سوچئے اور جواب دیجئے

7  دسمبر‬‮  2017

آپ امریکا اور بھارت کے اعتراضات ملاحظہ کیجئے‘ ہم پر امریکا الزام لگاتا ہے پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں‘ دہشت گرد نکلتے ہیں‘ افغانستان جاتے ہیں‘ بم دھماکے کرتے ہیں اور پاکستان واپس آ جاتے ہیں‘ یہ دہشت گرد افغانستان اور پاکستان میں سفارت کاروں‘ این جی اوز کے عہدیداروں‘ سیاحوں اور بزنس مینوں کو اغواءبھی کر لیتے ہیں‘ یہ لوگ ریاست سے مضبوط ہیں‘ ریاست ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود ان کا نیٹ

ورک نہیں توڑ پا رہی یا پھر ریاست انہیں پال رہی ہے‘ ہم جواب دیتے ہیں یہ لوگ نان سٹیٹ ایکٹر ہیں‘ ہمارا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور حقانی نیٹ ورک ہو یا پھر گڈ طالبان ہم نے کسی کو پناہ نہیں دے رکھی‘ ہم یہ بھی کہتے ہیں یہ لوگ افغانستان میں دو دو‘ تین تین سو کلو میٹر اندر جاتے ہیں اور دہشت گردی کی وارداتیں کرتے ہیں اور انہیں افغان حکومت روک پاتی ہے اور نہ ہی نیٹو کے جدید ترین ہتھیار بند فوجی چنانچہ یہ ہمارا فالٹ نہیں‘ یہ امریکا اور افغانستان کی ناکامی ہے‘ ہم امریکا کو یہ جواب بھی دیتے ہیں ہم پوری دنیا میں دہشت گردی کے سب سے بڑے ”وکٹم“ ہیں‘ امریکا میں 2001ءمیں نائین الیون ہوا جبکہ پاکستان میں پندرہ برسوں سے روزانہ نائین الیون ہو رہے ہیں‘ ہم نے ان 15 برسوں میں 70 ہزار جانوں کی قربانی دی‘ ہماری افواج ‘ ہماری پولیس‘ ایف سی اور رینجرز کے6 ہزار8 سو 63جوان اورافسر شہید ہو ئے‘ ہم نے میجر جنرل اور لیفٹیننٹ جنرل لیول کے افسروں کی لاشیں اٹھائیں‘ ہمارے ارکان اسمبلی‘ وزرائ‘ بزنس مین‘ اداکاروں‘ مصوروں‘ موسیقاروں اور کھلاڑیوں نے بھی جانیں دیں اور ہماری معیشت بھی ریڑھ کی ہڈی کے بغیر گھسٹ رہی ہے اور ہم نے دہشت گردی کی اس جنگ میں 120 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کیا لیکن آپ اس کے باوجود ہماری کوششوں سے مطمئن نہیں ہیں‘ آپ ہمیں آج بھی ”ڈو مور“ کا حکم دے رہے ہیں‘ یہ زیادتی ہے‘ یہ ظلم ہے۔ امریکا یہ سن کر اعتراض کرتا

ہے یہ حقائق ثابت کرتے ہیں آپ کی ریاست کمزور ہے‘ یہ دہشت گردوں کو کنٹرول نہیں کرپا رہی چنانچہ ہمیں خطرہ ہے یہ لوگ کسی دن اکٹھے ہو جائیں گے‘ یہ ایٹمی تنصیبات کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیں گے اور یہ پوری دنیا کےلئے خطرہ بن جائیں گے‘ ہم جواب دیتے ہیں پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں‘ ہم نے دنیا کا بہترین کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بنا رکھا ہے‘ ہم کسی کو جوہری اثاثوں کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھنے دیں گے‘ امریکا اس کے بعد اعتراض کرتا ہے ہمارا خیال ہے آپ کے اداروں کے اندر شدت پسند موجود ہیں‘

پولیس‘ انتظامیہ‘ عدلیہ اور فوج کے اندر بھی ایسے لوگ ہیں جو پوری دنیا کو جلا کر راکھ کر دینا چاہتے ہیں‘ جو دنیا کی آخری صلیبی جنگ اور غزوہ ہند کاانتظار کر رہے ہیں‘ یہ لوگ کسی ایسے رہنما کا انتظار کر رہے ہیں جو آئے‘ گھوڑے تیار کرنے کا حکم دے اور یہ لوگ دنیا فتح کرنے کےلئے نکل کھڑے ہوں‘ ہمیں خطرہ ہے آپ شاید باہر کی ٹیڑھی آنکھوں کو روک لیں گے لیکن آپ کمانڈ اینڈ کنٹرول کے اندر بیٹھے لوگوں کو نہیں روک سکیں گے‘ آپ ان سے نہیں بچ سکیں گے۔ ہم جواب دیتے ہیں ہم لبرل اور معتدل لوگ ہیں‘ہم شدت پسندی کے خلاف ہیں‘

