28ارکان کی رکنیت, حکمران اتحاد کے گلے کی ہڈی بن گئی

31  جولائی  2015

اسلام آباد (نیوزڈیسک)تحریک انصاف کے دھرنے سے جنم لینے و الا بحران ختم ہوتے ہوتے نئے بچوں کو جنم دے رہاہے اٹھائیس ارکان کی رکنیت حکمران اتحاد کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے اوربتدریج بحران کی شکل اختیار کررہی ہے جمعیت العلمائے اسلام کےسربراہ مولانا فضل الرحمٰن ہر گزرتے دن کے ساتھ اس حو الے سے اپنے موقف میں سختی لارہے ہیں وہ عمران خان سمیت تحریک انصاف کے ان ارکان کو ایوان میں اجنبی قرار دینے پر تلے ہیں ان کا موقف ہے کہ استعفیٰ دینے کے بعد وہ قومی اسمبلی کے ارکان ہی نہیں رہے ان کے بارے میں قرار داد سے پہلے ہی طے ہوچکا ہے کہ وہ رکن نہیں رہے ایسے میں محض رسمی اعلان ہونا چاہئے تھا قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق کی رولنگ کے علی الرغم ان کا موقف بدستور یہی ہے کہ تحریک انصاف کے عمران خان کے ہمنوا ارکان اب ایوان میں داخل ہونے کے مجاز نہیں معروف سیاسی تجزیہ نگارصالح ظافرکے مطابق جہاں تک چالیس روز تک غیر حاضر رہنے والے ایسے ارکان کی رکنیت ختم کرنے کا سوال ہے جنہوں نے ایوان سے اجازت نہ لے رکھی ہو یا اس کی اطلاع نہ دی ہو اس بارے میں ان کا موقف بھی نرم نہیں پڑ رہا حالانکہ وزیراعظم نواز شریف اورا ن کی قائم کردہ سینیٹر اسحاق ڈار ، خواجہ سعد رفیق، سینیٹر پرویز رشید اور پروفیسر عرفان صدیقی پر مشتمل کمیٹی ان سے استدعا کرچکی ہے کہ وہ اپنی سوچ کے بارے میں رجوع کریں مولانا نے اس کی بجائے ایم کیوایم سے سلسلہ جنبانی استوار کرکے اسے اپنا ہم خیال بنالیا ہے تاکہ وہ بھی ثابت قدمی سے تحریک انصاف کے ارکان کی رکنیت کے خلاف ڈٹی رہے ایم کیوایم کو اٹھائیس میں سے ایک نشست ملنے کی توقع ہے جبکہ جمعیت العلمائے اسلام بقیہ ستائیس پر دعویدار ہے مولانا سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کے ارکان کی نشستوں پر ایک مرتبہ ضمنی انتخاب ہوجائے تو وہ قومی اسمبلی میں بڑے پارلیمانی گروپ کے طور پر ابھر سکتے ہیں اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ان کے استدلال کی اساس بہرطور آئینی حوالہ ہے دوسری جانب وزیرا عظم میاں نواز شریف اور حکمران پاکستان مسلم لیگ نون کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ ملک اور پارلیمان میں عدم استحکام کے عنصر کودوبارہ داخل ہونے سے ہر قیمت پر روکا جائے۔ حکومتی پارٹی مولانا کے موقف سے متفق ہونے کے باوجود اس امر کی خواہاں ہوگی کہ تحریک انصاف کو پارلیمان کے ایوان زیریں سے دیس نکالا نہ دیا جائے۔ ایسا کرنےسے وہ مظلوم بن کر ابھرے گی اور ایک مرتبہ پھر سڑکوں اور دھرنوں کا راستہ اختیار کرے گی۔ وزیراعظم نواز شریف کے لئے بظاہر یہ آسان را ستہ ہے کہ وہ تحریک انصاف کے خلاف جمعیت اور ایم کیوایم کی قراردادوں کو ایوان میں لانے دیں اور اپنی پارٹی کو آنکھ کے اشارے سے قرارداد کی حمایت سے روک دیں نتیجہ نکلے گا کہ قراردادیں مسترد ہوجائیں گی جس کےبعد ایوان میں مستقل بنیادوں پر ایسی آویزش گھر بنالے گی کہ آئندہ کسی اہم معاملے پر مفاہمت کے امکانات معدوم ہوجائیںگے اس صورت میں مولانا اور نواز شریف کی راہیں جدا ہونے کا بھی احتمال رہےگا۔ اس صورتحال کے پیش نظر گمان کیا جاسکتا ہے کہ آئین کی دفعہ 64 کے تحت تحریک انصاف کے ارکان کے خلاف تحریک قومی اسمبلی کے دوران اجلاس میں زیر غور نہ آسکے اور یہ معاملہ مزید ہفتوں کے لئے لٹک جائے۔ یہ درست ہے کہ آئندہ منگل کو ارکان کی نجی کارروائی کا دن ہوگا جس میں قراردادوں پر رائے شماری ہوگی لیکن اس میں نئی وجوہ آڑے آسکتی ہیں جن کا فی الوقت اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ قومی اسمبلی کی رہداریوں میں تحریک انصاف کے ارکان کی رکنیت کے بارے میں بحث زوروں پر ہے تحریک انصاف اپنا مقدمہ پیش کرچکی ہے اسے بخوبی اندازہ ہے کہ اس کے ارکان کی رکنیت کا فیصلہ اس شخص نے کرنا ہے جسے وہ اپنا سب سے بڑا حریف تصور کرتی ہے۔ قومی اسمبلی میں جمعرات کی کارروائی وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے منسوب رہی جنہوںنے قومی ایکشن پلان کے تحت ہونےوالی کامیابیوں سے ایوان کو آگاہ کیا اس اہم اعلان کے موقع پر جووقفہ سوالات کا حصہ تھا وزیراعظم نواز شریف اور دیگر پارلیمانی سربراہوں کو ایوان میں موجود رہنا چاہئے تھا وزیراعظم اس وقت متاثرین سیلاب کے درمیان دور اسکردو کے پہاڑوں میں موجود تھے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کراچی میں جاری آپریشن کے حوالے سے بتایا کہ اس میں کم از کم سات سو تیرہ دہشت گرد، ایک سو اٹھارہ اغواء کار اور پانچ سو سترہ بھتہ خور گرفتار کئے جاچکے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ہدف بنا کر قتل کرنے کی وارداتوں میں 43فیصد کمی رونما ہوچکی ہے چھ سو تیس جرائم میں مطلوب افراد پس دیوار زنداں بھیجے جاچکے ہیں، قتل کی وارداتوں میں سنتالیس فیصد اور دہشت گردی کے واقعات میں چھ اعشاریہ تین فیصد کمی واقع ہوچکی ہے انہوں نے ایوان کو یقین دلایا کہ کراچی کا آپریشن دہشت گردوں اور مجرموں کے خلاف ہے اس کا نشانہ کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے۔ چوہدری نثار علی خان کی طرف سے فراہم کردہ تحریری جواب میں یہ حیران کن اطلاع دی گئی کہ پاکستان میں اس وقت باون ہزار چالیس امریکی جبکہ سولہ ہزار پانچ سو ایک بھارتی باشندے قیام پذیر ہیں جبکہ دو لاکھ اسی ہزار غیر ملکی باشدے پاکستان میں سکونت پذیر ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں ترک وطن کرکے رہنےو الے افغان باشندوں کی تعداد ایک لا کھ سولہ ہزار تین سو آٹھ بتائی۔ اناسی ہزار چار سو سنتالیس برطانوی جبکہ سترہ ہزار تین سو بیس کینیڈا کے شہری پاکستان میں موجود ہیں۔ چوہدری نثارعلی خان نے بتایا کہ غیر قانونی سرگرمیوں کے لئے پاکستان کا رخ کرنے والے غیر ملکیوں کی راہ روکنے کے لئے موثر حکمت عملی وضع کی گئی ہے انہوں نے بتایا کہ 2007ء سے اب تک چار لاکھ غیر ملکی باشندے پاکستان آئے ہیں وفاقی وزیر داخلہ نے بتایا کہ حکومت ایگزٹ کنٹرول لسٹ، اسلحہ لائسنسوں، ویزوں کے اجراء اور سیکورٹی ایجنسیوں کے قیام کے حوالے سے نئی پالیسیاں دو ماہ کے اندر جاری کررہی ہے۔انہوں نے یہ دلخراش انکشاف بھی کیا کہ وفاقی دارالحکومت میں قحبہ خانوں کے خلاف کریک ڈائون کیا گیا جس میں پتہ چلا ہے کہ انہیں چلانے میں کئی سفارتخانے ملوث ہیں اور کئی ایسے بڑے بڑے نام ماخوذ ہیں ایوان اجازت دے تو وہ انہیں افشا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وسط ایشیائی ریاستوں کی ایسی عورتیں/لڑکیاں پاکستان آتی ہیں جن کا یہاں آنے کا کوئی جو از نہیں اور انہیں ویزے مشرق وسطیٰ میں سفارتخانوں سے جاری ہوتے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان نے وفاقی دارالحکومت سے گداگری کا قلع قمع کرنے کے لئے بھی حکومتی حکمت عملی کا اعلان کیا اور بتایا کہ وہ صوبوں سے بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ بھی اس نوع کی حکمت عملی وضع کریں۔ انہوں نے بتایا کہ گداگری کی آڑ میں دہشت گردی اور بعض جرائم کا بھی ارتکاب کیا جاتا ہے اس کی روک تھام کا حکومت نے تہیہ کرلیا ہے ارکان نے وزیرداخلہ سے استدعا کی کہ وہ ان حکمت عملیوں کو جاری رکھیں اور یقین دلائیں کہ انہیں روکانہیں جائے گا۔



کالم



عمران خان پر مولانا کی مہربانی


ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…