آپ مقدر سے نہیں لڑ سکتے

9  مئی‬‮  2017

اسرائیلات میں درج ہے‘ حضرت موسیٰ ؑ نے ایک دن اللہ تعالیٰ سے عرض کیا ”یا باری تعالیٰ کیا آپ کو کبھی ہنسی آتی ہے“ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا ”ہاں موسیٰ آتی ہے“ حضرت موسیٰ ؑ نے عرض کیا ”آپ کو کب کب ہنسی آتی ہے“ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا ”اے موسیٰ مجھے دو مواقع پر بہت ہنسی آتی ہے‘ ایک‘ میں نے جب کسی شخص کو کوئی چیز عنایت کی ہوئی ہو اور پوری دنیا مل کر اس سے وہ چیز چھیننا چاہتی ہو تو مجھے

بہت ہنسی آتی ہے اور دو‘ میں جب کسی شخص کو کوئی چیز نہ دینا چاہوں اور پوری دنیا مل کر اس شخص کو وہ چیز دینا چاہتی ہو تو مجھے اس وقت بھی بہت ہنسی آتی ہے“۔میرا خیال ہے یہ واقعہ میاں نواز شریف اور عمران خان دونوں کو پڑھنا بھی چاہیے اور اس حقیقت کو دل سے تسلیم بھی کر لینا چاہیے‘ میاں نواز شریف کو اگر اللہ تعالیٰ حکمران دیکھنا چاہتا ہے تو پھر لاکھ کمیشن بن جائیں‘ لاکھ جے آئی ٹی بنا دی جائیں‘ لاکھ بینچ بن جائیں اور خواہ نعیم الحق کو چیف جسٹس اور فواد چودھری کو آرمی چیف بنا دیا جائے تو بھی میاں نواز شریف کو کوئی طاقت اقتدار سے نہیں ہٹا سکے گی اور میاں نواز شریف نے اگر جانا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اگر انہیں ہٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے تو پھر قطری آئیں یا سعودی‘ چین ان کی حمایت میں میدان میں کود پڑے یاپھر ڈونلڈ ٹرمپ اور پیوٹن دونوں ان کے پیچھے کھڑے ہو جائیں یہ فارغ ہو کر رہیں گے‘ یہ ہر صورت جائیں گے اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں بچا نہیں سکے گی‘ اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ عمران خان کو اقتدار میں دیکھنا چاہتا ہے تو میاں نواز شریف خواہ پورے ملک کے ووٹ لے لیں‘ پاکستان کا ہر ووٹر خواہ شیر پر مہر لگا دے اور خواہ خواجہ سعد رفیق کو چیف جسٹس‘ دانیال عزیز کوآرمی چیف اور طلال چودھری کو چیف الیکشن کمشنر بنا دیا جائے تو بھی عمران خان پاکستان کے اگلے وزیراعظم ہوں گے اور اگر عمران خان کے سیاسی کیریئر نے یہاں پر ختم ہونا ہے تو پھر خواہ لوکل اسٹیبلشمنٹ ہو یا انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ ہو اور خواہ پوری مسلم لیگ ن بشمول

چودھری نثار‘ خواجہ آصف اور اسحاق ڈار پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو جائے عمران خان وزیراعظم نہیں بن سکیں گے‘ ہمیں یہ ماننا ہو گا پوری کائنات اللہ تعالیٰ کے کرم‘ اللہ کے رحم کی محتاج ہے‘ ہم میں سے کوئی شخص اس کے حکم‘ اس کی رضا کی سرتابی نہیں کر سکتا‘ ہماری ایک ایک سانس اس کی مرضی کی محتاج ہے‘ اس کی مرضی ہے تو ہمارے پھیپھڑے اوپر سے نیچے ہو رہے ہیں‘ اس نے نظر پھیر لی تو پانی بھی زہر بن گیا‘ یہ بھی موت کا ذریعہ بن گیا چنانچہ میاں نواز شریف ہوں یا عمران خان ہوں دونوں کو اللہ کی رضا کو تسلیم بھی کرنا ہو گا اور اس کے سامنے سر بھی نگوں کرنا ہو گا‘

گونواز گو اور رو عمران رو کے نعروں سے کام نہیں چلے گا‘ شیر شیر اور گیدڑ گیدڑ کرنے سے بھی معاملہ نہیں بنے گا‘ یہ قسمت‘ یہ اللہ کے کرم کے معاملے ہیں اور یہ معاملے صرف اور صرف اللہ کی ذات پر منحصر ہیں چنانچہ آپ اللہ کی رضا کو تسلیم کریں اور کام کرتے چلے جائیں‘ قدرت راستے بناتی چلی جائے گی۔ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا میاں نواز شریف سردست خوش نصیب شخص ہیں‘ قدرت انہیں ہمیشہ مکھن کے بال کی طرح مشکلات سے نکال لیتی ہے‘