ہمارے کسی ادارے میں کوئی بدامن اور شدت پسند شخص موجود نہیں لیکن امریکا ہماری کسی بات‘ ہماری کسی دلیل اور ہمارے کسی ثبوت پر یقین نہیں کرتا‘ یہ ہمیں صاف صاف کہتا ہے آپ دنیا میں دہشت گردی ایکسپورٹ کر رہے ہیں‘ آپ افغانستان میں امن نہیں ہونے دے رہے اور آپ دنیا بھر کےلئے ایٹمی خطرہ ہیں اور ہم آپ کو زیادہ وقت دینے کےلئے تیار نہیں ہیں‘ ہمیں یہ پیغام 2015ءمیں بھی دیا گیا تھا‘ 2016ءمیں بھی اور صدر ٹرمپ نے 22 اگست 2017ءکو پوری دنیا کو گواہ بنا کر بھی ہمیں دھمکی دی ” تم نے اگر دہشت گردوں کی مدد بند نہ کی توتمہیں نقصان اٹھانا پڑے گا“۔

یہ پیغام لے کر 24 اکتوبر کو امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن پاکستان آئے اور یہی پیغام لے کر امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس 4 دسمبر 2017ءکو پاکستان آئے ۔آپ بھارت کے اعتراضات بھی ملاحظہ کیجئے‘ بھارت الزام لگاتا ہے پاکستان نے ایسے لوگ پال رکھے ہیں جو بھارت میں دہشت گردی کرتے ہیں‘ یہ لوگ ممبئی حملوں کے ذمہ دار بھی ہیں اور یہ اڑی حملے‘ پٹھان کوٹ اور گورداسپور حملوں کے ذمہ دار بھی ہیں‘ بھارت اپنی ہر ناکامی حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کے کھاتے میں بھی ڈال دیتا ہے‘

یہ کشمیر کی موجودہ تحریک کے ڈانڈے بھی پاکستان میں تلاش کرتا ہے لیکن ہم یہ تمام اعتراضات بھی مسترد کر دیتے ہیں‘ ہم ان سے کہتے ہیں آپ حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کے خلاف ثبوت پیش کریں‘ ہم انہیں سزا دے دیں گے‘ ہم بھارت میں دہشت گردی میں ”انوالومنٹ“ سے بھی صاف انکار کر دیتے ہیں‘ ہم ان لوگوں کو بھی نان سٹیٹ ایکٹر ڈکلیئر کر دیتے ہیں‘ بھارت بھی پھر الزام لگا دیتا ہے‘ یہ لوگ اگر آپ کے ملک میں ہوتے ہوئے بھی آپ کے کنٹرول میں نہیں ہیں تو اس کا مطلب ہے آپ ریاست چلانے کے قابل نہیں ہیں‘

آپ کی ریاست کو کسی بھی وقت یہ نان سٹیٹ ایکٹرز کنٹرول میں لے لیں گے‘ یہ ایٹم بم تک رسائی حاصل کر لیں گے‘ یہ ہم پر ایٹم بم چلا دیں گے‘ ہم جواب دیں گے اور یوں پوری دنیا ایٹمی جہنم بن جائے گی‘ یہ بھی ہم پر الزام لگاتا ہے آپ کی ریاست کا ڈھانچہ کمزور ہے‘ ملک میں جتھوں کا راج ہے‘ یہ جتھے کسی بھی وقت کسی بھی جگہ پر قبضہ کر لیتے ہیں اور ریاست ان کے سامنے سرنگوں کر لیتی ہے‘ یہ بھی الزام لگاتا ہے آپ کی پارلیمنٹ ‘ عدلیہ ‘ انتظامیہ اور سیکورٹی اداروں میں شدت پسند بیٹھے ہیں‘

یہ شدت پسند کسی بھی وقت ملک پر قبضہ کر کے پوری دنیا کےلئے خطرہ بن جائیں گے۔ بھارت نے پچھلے پندرہ برسوں میں یہ پروپیگنڈہ اس تواتر کے ساتھ کیا‘ اس نے دنیا بھر کے میڈیا‘ یو این‘ بالی ووڈ اور سیکولر ملکوں کے سفارت خانوں کو اس چالاکی کے ساتھ استعمال کیا کہ دنیا کو اب اس کے اعتراضات میں جان محسوس ہو رہی ہے‘ دنیا اب پاکستان کے خلاف بھارت کے ساتھ کھڑی ہوتی جا رہی ہے‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو صدر ٹرمپ اور نریندر مودی کے بیانات نکال کر دیکھ لیجئے‘ آپ کو دونوں ایک ہی زبان بولتے دکھائی دیں گے‘ آپ کو پاکستان کے ایشو پر امریکا اور بھارت ایک صفحے پر نظر آئیں گے۔

