جنم درجنم

8  جون‬‮  2021

ڈاکٹر برائن وائس (Brian Weiss) امریکا کے مشہور نفسیات دان ہیں‘ یہ اس وقت 76سال کے ہیں‘ یہ دنیا کی دو بڑی یونیورسٹیوں کولمبیا یونیورسٹی اور ییل یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں‘ میڈیکل ڈاکٹر بھی ہیں‘ ییل یونیورسٹی کے سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کے چیف ریذیڈنٹ بھی ہیں‘ میامی کے مائونٹ سنائی میڈیکل سنٹر کے سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بھی ہیں اور میامی یونیورسٹی کے

سکول آف میڈی سنز کے سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر بھی‘ یہ امریکا میں ڈپریشن‘ اینگزائٹی نیند کی کمی‘ الزائمر اور برین کیمسٹری کے ایکسپرٹ سمجھے جاتے ہیں‘ 1970ء سے یعنی 51 برسوں سے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں اورنفسیات میں اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں‘ یہ تمام تفصیلات بتانے کا مقصد یہ تھا یہ کوئی عام شخص نہیں ہیں‘ یہ سائیکالوجی میں اتھارٹی ہیں اور یہ آج بھی امریکا میں بھرپور پریکٹس کر رہے ہیں اور دنیا ان کی بات کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔ڈاکٹر برائن عام پریکٹیکل امریکی تھے‘ یہ روحانیت یا روح کے آنے جانے پر یقین نہیں رکھتے تھے لیکن پھر 1980ء میں ان کے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا اور اس واقعے نے ڈاکٹر برائن اور نفسیات کی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا‘ ڈاکٹر میامی یونیورسٹی کے میڈیکل سکول کے سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ تھے اور شام کے وقت پریکٹس کرتے تھے‘ ہپناٹزم کے ایکسپرٹ تھے‘ یہ مریض کو ٹرانس میں لا کر اس کا دماغ کھنگالتے تھے اور اس میں سے اس کا مرض نکال کر باہر پھینک دیتے تھے‘ کیتھرائن نام کی ایک نوجوان مریضہ ڈاکٹر کے پاس آئی‘ یہ سرتاپا امراض کا گڑھ تھی‘ وہ کھا سکتی تھی‘ پی سکتی تھی اور نہ ہی سو سکتی تھی‘ ہڈیوں کا ڈھانچہ تھی اور پورے جسم میں دردیں ہوتی تھیں‘ ڈاکٹر برائن اسے ٹرانس میں لے کر گئے اور اسے اس کے ماضی میں لے گئے‘ کیتھرائن اپنے بچپن میں چلی گئی‘ ڈاکٹر نے اسے مزید پیچھے جانے کی ہدایت کی تو وہ جمپ کر کے 1863قبل مسیح (3820سال) پیچھے چلی گئی‘

وہ مصر کے کسی گائوں کے کسی بازار میں کھڑی تھی‘ اس کی عمر اس وقت اٹھارہ سال تھی اور اس کا نام ارونڈا تھا‘ وہ گائوں بعد ازاں سیلاب کی وجہ سے بہہ گیا اور ارونڈا ڈوب کر مرگئی‘ ڈاکٹر برائن ری ان کارنیشن (Reincarnation) آواگان یا دوبارہ جنم کے قائل نہیں تھے‘ یہ اس نظریے کو فضول اور افسانوی سمجھتے تھے لہٰذاانہوں نے کیتھرائن کے انکشاف کو سیریس نہ لیا‘ ڈاکٹر اگلے سیشن میں کیتھرائن کو دوبارہ ماضی میں لے گیا‘ یہ اس بار 1756ء میں پہنچ گئی‘ اس کا نام لوسیا تھا‘ یہ 56 برس کی تھی اور سپین میں رہتی تھی‘ اس زندگی میںیہ بخار میں مبتلا ہو کر مر گئی‘ تیسرے سیشن میں یہ 1568 قبل

مسیح میں چلی گئی‘ اس کے بعد 1536قبل مسیح میں چلی گئی اور اگلے سیشن میں ہالینڈ میں 1473ء میں پیدا ہوئی اور وہ مرد تھی‘ ڈاکٹر برائن اس کے ساتھ سیشنز کرتے رہے اور یہ مختلف اوقات میں مختلف ملکوں اور معاشروں میں پیدا ہوتی رہی‘ کیتھرائن نے دعویٰ کیا یہ 86 بھرپور زندگیاں گزار چکی ہے‘یہ ہر سیشن میں مرتی تھی اور موت کے بعد کے مناظر بھی بتاتی تھی‘ اس نے بتایا انسان موت کے بعد پین لیس اور ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے اور یہ اپنے جسم کے اوپر تیرنے لگتا ہے‘ پھر اچانک ایک