آپ کو یقین نہ آئے تو آپ تحقیق کرکے دیکھ لیں‘ وہ تمام لوگ جو ماضی میں ان کے راستے کی رکاوٹ بنے‘ وہ آج کہاں ہیں؟ آپ کو اللہ کی رضا سمجھتے دیر نہیں لگے گی‘ آپ ان مسائل‘ ان مشکلات اور ان رکاوٹوں کا تجزیہ بھی کر لیجئے جو میاں نواز شریف کے سامنے آئیں اور وہ عین وقت پر چپ چاپ ان کے راستے سے ہٹ گئیں‘ میاں نواز شریف ہمیشہ بند گلی میں داخل ہوئے‘ ان کا ہر بند گلی سے نکلنا ناممکن دکھائی دیا لیکن یہ جوں ہی گلی کے آخری سرے پر پہنچے دیوار میں دروازہ بن گیا اور یہ چلتے چلتے اس دروازے سے باہر نکل گئے‘ یہ دو بار اقتدار سے نکالے گئے‘

یہ دونوں بار زیادہ قوت کے ساتھ واپس آئے اور یہ خاندان سمیت ملک بدر کر دیئے گئے لیکن یہ زیادہ تگڑے ہو کر واپس آئے یہاں تک کہ ان کو فارغ کرنے والے ایک ایک کر کے خود فارغ ہوتے چلے گئے لیکن یہ قائم رہے‘ محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری ان کےلئے ”ٹف ٹائم“ ثابت ہو سکتے تھے لیکن محترمہ دنیا سے رخصت ہو گئیں اور آصف علی زرداری پرفارمنس کے ہاتھوں مار کھا گئے اور اب عمران خان میاں

نواز شریف کے سامنے ”رئیل اپوزیشن“ ہیں لیکن یہ بھی ہر میدان میں مار کھا رہے ہیں‘ یہ کیا ثابت کرتا ہے؟ یہ ثابت کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت میاں نواز شریف کے ساتھ ہے اور یہ رحمت جب تک ان کا ساتھ دے گی یہ بحرانوں سے نکلتے چلے جائیں گے‘ اللہ تعالیٰ نے جس دن انہیں اپنی رحمت کے سائے سے محروم کر دیا یہ اس دن اپنے ہی مزار کا بدنصیب دیا بن جائیں گے‘ اس دن ان کے اپنے بھی ان کا ساتھ چھوڑ جائیں گے‘ اس دن میاں شہباز شریف ہوں یا پھر مریم نواز شریف سب ان کے خلاف صف آراءہو جائیں گے لیکن جب تک وہ وقت نہیں آتا میاں نواز شریف کے مخالفین اس وقت تک خود کو ہلکان کرتے رہیں گے۔میں وقت گزرنے کے ساتھ ایک دوسری حقیقت پر بھی پہنچتا جا رہا ہوں‘

پاکستان کے دو بڑے مسئلے ہیں‘ انفراسٹرکچر اور اداروں کا استحکام‘ ہم دنیا کے ان چند ملکوں میں شمار ہوتے ہیں جن میں آج 2017ءمیں بھی سڑکیں‘ پل‘ ریلوے لائین‘ ائیرپورٹس‘ ڈیمز‘ گیس پائپ لائنز‘ ہسپتال‘ سکول‘ پبلک ٹرانسپورٹ اور بجلی کی ٹرانسمیشن لائنیں مکمل نہیں ہیں‘ ہم ترقی میں ہمیشہ یورپ‘ امریکا اور مشرق بعید کے ملکوں کی مثال دیتے ہیں‘ یہ ملک ترقی یافتہ کیوں ہیں؟ کیونکہ انہوں نے وہ سارا انفراسٹرکچر آج سے دو سال پہلے مکمل کر لیا تھا جس کےلئے ہم آج کوشش کر رہے ہیں چنانچہ یہ اب اپنے بجٹ کا زیادہ حصہ انسانی ترقی اور اداروں کی مضبوطی پر خرچ کرتے ہیں جبکہ ہم آج بھی کالاباغ‘ میٹرو بس‘ موٹرویز اور ہائی ویز پر لڑ رہے ہیں‘

