کلدیپ نائر صاحب

2  ستمبر‬‮  2018

میرا کلدیپ نائر صاحب سے ایک ملاقات اور تین ٹیلی فون کالز کا تعلق تھا اور آپ اگر کسی شخصیت کو سمجھنا چاہیں تو یہ تعلق بھی کم نہیں ہوتا‘ کلدیپ صاحب سیالکوٹ کے ٹرنک بازار میں پیدا ہوئے‘ والد ڈاکٹر اور والدہ ہاؤس وائف تھیں‘ یہ لوگ پنجابی سپیکنگ تھے‘ کلدیپ صاحب نے لاہور کے لاء کالج سے ایل ایل بی کیا‘ یہ سیالکوٹ میں پریکٹس کرنا چاہتے تھے لیکن پھر ہندوستان تقسیم ہو گیا اور خاندان بھرا بھرایا گھر چھوڑ کر دہلی

منتقل ہونے پر مجبور ہو گیا‘ والدہ تقسیم کو عارضی سمجھتی تھیں‘ ان کا خیال تھا ہنگامے ختم ہونے کے بعد یہ لوگ گھر واپس آ جائیں گے‘ وہ اپنی قیمتی شال تک صندوق میں رکھ کر بھارت گئی تھیں‘ وہ سمجھتی تھیں یہ شال سفر کے دوران گندی ہو جائے گی‘ کلدیپ صاحب نے تقسیم کے وقت انسانیت کا خوفناک روپ دیکھا‘ ملک کے دونوں حصوں میں نعشیں بے گوروکفن پڑی تھیں‘ یہ لوگ لاشیں اور خون دیکھتے دیکھتے ہندوستان پہنچے اور پھر کبھی واپس نہ آ سکے لیکن سیالکوٹ اور لاہور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کلدیپ نائر کی زندگی کا حصہ بن گئے‘ یہ ان سے کبھی باہر نہ آ سکے‘ یہ ہندوستان پہنچ کر وکیل کے بجائے صحافی بن گئے‘ دہلی کے اردو روزنامہ انجام سے کیریئر شروع کیا اور پھر واپس مڑ کر نہیں دیکھا یہ یونائیٹڈ نیوزانڈیا اوردی سٹیٹس مین جیسے اخبارات کے ایڈیٹر بھی رہے اور آخری سانس تک کالم بھی لکھتے رہے‘ یہ کالم ہندوستان کے 80اخبارات میں 14 مختلف زبانوں میں شائع ہوتا تھا‘ یہ گورنمنٹ سرونٹ بھی رہے‘ بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری کے ساتھ بھی کام کیا‘ اندرا گاندھی کے ساتھ بھی رہے‘ برطانیہ میں ہائی کمشنر بھی رہے اور یہ چھ سال راجیہ سبھا کے ممبر بھی رہے‘ پوری زندگی پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن ناکام ہوئے‘ آخر میں وہ بھارت اور پاکستان دونوں کے شدت پسندوں پر لعنت بھیجتے تھے۔کلدیپ صاحب کے ساتھ میرا تعلق

1998ء میں قائم ہوااور سیالکوٹ کے ایک نامعلوم درویش اس تعلق کی وجہ بنے‘ یہ لوگ جب سیالکوٹ کے ٹرنک بازار میں رہتے تھے تو ان کے گھر میں کسی نامعلوم درویش کی قبر تھی‘ والدہ نے اس قبر کو ”اون“ کر لیا تھا‘ وہ قبر پر جھاڑو بھی دیتی تھیں‘ چادر بھی چڑھاتی تھیں اور پھول بھی رکھتی تھیں‘ خاندان کے تمام بچے اس قبر کے ساتھ کھیل کر جوان ہوئے تھے‘ یہ لوگ قبر کے درویش کو اپنا پیر مانتے تھے اور اکثر اوقات چھوٹی بڑی منتیں مانگتے رہتے تھے‘