’’ماسٹر سپرٹ‘‘ آتی ہے اور وہ اسے ساتھ لے جاتی ہے‘ کیتھرائن نے بتایا روح ماسٹر سپرٹ کے ساتھ ایک خاص مقام پر پہنچ جاتی ہے‘ وہاں اور بھی روحیں ہوتی ہیں‘ سپرٹس کچھ عرصہ وہاں رہتی ہیں اور پھر دنیا میں دوبارہ کسی اور جسم میں پیدا ہو جاتی ہیں‘ ڈاکٹر برائن وائس کا ذہن یہ تھیوری ماننے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن پھر کیتھرائن نے دو انکشافات کیے اور ڈاکٹر برائن دوبارہ جنم کو

ماننے پر مجبور ہو گئے‘ کیتھرائن ایک جنم میں طاعون کا شکار ہو کر مر جاتی ہے اور ’’ماسٹر سپرٹ‘‘ اسے عالم ارواح میں لے جاتی ہے‘ کیتھرائن اس وقت انکشاف کرتی ہے یہاں تمہارے جاننے والے بھی دو لوگ موجود ہیں‘ ڈاکٹر کے پوچھنے پر وہ اسے بتاتی ہے ایک تمہارے والد ہیں‘ یہ ہارٹ اٹیک کی وجہ سے فوت ہوئے تھے اور دوسرا تمہارا 23 دن کا بیٹا ایڈم ہے‘ کیتھرائن اس کے ساتھ ہی اس کے والد کا عبرانی نام بتاتی ہے اور بیٹے کے بارے میں انکشاف کرتی ہے اس کا دل الٹا لگا ہوا تھا اور یہ

اس وجہ سے فوت ہو گیا تھا‘ ڈاکٹر برائن لرز کر رہ جاتے ہیں کیوں کہ دنیا میں کوئی شخص ان کے والد کے عبرانی نام سے واقف نہیں تھا اور بیٹے کی بیماری کی نوعیت بھی صرف وہ جانتے تھے اور یہ دونوں واقعات میامی میں نہیں ہوئے تھے اور ان کا کوئی کولیگ بھی ان کے بارے میں نہیں جانتا تھا‘ یہ ایک حیران کن صورت حال تھی‘ بہرحال ڈاکٹر برائن کیتھرائن کے ساتھ اپنی گفتگو ریکارڈ کرنے لگے‘

انہوں نے اپنی نفسیات دان بیوی کوبھی ساتھ شامل کر لیا اور کیتھرائن کے حقائق کی تصدیق بھی شروع کر دی‘ کیتھرائن اپنے 86 جنم کھولتی رہی اور ڈاکٹر حیران ہوتا رہا‘ اس دوران ماسٹر سپرٹس نے کیتھرائن کے ذریعے ڈاکٹر برائن کو بھی پیغامات دینا شروع کر دیے‘ روحوں نے بتایا قدرت روح کو تعلیم اور ٹریننگ کے لیے دنیا میں بھجواتی ہے‘ عالم ارواح میں سات درجے ہیں‘ ایک درجے کی روح جب تک اس درجے کی تعلیم مکمل نہیں کر لیتی یہ اس وقت تک بار بارپیدار ہوتی رہتی ہے‘

جب اس کی ٹریننگ مکمل ہو جاتی ہے تو یہ اگلے درجے میں چلی جاتی ہے اور پھر اس درجے میں پیدا ہونے لگتی ہے اور جب وہ درجہ بھی مکمل ہو جاتا ہے تو یہ اگلے درجے میں چلی جاتی ہے‘ روحوں نے بتایا تم انسان روحانی تجربے نہیں کررہے بلکہ روحیں انسانی تجربات کر رہی ہیں۔ڈاکٹر برائن وائس نے اس تجربے کے بعد آواگان پر ریسرچ شروع کر دی اور یہ دوبارہ جنم کے قائل ہوتے چلے گئے‘ یہ اب تک دوبارہ جنم کے چار ہزار مریضوں کا علاج کر چکے ہیں‘ یہ ایسے مریضوں سے بھی ملے جنہوں نے

ٹرانس میں پچھلے جنموں کی زبانیں بولنا شروع کر دیں جب کہ یہ نارمل زندگی میں اس زبان کا ایک لفظ بھی نہیں بول سکتے تھے‘ یہ ایک چینی سرجن سے ملے‘ یہ انگریزی کے ہیلو تک سے واقف نہیں تھی‘ یہ اپنا مترجم ساتھ لے کر آئی تھی لیکن ٹرانس میں اس نے امریکن لہجے میں انگریزی بولنا شروع کر دی‘ پتا چلا یہ اس سے قبل 1850ء میں نارتھ کیرولینا میں بھرپور زندگی گزار چکی تھی‘