دوسرا ہمارے ادارے بہت کمزور ہیں‘ آپ تعلیمی نظام کو دیکھ لیجئے‘ آپ مریضوں اور ہسپتالوں کی حالت بھی ملاحظہ کر لیجئے‘ آپ دوسرے سرکاری ادارے بھی دیکھ لیجئے‘ آپ کو ان میں جان نظر نہیں آئے گی اور یہ حقیقت ہے اداروں کے استحکام اور انفراسٹرکچر کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا‘ قوموں کو معاشرے کے دونوں سروں پر کام کی ضرورت ہوتی ہے‘ میاں نواز شریف اور عمران خان دونوں کا فلسفہ مختلف ہے‘ میاں نواز شریف انفراسٹرکچر پر فوکس کرتے ہیں جبکہ عمران خان ادارے بنانا چاہتے ہیں‘ یہ پولیس ریفارمز‘ تعلیم کا نظام‘ صحت ‘ انصاف ‘احتساب اور میرٹ کو اہمیت دیتے ہیں‘ یہ دونوں لیڈر اس وقت میدان میں ہیں‘ یہ دونوں ایک دوسرے کو سکھا رہے ہیں‘

میاں نواز شریف انفراسٹرکچر پر توجہ دے رہے ہیں اور عمران خان ان کی توجہ اداروں کی طرف مبذول کرا رہے ہیں‘ عمران خان کے پی کے میں ادارے بنا رہے ہیں اور میاں نواز شریف انہیں انفراسٹرکچر ڈویلپ کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں‘ یہ دونوں کوششیں کامیاب ہو رہی ہیں‘ میاں نواز شریف اب اسلام آباد کے سکولوں کی حالت تبدیل کر رہے ہیں‘ یہ ملک کی تمام ڈویژنوں میں بڑے ہسپتال بھی تعمیر کرا رہے ہیں‘ یہ پولیس فورس کو بھی ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘

یہ اداروں میں بھی میرٹ لا رہے ہیں اور یہ اداروں کو خود مختاری بھی دیتے چلے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف عمران خان اب انفراسٹرکچر کو سیریس لے رہے ہیں‘ یہ پشاور میں میٹرو بنا رہے ہیں اور یہ سڑکیں‘ ڈیمز اور صفائی ستھرائی کی سکیمیں بھی لے کر آ رہے ہیں لہٰذا یہ دونوں ایک دوسرے پر دباﺅ ہیں‘ یہ دباﺅ ایک ”کمبی نیشن“ ہے‘ یہ کمبی نیشن بڑا خوبصورت ہے اور یہ کمبی نیشن بالآخر قوم کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کرے گا‘

میں جب بھی عمران خان اور میاں نواز شریف دونوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے پاکستان کا مستقبل روشن دکھائی دیتا ہے‘ یہ پاکستان کے اچھے دن ہیں جو ملک کے دونوں لیڈروں کی صورت میں نظر آ رہے ہیں‘ آپ اگر کسی دن 2013ءسے 2017ءتک ملک کے چار سالوں کا تجزیہ کریں تو آپ کو ایک اور تبدیلی بھی نظر آئے گی‘ آپ کو ملک کے مقتدر ادارے بھی اپنی سمت درست کرتے دکھائی دیں گے‘

آپ 2013ءکا الیکشن کمیشن دیکھیں‘ آپ 2013ءکی سپریم کورٹ پر بھی نظر دوڑائیں اور آپ 2013ءمیں فوج کا فلسفہ بھی دیکھیں‘ آپ کو ان چار برسوں میں ان تینوں اداروں کی سوچ میں فرق دکھائی دے گا‘ یہ ادارے بھی اب اپنی صفیں درست کر رہے ہیں‘ یہ بھی آپ کو نظام کی درست سمت تعین کرتے نظر آئیں گے‘ آپ کو اب پاکستان کے عوام بھی اکٹھے ہوتے اور ملک کےلئے سوچتے ہوئے دکھائی دیں گے چنانچہ میں سمجھتا ہوں خرابی کے اس غلغلے میں اچھائی کے بے شمار نئے اور اچھوتے پہلو نکل رہے ہیں‘

یہ پہلو جب پک کر جوان ہو ں گے تو ملک واقعی ترقی اور استحکام کی شاہراہ پر آ جائے گا۔میاں نواز شریف اور عمران خان یہ دونوں بے شک ایک دوسرے سے لڑتے رہیں‘ یہ بے شک میدان سیاست کو میدان جنگ بنا دیں لیکن یہ اتنا ضرور یاد رکھیں یہ دنیا میں سب سے لڑ سکتے ہیں لیکن یہ اپنے مقدر اور اللہ تعالیٰ کی منشاءسے نہیں لڑ سکتے‘ اللہ اور اللہ کی مرضی بہرحال سپریم ہوتی ہے اور یہ سپریم رہے گی‘کون آگے جائے گا اور کس نے پسپا ہونا ہے یہ فیصلہ بہرحال اللہ کی ذات ہی کرے گی۔



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…