خاندان 1947ء میں سیالکوٹ سے دہلی شفٹ ہو گیا لیکن پیر صاحب پوری زندگی ان کے ساتھ رہے‘ اندرا گاندھی نے 1975ء میں ایمرجنسی لگا ئی تو کلدیپ صاحب دی سٹیٹس مین انڈیا کے ایڈیٹرتھے‘ یہ بھی گرفتار ہوئے اور تہاڑ جیل میں بند کردیئے گئے‘ جیل کے حالات بہت مخدوش تھے‘ یہ مشکل ترین دنوں سے گزر رہے تھے‘ ایک رات ایک نورانی بزرگ خواب میں آئے‘ ان کے ماتھے پر بوسا دیا اور فرمایا‘ کلدیپ آپ فکر نہ کرو آپ فلاں تاریخ کو رہا ہو جاؤ گے‘

کلدیپ صاحب نے پوچھا ”آپ کون ہیں“ بزرگ نے جواب دیا ”میں تمہارے گھر کی قبر کا رہائشی ہوں‘ میں تمہارا پیر ہوں“ بزرگ یہ کہہ کر چلے گئے‘ خواب ٹوٹ گیا‘ کلدیپ نائز بزرگ کے بتائے دن کا انتظار کرتے رہے لیکن ان کی رہائی کا حکم نہ آیا‘ وہ دن گزر گیا‘ یہ اگلی صبح دل برداشتہ سے اٹھے‘ جیل کا سپرنٹنڈنٹ آیا اور انہیں بتایا کل رات آپ کی رہائی کا پروانہ آ گیا تھا لیکن ہم نے سوچا آپ آرام کر رہے ہوں گے چنانچہ آپ کو صبح اطلاع دیں گے‘ بزرگ کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی‘ یہ رہا ہو گئے‘

نائر صاحب نے باہر نکل کر فیصلہ کیا یہ جب بھی پاکستان جائیں گے‘یہ سیالکوٹ جا کر پیر صاحب کی قبر پر چادر چڑھائیں گے‘ یہ 1987ء میں پاکستان آئے‘ جنرل ضیاء الحق اور ڈاکٹر عبدالقدیر سے ملاقات کی اور وہ تہلکہ خیز انٹرویو کیا جس میں ڈاکٹر عبدالقدیر نے انکشاف کیا پاکستان جوہری بم بنا چکا ہے‘ یہ انٹرویو کے بعد حکومت کی خصوصی اجازت کے ساتھ سیالکوٹ گئے‘ ٹرنک بازار آئے‘ اپنا قدیم گھر تلاش کیا اور پیر صاحب کی قبر کھوجنا شروع کی تو پتہ چلا کسی ستم ظریف نے قبر پر دکان بنا دی ہے اور پیر صاحب اب کہیں دکان کے نیچے مدفون ہیں‘

کلدیپ نائر شدید ڈپریشن میں چلے گئے‘ چادر دکان میں چھوڑی اور یہ کہتے ہوئے سیالکوٹ سے نکل گئے ”میں کن قبضہ گیروں میں آگیا ہوں“۔مجھے یہ واقعہ ان کے ساتھ موجود سرکاری افسر نے سنایا تھا‘ میں نے 1998ء میں اس واقعے کی بنیاد پر کالم لکھا‘ وہ کالم ہندوستان کے کسی اخبار میں ری پروڈیوس ہوا‘ کلدیپ نائر تک پہنچا‘ وہ پاکستان آ رہے تھے‘ چودھری اعتزاز احسن ان کے میزبان تھے‘ کلدیپ صاحب نے چودھری صاحب کو کہا اور چودھری صاحب نے مجھے کھانے پر بلا لیا یوں میری اسلام آباد میں چودھری اعتزاز احسن کے گھر ان سے پہلی اور آخری ملاقات ہوئی۔

