روس آپ کو نہیں چھوڑتا

19  مئی‬‮  2019

روسی معاشرے کی چند روایات قابل تقلید ہیں‘ مثلاً یہ لوگ دروازے پر کھڑے ہو کر سلام نہیں کرتے‘ مہمان اندر آئے گا یا پھر میزبان دروازے سے باہر آ کر ہاتھ بڑھائے گا اور یہ دونوں پھر ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملائیں گے‘ یہ لوگ آدھے دروازے کے اندر اور آدھے باہر کھڑے ہو کر ایک دوسرے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے‘ یہ لوگ منفی پچاس ڈگری سینٹی گریڈ میں بھی دستانے اتار کرایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہیں‘ یہ دستانے میں ہاتھ آگے بڑھانا یا بڑھا ہوا ہاتھ تھامنا اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں۔

یہ شاید وہ روایت ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ دہلیز پر کھڑے ہو کر ہاتھ نہیں ملاتے‘ سردیوں میں ظاہر ہے دستانے اتارنا ممکن نہیں ہوتا چنانچہ یہ پہلے مہمان کو اندر لاتے ہیں‘ مہمان اندر پہنچ کر دستانے اتارتا ہے اور یہ پھر ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہیں‘ یہ دوسروں کو کرنسی نوٹ بھی نہیں پکڑاتے‘ روس میں نوٹ پکڑنا یا نوٹ پکڑانا توہین سمجھا جاتا ہے‘ یہ لوگ نوٹ پہلے میز پر رکھتے ہیں اور پھر دوسرا اٹھاتا ہے‘ آپ اگر نوٹ میز پر نہیں رکھیں گے تو آپ کی ڈیل نہیں ہو گی تاہم چھوٹی دکانوں میں صورت حال مختلف ہے‘ گاہک دکاندار کو رقم پکڑاتے رہتے ہیں اور دکاندار گاہکوں سے رقم لیتے رہتے ہیں لیکن یہ لوگ عام لین دین میں اپنی پرانی روایت کا خیال رکھتے ہیں‘ ہوٹل میں میرا کریڈٹ کارڈ نہیں چل رہا تھا‘ میں نے ٹیکسی کا کرایہ ادا کرنا تھا‘ میں نے یہ رقم فرنٹ ڈیسک سے لے کر دے دی‘ شام کو میں یہ رقم واپس کرنے لگا تو ریسیپشن پر موجود کوئی شخص نوٹ لینے کےلئے تیار نہیں تھا‘ میں نے تنگ آکر رقم کاﺅنٹر پر رکھ دی‘ خاتون نے فوراً نوٹ اٹھا لیا‘ میں نے رات کے وقت یہ واقعہ گائیڈ کو سنایاتو اس نے ہنس کر جواب دیا ”ہم دوسروں کے ہاتھ سے نوٹ نہیں لیتے‘ ہم صرف میز پر پڑے پیسے اٹھاتے ہیں“ یہ میرے لئے نئی بات تھی‘ یہ لوگ خالی بوتل بھی میز پر نہیں رکھتے‘ یہ لوگ شراب پیتے رہیں گے لیکن جوں ہی بوتل خالی ہو جائے گی یہ اسے کرسی یا میز کے نیچے رکھ دیں گے یا پھر فرش پر لڑکھڑا دیں گے۔

یہ پانی اور جوس کی خالی بوتلیں بھی میز پر نہیں رہنے دیتے‘ کیوں؟ مجھے وجہ سمجھ نہیں آئی‘ یہ عورت کی بے انتہا عزت کرتے ہیں‘ شاید روس میں عورتیں زیادہ ہیں چنانچہ عورتوں نے بزور بازو مردوں کو عزت پر مجبور کر لیا ہے‘ روس زمانہ قدیم سے جنگوں کا شکار چلا آ رہا ہے‘ جنگوں میں مرد مارے جاتے تھے لہٰذا عورتوں کی تعداد بڑھ جاتی تھی یوں معاشرہ آہستہ آہستہ عورتوں کے ہاتھ میں آگیا اور یہ مردوں کو اپنی عزت پر مجبور کرتی چلی گئیں یہاں تک کہ آج پورا معاشرہ خواتین کی عزت کرتا ہے۔

