصوصی اجازت دی گئی پیسے کیلئے پاکستان کو دباؤ پر لگا رہے ہیں ایران نے ہماری مدد کی ٗ آج ایران کے خلاف اکٹھے ہورہے ہیں پاکستان کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں ایک خارجہ پالیسی بنائی جائے ٗچین کے سوا کوئی پاکستان کا دوست نہیں چین بھی پاکستان سے فائدہ اٹھا رہاہے۔

جب اتحاد ٹی او آر نہیں بنے تو سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو کیوں بھیجا گیا ۔سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہاکہ آج تک نہیں بتایا گیا کہ خارجہ پالیسی کون چلا رہا ہے انہوں نے کہاکہ جان مکین نے افغانستان میں کہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کا قوم فیصلہ کرے گی انہوں نے کہاکہ آپ کے سابق آرمی چیف امریکہ صدر کے حکم پر ریجن میں پالیسیاں بناتا رہا ٗ بادشاہوں سے تعلقات کے بجائے عوام سے تعلقات بڑھاؤ ٗ عوام آپ کا ساتھ دیں گے بادشاہ نہیں ۔

انہوں نے کہاکہ اگر پارلیمنٹرینز اپنے آپ کو مضبوط بنائیں گے تو امریکی کانگریس کے رکن آپ کے قدموں میں گریں گے ٗ انہوں نے کہاکہ آپ شام عراق لیبیااور افغانستان سے سبق سیکھو ٗاقتدار کی خاطر آئین اور پارلیمنٹ کو چھوڑ دیا گیا ۔ سینٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن نے کہاکہ ہمارے ذہن پر ایک وہم سوار ہے ٗہم ساری دنیا کو اپنے جیسا بنانے پر سوچ رہے ہیں اسلام نے دنیا پر غالب آنا ہے ٗبھارت کو ایک چٹکی پر بھگا سکتے ہیں۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ چین پاکستان سے دوستی کرنے پر مجبور ہے ایران کا ہم دفاع کر سکتے ہیں ٗعرب ہم سے بھیک مانگنے پر مجبور ہو گاانہوں نے کہاکہ ہم قرض ان سے لیتے ہیں اسلحہ ان سے لیتے ہیں ٗمعاشرے میں انصاف اور جدیدیت کیخلاف ہیں پھر بھی کہتے ہیں ہم دنیا میں غالب آئیں گے انہوں نے کہاکہ ہمیں دنیا کو فتح کرنے کے خواب چھوڑنا ہونگے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ جان مکین کے ایک بیان پر پارلیمنٹ پر بحث کر رہے ہیں ٗاس سے خطرناک بات تھی کہ سابق آمر ایک کال پر سرنڈر کر گیا۔

انہوں نے کہاکہ آمر ایک فون پر نہ صرف ڈھیر ہو ا بلکہ ساری پالیسی ہی بدل دی ٗآج حکمران سعودیہ سے ذاتی دوستیاں بنارہے ہیں انہوں نے کہاکہ جنرل کا سعودی الائنس میں جانا ان کی منشا ہے انہوں نے کہاکہ سعودی دنیا میں مسلمانوں کے مقامات مقدسہ میں سے ایک ہے اعتزاز احسن نے کہاکہ سعودی عرب جانے کے بعد ہر پاکستانی منتظر ہوتا ہے ۔انہوں نے کہاکہ کوئی ایک ایسا پاکستانی نہیں جو حج یا عمرہ سے آکر گواہی دے کہ وہ ہماری عزت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ وہاں ہمیں مسکین سمجھا جاتا ہے ہم سے نفرت کی جاتی ہے ٗ اعتزاز احسن نے کہاکہ وزیر خارجہ اس لئے نہیں بناتے کہ کہیں وہ تعلقات نہ بنا لے اور انکے تعلقات خراب نہ ہوجائیں ۔ قائد حزب اختلاف نے کہاکہ ہمیں ذاتی تعلقات کی بنا پر خارجہ پالیسی نہیں بنانی چاہیے۔ پیپلز پارٹی کے عاجز دھامرا نے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کو کیوں شہادت ملی ٗ انہوں نے اپنی پالیسی دی اسی لئے انہیں پھانسی دی گئی۔