وہ بڑی دیر تک میرا ہاتھ پکڑ کر بیٹھے رہے اور اپنے پیر صاحب کا ذکر کرتے رہے‘ ان کا کہنا تھا ہم لوگ آج بھی مشکل میں مندر یا گوردوارے نہیں جاتے‘ ہم اپنے پیر صاحب سے رابطہ کرتے ہیں اور حیران کن حد تک ہمارا کام ہو جاتا ہے‘ ان کا کہنا تھا‘ میں جوانی میں مرے کالج سیالکوٹ کا طالب علم تھا‘ میں نے ایف سی کالج لاہور میں اپلائی کیا‘ میرا نام میرٹ لسٹ میں نہیں آیا‘ میں نے قبر پر جا کر دعا کی اور اگلے ہی دن میرا داخلہ ہو گیا‘ ہم لوگ پیر صاحب کو اس قدر مانتے تھے کہ ہم سیالکوٹ شہر چھوڑنے سے پہلے بھی ان کی قبر پر گئے‘

قبر کی صفائی کی‘ اس کا بوسا لیا‘ دعا کی اور ان سے ہندوستان جانے کی اجازت لی‘ مجھے آج تک یاد ہے قبر پر اس وقت خشک پتوں کا ڈھیر لگا تھا‘ میری والدہ قبر صاف کرنا چاہتی تھیں لیکن میں نے روک دیا‘ میں نے ان سے کہا‘ ہم اگر یہ صاف کر دیں تو بھی چند لمحوں میں نئے پتے اسے دوبارہ ڈھانپ دیں گے‘ وہ اس کے بعد دیر تک پیر صاحب کے معجزے سناتے رہے‘ ان کا کہنا تھا ہمارے بچے کبھی اس قبر پر نہیں آئے لیکن یہ اس کے باوجود ان کے مرید ہیں‘ یہ بھی ان کو یاد کرکے دعائیں مانگتے ہیں‘

میں ان دنوں آج کے مقابلے میں زیادہ احمق ہوتا تھا چنانچہ میں نے بڑی بدتمیزی سے عرض کیا ”آپ اگر پیر صاحب کو اتنا ہی مانتے ہیں تو آپ مسلمان کیوں نہیں ہو جاتے“ مرحوم احمد فراز اور مولانا فضل الرحمن بھی وہاں موجود تھے‘ مولانا یہ سن کر ہنس پڑے جبکہ احمد فراز نے قہقہہ لگا کر پنجابی میں کہا ”کلدیپ ہمارے نوجوانوں کا بس نہیں چلتا ورنہ یہ تم جیسے لوگوں پر استرے تک استعمال کر جائیں“ کلدیپ صاحب نے بھی قہقہہ لگایا اور میرا ہاتھ دبا کر کہا ”میں تمہیں اپنے پیر صاحب سے پوچھ کر بتاؤں گا“۔

میری کلدیپ نائر صاحب کے ساتھ اس کے بعد تین بار ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی‘ میں نے کسی 14 اگست پر قائد اعظم محمد علی جناح کی حیات کے چند واقعات سنائے تھے‘ کلدیپ صاحب نے مجھے فون کیا اور دو مزید واقعات سنائے‘ ان کا کہنا تھا‘ قائداعظم 1945ء میں لاء کالج آئے تھے‘ میں اس وقت دوسرے سال کا طالب علم تھا‘ میں نے قائداعظم سے کہا‘ سر میرا خیال ہے انگریز کے جانے کے بعد ہندوستان کے مسلمان اور ہندو ایک دوسرے کو کاٹ کر کھا جائیں گے‘ ہم دشمن بن کر آمنے سامنے کھڑے ہو جائیں گے‘

قائداعظم نے مسکرا کر جواب دیا ”نہیں‘میں سمجھتا ہوں ہم دونوں اچھے ہمسایوں اور اچھے دوستوں کی طرح رہیں گے“ قائداعظم کا کہنا تھا فرانس اور جرمنی طویل عرصہ تک ایک دوسرے سے لڑتے رہے‘ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اب دوست بن رہے ہیں‘ ہم بھی دوست بن جائیں گے“ میں نے پوچھا ”سر فرض کیجئے ملک تقسیم ہونے کے بعد اگر کوئی تیسرا ملک ہندوستان پر حملہ کرتا ہے تو پاکستان کا ری ایکشن کیا ہو گا“ قائداعظم نے جواب دیا ”پاکستانی جوان ہندوستانی فوجیوں کے ساتھ مل کر لڑیں گے‘

