انسانوں کا محسن

18  مئی‬‮  2017

وہ ادویات سازی کا ماہر تھا‘ وہ 1843ءمیں فرینکفرٹ سے سوئٹزر لینڈ شفٹ ہو گیا‘ وے وے اس وقت غربت کا شکار تھا‘ یورپ میں اس زمانے میں ایک عجیب بیماری پھوٹ پڑی ‘ بے شمار مائیں بچوں کی پیدائش کے بعد دودھ کی نعمت سے محروم ہو جاتی تھیں‘ وہ بچوں کو دودھ نہیں پلا پاتی تھیں چنانچہ یورپ کا ہر چوتھا بچہ پیدائش سے چند دن بعد انتقال کر جاتا تھا‘ سوئٹزر لینڈ اس وبا کی خوفناک مثال تھا‘ ہنری بچوں کی لاشیں

دیکھ کر اداس ہو جاتا تھا‘اس نے ایک دن یہ مسئلہ حل کرنے کا فیصلہ کیا‘ وہ لیبارٹری میں بیٹھا اور کام پرجت گیا یہاں تک کہ اس نے 1866ءمیں گائے کے دودھ‘ گندم کے آٹے اور چینی کی مدد سے ایک ایسی خوراک بنا لی جو نوزائیدہ بچے آسانی سے ہضم بھی کر سکتے تھے اور وہ عام بچوں کی نسبت صحت مند بھی ہو تے‘ وہ یہ خوراک کسی بچے پر ٹیسٹ کرنا چاہتا تھا‘ قدرت نے اسے چند دن میں یہ موقع بھی فراہم کر دیا‘ ہنری کے ہمسائے کا ایک نومولود بچہ ماں کا دودھ ہضم نہیں کر پا رہا تھا‘ بچہ 14 دن سے بلک رہا تھا‘ ماں نے بچہ اٹھایا اور رات کے آخری پہر ہنری کے دروازے پر دستک دے دی‘ ہنری بچے کو اپنی ایجاد کردہ خوراک کھلانے لگا‘ بچے نے پہلی مرتبہ سکھ کا سانس لیا‘ وہ یہ مائع خوراک کھا کر سو گیا‘ وہ بچہ تین دن میں مکمل صحت یاب ہو گیا‘ بچے کی ماں واپس میں آئی‘ بچے کو پنگھوڑے میں ہنستے کھیلتے دیکھا تو اس کے منہ سے خوشی کے مارے چیخ نکل گئی‘ یہ چیخ آگے چل کر دنیا میں خوراک کی سب سے بڑی کمپنی کی بنیاد بن گئی‘ ایک ایسی کمپنی جس کا کاروبار ڈیڑھ سو سال میں 196 ملکوں تک پھیل گیا‘ اس نے 86 ملکوں میں 447 فیکٹریاں لگا لیں‘ اس میں 3 لاکھ 30 ہزار لوگ ملازم ہو گئے‘ وہ 247 بلین ڈالر کی مالک بن گئی‘ وہ 8856 مصنوعات (برانڈ) بنانے لگی اور اس نے پوری دنیا میں خوراک کا کلچر بدل دیا‘ جی ہاں یہ نیسلے کمپنی کی کہانی ہے۔یہ کمپنی ہنری نیسلے نے 1866ءمیں وے وے میں بنائی تھی‘ کمپنی کی پہلی پراڈکٹ نومولود بچوں کی خوراک فارین لیکشے تھی‘