انہوں نے کہاکہ آج ذوالفقار بھٹو کی نقل ہی کر لو مگر نقل کے لئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے ۔عاجز دھامرا نے کہاکہ بھٹو کی پیروی کرنے پر نتائج بھی بھگتنا ہونگے وہ تم نہیں بھگت سکتے انہوں نے کہاکہ ہم بھٹو کے دور میں قوم تھے آج ہم قوم بھی نہیں ۔پیپلز پارٹی کی سینیٹرشیری رحمان نے کہاکہ یہ سوال جائز ہے کہ ہماری کوئی شناخت نہیں ٗ ہم 1971میں دولخت ہوئے اس میں اشرافیہ کا ہاتھ تھا انہوں نے کہاکہ آج ہماری کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہے ٗوزیراعظم کیس لڑ رہے ہیں۔

انہیں اپنے مقدمے کی فکر ہے ٗجب تک موثر خارجہ پالیسی نہیں ہوگی مسائل رہیں گے ۔ ایم کیو ایم کے بیرسٹر محمد علی سیف نے کہاکہ پہلے آپ قوم بنیں پھر ایسی بات کریں پھر آپ امریکہ اور دوسروں پر الزام تراشی کریں انہوں نے کہاکہ بین الاقوامی تناظر میں ہماری کوئی حیثیت نہیں ٗہر ایک کو حق ہے کہ اظہار خیال کرے ۔بیرسٹر سیف نے کہاکہ کہتا ہوں تاریخ کا صحیح معنوں میں مطالعہ کر کے پھر بات کرو ۔

انہوں نے کہاکہ تاریخ گواہ ہے کہ لڑائی ہمیشہ قوموں میں ہوتی ہے اور ہم قوم نہیں ہیں انہوں نے کہاکہ سمجھ نہیں آتی آپ پنجابی ہو سندھی ہو بلوچی ہو یا پٹھان ہو ٗہمارے گھر میں کتنے لڑائیاں ہیں انہوں نے کہاکہ ہماری تو کوئی شناخت نہیں ہر دوسرے دن ہم اپنا قبلہ بدل رہے ہوتے ہیں ٗچار دن تو آپ کے پاس پٹرول نہیں ہوگا پٹرول کے بغیر آپ کیا لڑائی لڑیں گے ٗپہلے قوم بنیں پھر کوئی لڑائی لڑیں۔جے یو آئی (ف) کے رہنما حافظ حمداللہ نے کہا کہ یہ کیسا اسلامی اتحاد ہے کہ جسے امریکی آشر باد حاصل ہے

ٗامریکہ کہتا ہے کہ یہ انکے ایجنڈے کے مطابق ہے انہوں نے کہاکہ امریکہ کا مشن اپنا اسلحہ فروخت کرنا ہے ٗاس اتحاد میں وہ ممالک کیوں نہیں شامل جو دہشت گردی کے لئے لڑ رہے ہیں ٗ اس اتحاد سے ہمیں کیا ملے گا ہمیں بتایا جائے ٗسارا کھیل پیسوں کا ہم بھی پیسے کے لئے سب کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ امریکی سینٹر کی زبان یہاں اور تھی اور کابل جاکر اور ہوتی ہے ٗہمیں امریکی ایماء چھوڑ کر خارجہ پالیسی پر توجہ دینی چاہیے ۔سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہاکہ پارلیمنٹ کو ہمیں بااختیار بنانا ہے مگر کیسے ٗ

انہوں نے کہاکہ جب ہمارا اتحاد ہوگا ذاتی مفادات پر بالا طاق رکھنا ہو گا میاں عتیق نے کہاکہ کسی جگہ پر ثابت نہیں کہ راحیل شریف نے مالیاتی فائدہ لیا جو الزام لگایا جائے اسے ثابت کیا جائے انہوں نے کہاکہ ایسی خارجہ پالیسی بنائی جائے جو قوم کے مفاد میں ہو۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…