آپ یہ مت بھولو خون پانی سے گاڑھا ہوتا ہے“ میں خاموش ہو گیا‘ میں آج تک خاموش ہوں اور میں اس وقت کا انتظار کر رہا ہوں جب پاکستان اور بھارت فرانس اور جرمنی کی طرح اچھے ہمسائے اور اچھے دوست بنیں گے‘ ان کا دوسرا واقعہ قائداعظم محمد علی جناح کے سیکرٹری کے ایچ خورشید سے متعلق تھا‘ ان کا کہنا تھا‘مجھے کے ایچ خورشید نے بتایا تھا پاک نیوی کا ایک افسر قائداعظم کے سٹاف میں شامل تھا‘ افسر کے والدین تقسیم کے دوران ہندوؤں کے ہاتھوں قتل ہو گئے تھے‘

وہ بہت اداس رہتا تھا‘ اس نے ایک دن گورنر جنرل ہاؤس میں بڑے روکھے انداز سے قائداعظم سے پوچھا ”کیا ہندوستان کی تقسیم ایک صحیح قدم تھا“ ہم سب یہ سوال سن کر سناٹے میں آ گئے اور فاطمہ جناح قائداعظم کی طرف دیکھنے لگیں‘ قائداعظم نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر فرمایا”میں سردست کچھ نہیں کہہ سکتا‘ یہ فیصلہ آنے والی نسلیں کریں گی“۔ پٹھان کوٹ کے واقعے کے بعد میری ان سے بات ہوئی اور میں نے ان سے پوچھا‘ کیا آپ اپنی زندگی میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو بہتر دیکھتے ہیں‘

مجھے فون پر لمبی سانس کی آواز سنائی دی اور وہ بولے ”مولانا ابوالکلام آزاد ایک بار ٹرین پر علی گڑھ سے گزر رہے تھے‘ مسلمان طالب علموں نے انہیں ریلوے سٹیشن پر پہچان لیا اور ان کے منہ پر تھوک دیا‘ آزاد صاحب نے اس وقت فرمایا تھا‘ نفرت کی بنیاد پر بننے والے ملک اس وقت تک قائم رہتے ہیں جب تک نفرت موجود رہتی ہے‘میں آج تک آزاد صاحب کے لفظوں پر حیران ہوں‘ بے شک ہندوستان اور پاکستان نے نفرت سے جنم لیا ہے‘ یہ نفرت ان کی بنیاد ہے‘ یہ بنیاد اس وقت تک قائم رہے گی جب تک کوئی بڑا حادثہ پیش نہیں آ جاتا“

وہ رکے اور کہا ”میں 93سال کا ہو چکا ہوں‘ میں آج سمجھتا ہوں دونوں ملکوں کے درمیان موجود نفرت کی دیوار ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے کسی بڑے سانحے کا انتظار کر رہی ہے“۔کلدیپ نائر 23اگست کو 95سال کی عمر میں انتقال کر گئے‘ یہ آنجہانی ہو گئے‘ میں نے یہ خبر سنی تو مجھے ان کے الفاظ یاد آ گئے اور میرے دل سے دعا نکلی‘ اللہ کرے کلدیپ نائر صاحب کی پیشن گوئی سچ ثابت نہ ہو‘ قدرت ہمیں کسی بڑے سانحے سے بچائے‘ یہ خطہ کوئی بڑی مصیبت افورڈ نہیں کر سکتا۔



کالم



مشہد میں دو دن (دوم)


فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…

ہم بھی کیا لوگ ہیں؟

حافظ صاحب میرے بزرگ دوست ہیں‘ میں انہیں 1995ء سے…

مرحوم نذیر ناجی(آخری حصہ)

ہمارے سیاست دان کا سب سے بڑا المیہ ہے یہ اہلیت…

مرحوم نذیر ناجی

نذیر ناجی صاحب کے ساتھ میرا چار ملاقاتوں اور…

گوہر اعجاز اور محسن نقوی

میں یہاں گوہر اعجاز اور محسن نقوی کی کیس سٹڈیز…