یہ خوراک دھڑا دھڑ بکنے لگی‘ ہنری نیسلے ایک خدا ترس درویش صفت انسان تھا‘ وہ اندھا دھند کام کرتا رہا‘ نیسلے نے اس دوران کنڈینسڈ ملک (گاڑھا یا جما ہوا دودھ) بھی بنانا شروع کر دیا‘ نیسلے 1890ءمیں انتقال کر گیا لیکن کمپنی چلتی رہی‘ لوگ آتے رہے‘ ادارے کی عنان سنبھالتے رہے اور کمپنی قدم بہ قدم آگے بڑھتی رہی یہاں تک کہ نیسلے نے 1905ءمیں کنڈینسڈ ملک کی دنیا کی پہلی کمپنی ”اینگلو سوئس کنڈیسنڈ ملک“ خرید لی‘ یہ کمپنی ایک امریکی سائنس دان جارج پیج نے سول وار کے دوران بنائی تھی‘ یہ نیسلے کا پہلا جوائنٹ وینچر تھا‘ اس معاہدے نے کمپنی کا سفر تیز کر دیا‘

پہلی جنگ عظیم نے نیسلے کے کاروبار میں اضافہ کیا‘ کمپنی نے ملک چاکلیٹ ایجاد کیا‘ نیسلے کا ملک چاکلیٹ اور دودھ جنگ کے دوران فوجیوں کی خوراک بن گیا‘ جنگ کی وجہ سے خام مال اور مصنوعات کی سپلائی کا مسئلہ پیش آیاتو کمپنی نے دنیا میں پہلی بار خشک دودھ بنانا شروع کر دیا‘ یورپ میں ملازمین کی فوج میں جبری بھرتی شروع ہوئی تو کمپنی نے جنگ سے محفوظ ملکوں ناروے‘ امریکا اور آسٹریلیا میں فیکٹریاں لگا لیں غرض وہ جنگ ہر لحاظ سے نیسلے کےلئے سود مند ثابت ہوئی‘ ملک پاﺅڈر کا برانڈ ”مائیلو“ بھی اسی جنگ کی پیداوار تھا‘

جنگ کے بعد دنیا کسادبازاری کا شکار ہو گئی‘ دودھ‘ بچوں کی خوراک اور چاکلیٹ کے کاروبار میں مندا آ گیا‘ یہ مصیبت نئے امکانات کا پیش خیمہ ثابت ہوئی‘ کمپنی نے اپنا ریسرچ سنٹر بنایا‘ سائنس دان بھرتی کئے اور سائنس دانوں نے نئی خوراکیں دریافت کرنا شروع کر دیں‘ انسٹنٹ کافی (فوری تیار ہونے والی کافی) نیس کیفے اسی ریسرچ کا نتیجہ تھی‘ نیس کیفے نے پوری دنیا میں کافی کا نیا کلچر بھی متعارف کرا دیا اور کمپنی کو دوبارہ قدموں پر بھی کھڑا کر دیا‘

امریکا کے ایک سائنس دان جولیس میجی نے 1880ءمیں میجی کے نام سے انسٹنٹ سوپ بنایا تھا‘ نیسلے نے 1947ءمیں میجی خرید لی‘ کمپنی نے 1954ءمیں سری لیک بھی ایجاد کر لیا‘ یہ لوگ 1962ءمیں فروزن فوڈ میں بھی آ گئے‘کمپنی ڈبوں میں بند خوراک کے شعبے میں بھی آگئی‘ فارماسوٹیکل کی انڈسٹری بھی لگالی‘ سکن پراڈکٹس کے سب سے بڑے برانڈ ”لوریل“ کے شیئرز بھی خرید لئے‘ فرانس کی منرل واٹر کی دونوں بڑی کمپنیاں بھی لے لیں‘ پالتو جانوروں کی خوراک بھی بنانا شروع کر دی‘