روسی مرد اٹھ کر ان کا استقبال بھی کرتے ہیں‘ یہ کوٹ یا جیکٹ اتارنے میں ان کی مدد بھی کرتے ہیں‘یہ ان کےلئے کرسی بھی سیدھی کرتے ہیں‘ خواتین جب تک کھانا شروع نہ کریں مرد اپنی پلیٹ سے چمچ یا کانٹا نہیں بھرتے‘ یہ اگر چائے‘ کافی یا کھانے سے ہاتھ کھینچ لیں تو مرد بھی کھانا بند کر دیتے ہیں‘ مرد اٹھنے کے بعد خواتین کی کرسیاں بھی سیدھی کرتے ہیں اور یہ انہیں کوٹ اور جیکٹ بھی پہناتے ہیں‘ خواتین مرد کے آگے یا پھر ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔

یہ لوگ عورت کو اپنے پیچھے چلانا یا اسے چند قدم پیچھے رکھنا غیر اخلاقی حرکت سمجھتے ہیں‘ یہ لوگ ایک دلچسپ قسم کی ابلی پیخا چائے بھی پیتے ہیں‘ ابلی پیخا بیری جیسا پھل ہے‘ یہ پھل صرف روس میں اگتا ہے اور یہ جلد‘ منہ کے السر‘ قبض اور ایکنی کےلئے بھی اکسیر ہوتا ہے اور یہ وزن بھی کم کرتا ہے‘ یہ لوگ ابلی پیخا کو کاٹ کر گرم پانی میں ڈالتے ہیں اور اس میں سیب‘ چوقندر اور مالٹا ڈال دیتے ہیں اور یہ قہوہ کھانے کے ساتھ ساتھ پیتے رہتے ہیں‘ یہ ملٹی وٹامن کا خزانہ سمجھا جاتا ہے‘ یہ توانائی بھی دیتا ہے اور وزن بھی کنٹرول میں رکھتا ہے۔

روس میں سردی اور بارش آسمانی آفت ہے‘ یہ آفت کسی بھی وقت آ سکتی ہے چنانچہ یہ لوگ جون جولائی میں بھی اوورکوٹ اور چھتری لے کر گھر سے نکلتے ہیں‘ میں مئی میں روس گیا تھا‘ پاکستان میں خوفناک گرمی شروع ہو چکی تھی تاہم میں نے احتیاطاً اوورکوٹ‘ مفلر اور سویٹر ساتھ رکھ لیا تھا‘ ماسکو میں باہر نکلتے ہی سردی کاخوفناک حملہ ہوا اور میں گرم کپڑوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گیا‘ میں نے اس کے بعد پانچ دن گرم کپڑوں سے باہر نکلنے کی غلطی نہیں کی۔

میں بار بار اس تجربے سے بھی گزرا‘ دھوپ تیز تھی اور میں کوٹ گاڑی میں چھوڑ کر کسی شاپ یا عجائب گھر میں چلا گیا‘ میں واپس باہر نکلا تو بارش بھی شروع ہو چکی تھی اور سرد ہوائیں بھی چل رہی تھیں‘ میں نے دنیا میں کسی جگہ موسم میں اتنی بے اعتباری اور بے مروتی نہیں دیکھی‘ یہ سرد موسم لوگوں کے مزاج کا حصہ بھی ہے‘ آپ کو اپنے اردگرد موجود لوگ بے اعتنا بھی محسوس ہوتے ہیں اور لاپرواہ بھی‘ یہ کسی پر توجہ نہیں دیتے‘ یہ لوگ بے تحاشا شراب بھی پیتے ہیں۔