سرجن کی انگریزی سے مترجم بھی حیران ہو گئی‘ اسی طرح ایک بزرگ خاتون 17برسوں سے کمر درد میں مبتلا تھی‘ اس نے ہر قسم کا علاج کرایا لیکن ٹھیک نہیں ہوئی‘ وہ ٹرانس میں گئی تو پتا چلا وہ رومن ایمپائر کے وقت مرد تھی‘ یوروشلم میں رہتی تھی ‘ رومی سپاہیوں نے اس کی کمر توڑ دی تھی اور آج کے درد کا اس کے ماضی کے ساتھ تعلق ہے‘ وہ خاتون ٹرانس سے جاگی تو اس کا درد ختم ہو گیا‘ ڈاکٹر برائن کے مطابق ہمارے زیادہ تر امراض اور دکھوں کا تعلق ہمارے پچھلے جنموں سے

ہوتا ہے لیکن ہم جب پچھلے جنم کی تکلیف سے واقف ہوجاتے ہیں تو ہماری تکلیف ختم ہو جاتی ہے مثلاً ان کے پاس ایک خاتون آئی جو تیز نوکیلی چیزوں سے ڈرتی تھی اور کسی کو اپنی گردن کو ہاتھ نہیں لگانے دیتی تھی‘ یہ عجیب فوبیاز تھے‘ڈاکٹر اسے ٹرانس میں لے کرگیا تو پتا چلا وہ اس سے قبل مرد تھی اور اسے مغربی امریکا کی سرحد پر کسی لوکل امریکی نے بلندی سے دھکا دے دیا تھا اور یہ چٹان کی نوک پر گر کر مر گیا تھا لہٰذا یہ اس جنم میں نوکیلی چیزوں سے ڈرتی ہے‘ دوسری مرتبہ یہ طوائف تھی

اور کسی شخص نے خنجر سے اس کی گردن کاٹ دی تھی لہٰذا یہ کسی کو اپنی گردن کو ہاتھ نہیں لگانے دیتی تھی‘ یہ جوں ہی ٹرانس سے جاگی اس کے دونوں خوف ختم ہو گئے‘ اسی طرح ڈاکٹر کا ایک مریض بے تحاشا کھاتا تھا اور وہ بہت موٹا تھا‘ وہ ٹرانس میں گیا تو پتا چلا وہ پچھلے جنم میں قحط سالی میں مارا گیا تھا لہٰذاوہ اس جنم میں بے تحاشا کھا رہا تھا‘وہ بھی جاگنے کے بعد ’’خوش خوراکی‘‘ سے باز آ گیا‘ ڈاکٹر برائن کے مطابق ہم انسان پچھلے جنموں سے جڑے ہوئے ہیں‘ ہمارا آج ہمارے ماضی کے ساتھ بندھا ہوا ہے اور یہ زمین ایک سکول ہے اور قدرت روحوں کو تعلیم کے لیے اس سکول میں بھجواتی رہتی ہے اور جب تک ان کی تعلیم مکمل نہیں ہوتی یہ بار بار دنیا میں آتی رہتی ہیں۔

ڈاکٹر برائن وائس نے 1988ء میں کیتھرائن کے 86 جنموں پر (Many Lives, Many Masters) کے نام سے معرکۃ الآراء کتاب لکھی‘ اس کتاب نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا‘ اب تک اس کے 26 ایڈیشنز آ چکے ہیں اور یہ مدت سے بیسٹ سیلر آ رہی ہے‘ مجھے یہ کتاب کسی دوست نے بھجوائی‘ میں نے وقت گزاری کے لیے اس کی ورق گردانی شروع کی اور میں پھر اس میں کھبتا چلا گیا‘

کتاب پر اگر ڈاکٹر برائن وائس کا نام نہ ہوتا اور اس کا پروفائل اتنا ہائی نہ ہوتا تو شاید میں اسے سائیڈ پر رکھ دیتا لیکن یہ امریکا کے نامور سائیکالوجسٹ بھی ہیں اور پروفیسر بھی اور یہ اب بھی مریضوں کا علاج کرتے ہیں اور لوگوں کو چھ چھ ماہ تک وقت نہیں ملتا‘ میں نے بعدازاں امریکا سے اس کی باقی چارکتابیں بھی منگوا لیں‘ یوٹیوب پر اس کی ویڈیوز بھی دیکھیں اور اوپرا ونفرے کے ساتھ اس کا

انٹرویو بھی دیکھا‘ ڈاکٹر کے تجربات‘ ریسرچ اور کتابیں حیران کن ہیں اور یہ پڑھنے اور سننے والوں کو چند لمحوں کے لیے ہی سہی لیکن یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں ہم ہو سکتا ہے ایسی روحیں ہوں جو بار بار انسانی تجربات کر رہی ہوں‘ ہم آتے ہوں‘ رہتے ہوں‘ جاتے ہوں اور پھر واپس آ جاتے ہوں‘ کیا یہ ممکن ہے؟ میں یقین سے ہاں یا ناں نہیں کہہ سکتالیکن ڈاکٹر برائن وائس جدید دنیا میں ایک نیا باب کھول چکے ہیں اور سیکڑوں ماہرین اب اس پر ریسرچ کر رہے ہیں۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…