یہ آئس کریم کے شعبے میں بھی آئے اور آئس کریم کے تمام بڑے برانڈز بھی خرید لئے اور یہ اب پیزا کے کاروبار میں بھی آ گئے ہیں‘ غرض نیسلے کے برانڈز کی کل تعداد 8856 ہو گئی‘ یہ روزانہ اپنی مصنوعات کے ایک ارب پیکٹ فروخت کرتے ہیں‘ نیسلے 1988ءمیں پاکستان آیا‘اس نے 1998ءمیں ”پیور لائف“ کے نام سے پانی کا برانڈ شروع کیا‘ پیور لائف پاکستان سے شروع ہوا تھا‘ یہ اس وقت 40 ملکوں میں چل رہا ہے لیکن اس کی بنیاد پاکستان میں پڑی تھی‘ نیسلے کا دنیا کا سب سے بڑا دودھ کا پلانٹ بھی پاکستان میں ہے‘ یہ پلانٹ کبیر والا میں ہے اور یہ پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان ہے۔وے وے میں نیسلے کے چار اہم دفاتر ہیں‘

کمپنی کا گلوبل ہیڈ کوارٹر‘ ریسرچ سنٹرز کا ہیڈ کوارٹر‘ نیسلے سوئٹزرلینڈ کا دفتر اور اس کا ٹریننگ سنٹر بھی وے وے میں ہے‘ مجھے وے وے میں اس کے تین سنٹرز میں جانے کا اتفاق ہوا‘ میں پہلے دن ان کے ریسرچ سنٹر گیا‘ یہ سنٹر ”نیسلے ریسرچ سنٹر“ کہلاتا ہے‘ سینٹر میں پانچ ہزار لوگ ریسرچ کرتے ہیں‘ ان میں 250 پی ایچ ڈی ہیں‘ یہ لوگ ہر سال ریسرچ پر دو ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں‘ سنٹر کے ڈائریکٹر نے بتایا‘ ہم بہتر سے بہتر خوراک تلاش کر رہے ہیں۔ ”گڈ فوڈ‘ گڈ لائف“ ہمارا ماٹو ہے‘ ہم اس پر کام کر رہے ہیں‘ ہمارا خیال ہے ”اچھی خوراک کے بغیر اچھی زندگی ممکن نہیں“ ڈائریکٹر نے بتایا‘ ہم بلڈ پریشر‘ شوگر‘ کولیسٹرول‘ الزائمر اور پارکینسز کے مریضوں کےلئے خصوصی خوراک تیار کر رہے ہیں‘

ہم جلدی امراض کی شفاءکےلئے بھی فوڈ بنا رہے ہیں‘ ہم نے تحقیق کی دنیا کے مختلف خطوں کی ماﺅں کے دودھ کی تاثیر مختلف ہوتی ہے‘ ہم دودھ کا ایک ایسا کمبی نیشن تیار کر رہے ہیں جس میں تمام ماﺅں کی تاثیر موجود ہو اور جسے استعمال کر کے بچے زیادہ صحت مند ہوں‘ ڈائریکٹر نے بتایا‘ بنیاد سے لے کر اڑھائی سال تک بچے کے پہلے ہزار دن بہت اہم ہوتے ہیں‘ مائیں اگر اپنے بچے کو صحت مند‘ لائق اور کامیاب دیکھنا چاہتی ہیں تو انہیں حمل کے پہلے دن سے اچھی خوراک کھانی چاہیے‘ بچے کو بھی اڑھائی سال تک اعلیٰ خوراک دینی چاہیے‘

خوراک کے یہ ہزار دن بچے کی پوری زندگی کےلئے اہم ہوتے ہیں‘ ڈائریکٹر نے بتایا ہم نے ریسرچ کی ہے‘ ہم جتنی میٹھی اور مصالحہ دار اشیاءکھاتے ہیں‘ ہماری زبان ان کا صرف 20 فیصد چکھ پاتی ہے باقی 80 فیصد مصالحے اور چینی براہ راست ہمارے معدے میں چلی جاتی ہے اور یہ ہماری صحت خراب کرتی ہے‘ ہم ایسی مٹھائیاں بنا رہے ہیں جن کی صرف بیرونی سطح پر چینی کی تہہ چڑھی ہو گی یوں صارف کو ذائقہ بھی مل جائے گا اور چینی کا 80 فیصد استعمال بھی کم ہو جائے گا‘ ہم ایسے پیزے بھی بنا رہے ہیں جن کی صرف نچلی تہہ پر مصالحے ہیں‘