واڈکا ان کی روٹین ہے‘ یہ ہر شام کا آغاز واڈکا سے کرتے ہیں اور دس گیارہ سال کی عمر میں شروع کر دیتے ہیں‘ شراب نوشی مردوں کی روٹین کا حصہ ہے چنانچہ یہ کاہل‘ سست اور مست ملنگ ہیں‘ روس میں کہاوت ہے آپ واڈکا پر پابندی لگا دیں آدھا روس انتقال کر جائے گا تاہم خواتین شراب نوشی میں اعتدال سے کام لیتی ہیں‘ یہ الکوحل کی زیادہ مقدار نہیں لیتیں اور یہ عام کام کے دنوں میں اس سے پرہیز بھی کرتی ہیں چنانچہ خواتین سمجھتی ہیں مرد اگر بندر سے ذرا سا اچھا ہے تو یہ خوبصورت ہے اور یہ اگر روز شراب نہیں پیتا تو یہ ولی ہے۔

عورتیں کم شراب پینے والے مردوں کو پسند کرتی ہیں‘ روس میں غیر شادی شدہ‘ طلاق یافتہ یا پھر مطلقہ عورتیں بہتات میں ہیں‘ آپ کسی عورت سے خاوند کے بارے میں پوچھ لیں‘ وہ بڑی خوشی کے ساتھ بتائے گی میں نے پچھلے سال طلاق لے لی تھی یا پھر میں نے بوائے فرینڈ سے جان چھڑا لی تھی تاہم وہ اپنے بچے یا بچی کا ذکر ضرورکرے گی‘ خواتین عموماً بچوں کےلئے شادی کرتی ہیں اور یہ جوں ہی ماں بن جاتی ہیں یہ خاوند یا بوائے فرینڈ سے جان چھڑا لیتی ہیں‘ یہ رجحان پورے روس میں عام ہے۔

روس میں چھوٹے کام مثلاً ٹیکسی چلانا‘ تعمیرات کا کام‘ ریستوران اور گھروں کے ملازم ازبکستان اور تاجکستان سے آتے ہیں‘ ملک میں تاجک اور ازبک کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے یعنی لیبر کلاس‘ آپ کسی ٹیکسی میں بیٹھ کر السلام و علیکم کہیں آپ جواب میں واعلیکم السلام سنیں گے اور ڈرائیور ازبک نکلے گا یا پھر تاجک‘ امیگریشن کا سٹاف ائیرپورٹس اور بارڈرز پر ازبک اور تاجک باشندوں کو روک بھی لیتا ہے اور یہ جب تک امیگریشن حکام کو مطمئن نہ کر دیں یہ انہیں ملک میں نہیں گھسنے دیتے۔

تاہم آپ قدرت کا کمال دیکھئے روس کے ارب پتیوں میں ایک ازبک تاجر علی شیر عثمانوف بھی شامل ہیں‘ یہ دنیاکے بڑے ارب پتیوں میں بھی شمار ہوتے ہیں‘ یہ ٹیلی کام کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور اس کاروبار سے انہوں کھربوں روپے کمائے‘ یہ روس اور ازبکستان دونوں ملکوں میں مسجدیں بنوارہے ہیں‘ مجھے تاشقند میں آٹھ سو سال پرانی مسجد دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ یہ مسجد قدیم شاہراہ ریشم پر تھی‘ علی شیر عثمانوف نے یہ مسجد ”اون“ کی‘ اس کی تزئین و آرائش کی اور ہال کے اندر چھت پر سونے سے پورا قرآن مجید کندہ کرادیا۔

یہ مسجد بلاشبہ دنیا کی خوبصورت ترین مساجد میں شمار ہوتی ہے‘یہ روس کے اندر بھی مساجد تعمیر کرا رہے ہیں‘ علی شیر عثمانوف نے ماسکو میں بھی مسجد تعمیر کرائی اور کمال کر دیا‘ روسی حکومت نے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر ملکیوں کےلئے کوٹہ طے کر رکھا ہے‘ یہ کوٹے کے مطابق لوگوں کو رہائش اور کام کی اجازت اور شہریت دیتے ہیں‘ روس میں موجود تمام پاکستانیوں کو چند سال قبل پی آر (مستقل رہائش) دے دی گئی تھی‘ لوگ حیران ہو گئے۔