تاہم یہ بھی حقیقت ہے ہم جب نومبر 2017ءتک امریکا اور بھارت کے الزامات کومسترد کرتے تھے تو دنیا کو ہمارے انکار میں کوئی نہ کوئی جان محسوس ہوتی تھی‘ یہ چند لمحوں کےلئے ہی سہی لیکن یہ اتنا ضرور کہتے تھے ”ہو سکتا ہے یہ ٹھیک کہہ رہے ہوں“ مگر مولانا خادم حسین رضوی نے ریاست کا یہ جواز بھی ہمیشہ ہمیشہ کےلئے ختم کر دیا‘ دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا ہزار بارہ سو لوگ لاہور سے چلے‘ ایٹمی پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں پہنچے‘

فیض آباد انٹر چینج بند کیا اور پورے ملک کی مت مار کر رکھ دی اور دنیا کے بہترین کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کی دعوے دار ایٹمی ریاست بارہ سو لوگوں کا منہ دیکھتی رہ گئی‘ ریاست 21 دن ان لوگوں کو اٹھا نہیں سکی اور پھر جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر آپریشن شروع ہوا تو دو ہزار لوگوں نے پولیس کے 6 ہزار اہلکاروں کو مار مار کر بھوت بنا دیا‘ اس دن ریاست کی آنکھیں بھی نکلیں‘ ٹانگیں بھی ٹوٹیں اور یہ لہولہان بھی ہوئی اور آخر میں جب حل تلاش کیا گیا تو ریاست کا ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں کے ساتھ تحریری معاہدہ ہوا‘

مظاہرین نے وزیر قانون کا استعفیٰ بھی لیا‘ اپنے تمام ملزم بھی چھڑوائے‘ سرکاری اور غیر سرکاری املاک کا نقصان بھی سرکار کے کھاتے میں درج کرایا‘ ریاست سے معافی بھی منگوائی‘ حکومت سے اصلاح کا وعدہ بھی لیا اور آرمی چیف سے معاہدے کی ضمانت بھی لی‘ خادم حسین رضوی چلے گئے لیکن یہ جاتے جاتے بھارت اور امریکا کے الزامات کو ثبوت بنا گئے‘ یہ امریکا اور بھارت کو یہ بتا گئے آپ پاکستان کو بتائیں آپ جب اپنے دارالحکومت کو دو ہزار لوگوں سے نہیں بچا سکتے‘

یہ دو ہزار لوگ جب ریاست کو 21 دنوں میں 2017ءسے 1817ءمیں لے جا سکتے ہیں تو پھر آپ کا ایٹم بم کیسے محفوظ ہو سکتا ہے‘ آپ جب اپنے لوگوں کو اپنے ملک میں کنٹرول نہیں کر سکتے تو پھر آپ ان کو بھارت اور افغانستان میں مداخلت سے کیسے روکیں گے اور آپ جب وفاقی دارالحکومت کا گھیراﺅ کرنے والوں کے ساتھ کھلا معاہدہ کر سکتے ہیں تو کیا آپ افغانستان اور بھارت پر حملے کرنے والوں کے ساتھ خفیہ سمجھوتے نہیں کر سکتے؟

آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجئے کیا اب امریکا اور بھارت کے پاس ہمیں غیر ذمہ دار ریاست ڈکلیئر کرنے کا بہانہ نہیں آ گیا‘ کیا یہ ہمیں اب خطرناک ملک قرار نہیں دے سکتے‘ کیا اب ہم اور ہمارے نظام دنیا کے سامنے ننگے نہیں ہو گئے چنانچہ امریکا اگر اب ہمارے شہروں میں ڈرون حملے شروع کر دیتا ہے یا یہ ملک کے اندر ایبٹ آباد جیسے آپریشن لانچ کر دیتا ہے یا یہ پاکستان کے خلاف بھارت کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے یا پھر یہ اقوام متحدہ سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف کوئی قرارداد پاس کروا دیتا ہے تو ہمارے پاس اپنے ڈیفنس میں کیا بچے گا‘ ہم دنیا کو کیا جواب دیں گے‘کیا ہم اس کے بعد بھارت اور امریکا کے موقف کی نفی کر سکیں گے؟ سوچئے اور جواب دیجئے۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…