صارفین مصالحے کا ذائقہ بھی محسوس کر لیں گے اور یہ ان کے برے اثرات سے بھی بچ جائیں گے‘ ریسرچ سنٹر کی کارکردگی‘ صفائی کا معیار اور مشینری حیران کن تھی‘ ان کے پاس پاکستان کا تمام ڈیٹا موجود تھا‘ ڈائریکٹر نے بتایا پاکستان کے بچے آئیو ڈین‘ وٹامن ڈی اور آئرن کی شدید کمی کا شکار ہیں‘ پانی بھی گندہ ہے اور دودھ بھی کھلا بکتا ہے‘ یہ سارے مسائل پاکستانی نسل کو بیمار بنا رہے ہیں‘ حکومت کو فوری اقدامات کرنا ہوں گے‘ یہ بچوں کو سکولوں میں دودھ پلائیں‘ ملک میں آئرن کے بغیر آٹا‘ آئیو ڈین کے بغیر نمک اور کھلے دودھ پر پابندی ہونی چاہیے اور حکومت پانی بھی فوری طور پر کنٹرول کرے‘ یہ تمام شہریوں کو صاف پانی فراہم کرے ‘ یہ تمام کام فوری طور پر کرنے والے ہیں‘ حکومت نے اگر ان پر توجہ نہ دی تو پھر پاکستان اندر سے کمزور ہو جائے گا۔میں دوسرے دن کمپنی کے گلوبل ہیڈ کوارٹر بھی گیا‘

یہ عمارت لیک جنیوا کے کنارے واقع ہے‘ کھڑکیوں سے کوہ الپس اور لیک دونوں دکھائی دیتے ہیں‘ عمارت کے چھٹے فلور پر کمپنی کی تمام مصنوعات کا ڈس پلے تھا‘ ہر پراڈکٹ ایک تاریخ تھی اور یہ تاریخ بار بار قدم روک لیتی تھی‘ وزٹ کے دوران پتہ چلا کمپنی اس وقت تک کوئی پراڈکٹ لانچ نہیں کرتی جب تک اسے 60فیصد ووٹ نہ مل جائیں اور یہ لوگ ہر پانچ سال بعد اپنی مصنوعات کا ازسر نوجائزہ بھی لیتے ہیں‘ یہ ان میں تبدیلیاں کرتے ہیں‘ یہ لوگ اپنی مصنوعات کےلئے جہاں جہاں سے خام مال لیتے ہیں یہ ان تمام دیہات اور کسانوں کی تعلیم وتربیت کا بندوبست بھی کرتے ہیں‘

یہ اب تک پاکستان کے لاکھوں گوالوں کی ٹریننگ کر چکے ہیں‘ یہ دیہات کو صاف پانی بھی دے رہے ہیں اور یہ بچوں کےلئے سکول بھی بنا رہے ہیں۔میرے دل سے ہنری نیسلے کےلئے دعا نکلی‘ وہ خود 1890ءمیں فوت ہو گیا لیکن اس کا لگایا پودا آج تک دنیا کو پھل اور سایہ دے رہا ہے۔ ہنری نیسلے کے خاندان کا کوئی شخص کمپنی میں شامل نہیں‘ کمپنی صرف نیسلے کا نام کیری کر رہی ہے‘ منافع کا بڑا حصہ ”کمیونٹی ڈویلپمنٹ“ اور نئی صحت مند خوراک کی تحقیق پر خرچ ہوتا ہے چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں ہنری نیسلے جیسے لوگ ہوتے ہیں جنہیں انسانوں کا محسن کہا جا سکتا ہے‘ جنہیں دل سے سلام کرنے کا دل چاہتا ہے۔



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…