پتہ چلا یہ لوگ کوٹے کے برابر تھے چنانچہ تمام لوگوں کو مستقل رہائش کی اجازت مل گئی‘ سینٹ پیٹرز برگ یورپ کی سرحد پر واقع ہے‘ یورپ نے 2015ءمیں شامی مہاجرین کےلئے اپنی سرحدیں کھول دی تھیں‘ فن لینڈ اور سینٹ پیٹرز برگ کا بارڈر بھی کھل گیا تھا چنانچہ شہر میں موجود تمام پاکستانی یورپ چلے گئے اور یہ وہاں سیٹل ہو گئے‘ پاکستانی چند سال پہلے تک روس کے ذریعے یورپ جاتے تھے‘ روس کو علم ہوا تو اس نے پاکستانیوں کےلئے ویزے سخت کر دیئے۔

یہ اب بڑی مشکل سے ویزے جاری کرتے ہیں‘ یورپ اور روس کے درمیان ”فری انٹری“ کا سمجھوتہ موجود نہیں چنانچہ روسیوں کو یورپ جانے اور یورپی باشندوں کو روس آنے کےلئے ویزہ درکار ہوتا ہے‘ یہ دونوں ایک دوسرے کےلئے ”ویزہ پراسیس“ سخت کرتے رہتے ہیں‘ ہوٹل اور ٹرانسپورٹ کی سو فیصد ادائیگی ہوتی ہے تو پھر ویزہ لگتا ہے ورنہ آپ اگر ارب پتی ہیں تو بھی آپ کو انکار ہو جائے گا‘ پاکستان اور روس کے درمیان پچاس سال کے اختلافات کے بعد تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔

یہ اب ایک دوسرے کو دوست سمجھ رہے ہیں لیکن شک کی دیوار ابھی تک قائم ہے‘ یہ قریب آنے کے باوجود ابھی تک زیادہ قریب نہیں آئے‘ جولائی میں عمران خان اور پیوٹن کے درمیان ملاقات ہو گی شاید اس ملاقات میں اجنبیت کی دیوار پوری طرح گر جائے‘ روس کے لوگ بے انتہا قوم پرست ہیں‘ یہ روس پر کمپرومائز نہیں کرتے‘ روس نے فروری 2014ءمیں یوکرائن کے علاقے کریمیا پر قبضہ کر لیا‘ایک ڈالر اس وقت35 روبل کے برابر تھا‘ امریکا اور یورپ نے روس پر پابندیاں لگا دیں‘ روس معاشی دباﺅ میں آ گیا۔

پیوٹن نے تقریر کی اور قوم سے کہا ”آپ مچھلی اور چھوٹا گوشت بند کر دیں‘ ہم مشکل دور سے گزر رہے ہیں لیکن میں تنخواہیں کم نہیں ہونے دوں گا اور روٹی کا بحران پیدا نہیں ہونے دوں گا“ قوم نے لیڈر کی کال پر لبیک کہا‘ قومی سطح پر بچت کی گئی اور روس بحران سے نکل آیا‘ یہ لوگ ملک کےلئے آج بھی جان‘ مال اور عزت قربان کرنے کےلئے تیار ہو جائیں گے۔میں چار دن روس میں رہا لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے روس اگلے چالیس سال میرے اندر رہے گا‘ کیوں؟ کیونکہ روس اور روسی لوگ ہمیشہ یاد رکھے جانے کے قابل ہیں‘ آپ انہیں چھوڑنا بھی چاہیں تو بھی یہ آپ کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتے۔



کالم



مشہد میں دو دن (دوم)


فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…

ہم بھی کیا لوگ ہیں؟

حافظ صاحب میرے بزرگ دوست ہیں‘ میں انہیں 1995ء سے…

مرحوم نذیر ناجی(آخری حصہ)

ہمارے سیاست دان کا سب سے بڑا المیہ ہے یہ اہلیت…

مرحوم نذیر ناجی

نذیر ناجی صاحب کے ساتھ میرا چار ملاقاتوں اور…

گوہر اعجاز اور محسن نقوی

میں یہاں گوہر اعجاز اور محسن نقوی کی کیس سٹڈیز…