تین ماہ

24  ‬‮نومبر‬‮  2016

آپ کو حقائق جاننے کےلئے دو مختلف واقعات کا تجزیہ کرنا ہو گا‘ پہلا واقعہ 2014ءکے اگست میں پیش آیا‘ آپ کو یاد ہو گا‘ عمران خان اور علامہ طاہر القادری لاہور سے نکلے اور پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے خیمہ زن ہو گئے‘ یہ کرینیں ساتھ لائے تھے‘ ان لوگوں نے ایوان صدر کا گیٹ بھی توڑ دیا‘ پارلیمنٹ ہاﺅس کے احاطے میں بھی داخل ہو گئے‘ وزیراعظم ہاﺅس کے راستے پر بھی قابض ہو گئے‘ یہ پی ٹی وی کی عمارت میں بھی

داخل ہو گئے اور یہ پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کو سرِ عام ڈنڈے بھی مارنے لگے‘ وہ دھرنا 126 دن جاری رہا‘ اس دوران کار سرکار معطل رہا‘ شاہراہ دستور ٹریفک کےلئے بند رہی‘ سپریم کورٹ کی دیواروں پر گندی شلواریں لٹکتی رہیں اور ریڈزون خیمہ بستی بنی رہی لیکن حکومت بدترین ہزیمت کے باوجود مظاہرین کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہ کر سکی‘یہ لوگ وفاقی دارالحکومت میں دندناتے رہے‘ وہ ایک عجیب وقت تھا‘ آئی جی سرینا ہوٹل میں بیٹھ جاتا تھا اور وزیر داخلہ کے احکامات ماننے سے انکار کر دیتا تھا‘ ایس ایسپی اپنی فورس کو مظاہرین میں چھوڑ کر موبائل فون بند کرتا تھا اور گاﺅں چلا جاتا تھا اور حکومت نئے افسر تلاش کرتی تھی تو اسے اسلام آباد کےلئے آئی جی اور ایس ایس پی نہیں ملتا تھا‘ حکومت نے وہ وقت بڑی بے بسی میں گزارا‘ آپ اب دوسرا واقعہ بھی ملاحظہ کیجئے‘ عمران خان نے دو نومبر کو اسلام آباد کو ”لاک ڈاﺅن“ کرنا تھا‘ پورے ملک سے قافلے آنا تھے لیکن حکومت نے یہ لاک ڈاﺅن راستے ہی میں اڑا دیا‘ پولیس نے اکتوبر کے آخر میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکن گرفتار کر لئے‘ بنی گالہ پولیس کے قبضے میں چلاگیا‘ اسلام آباد کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیااور پرویز خٹک قافلہ لے کر نکلے تو پولیس نے برہان انٹر چینج بند کر کے خوفناک شیلنگ کی اور یوں تین دن میں لاک ڈاﺅن کا خواب چکنا چور ہو گیا‘

دھرنا جلسے میں تبدیل ہوا‘ سات ٹیلی ویژن چینلز میں تعزیتی ریفرنس منعقد ہوئے اور بات ختم ہو گئی۔
حکومت 2014ءمیں اتنی کمزور کیوں تھی اور یہ 2016ءمیں مضبوط کیسے ہو گئی؟ ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں‘ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا ہماری جمہوری حکومتیں اور ہمارے جمہوری وزیراعظم اپنی مدت اقتدار میں صرف تین ماہ بااختیار ہوتے ہیں‘ ملک کے تمام ادارے صرف ان تین مہینوں میں وزیراعظم کے

کنٹرول میں آتے ہیں‘ یہ تین ماہ کون سے ہیں؟ یہ تین ماہ ڈیڑھ ڈیڑھ مہینے کے سیٹ ہیں‘ پہلا ڈیڑھ ماہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے چھ ہفتے قبل سٹارٹ ہوتا ہے‘ آرمی چیف جوں ہی اپنے ساتھیوں‘ اپنی کورز اور اپنے ماتحت اداروں سے الوداعی ملاقاتیں شروع کرتا ہے‘اقتدار کی نظریں وزیراعظم ہاﺅس کی طرف منتقل ہو جاتی ہیں‘ پورا ملک وزیراعظم کو باس مان لیتا ہے‘ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی دو وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ ہمارے خطے کی تاریخ ہے‘ انگریز نے ہندوستان میں باقاعدہ فوج 1895ءمیں بنائی تھی‘ یہ فوج برصغیر میں انگریز راج کی ضامن تھی چنانچہ اسے وسیع اختیارات‘ مراعات اور استثنیٰ حاصل تھا‘ ہندوستان کا کوئی سرکاری

محکمہ بڑے سے بڑے جرم پر بھی کسی فوجی کو ہاتھ نہیں لگاتا تھا‘ فوجی اہلکار قانون اور ضابطے سے بالاتر ہوتے تھے‘ ہندوستان کی کوئی عدالت ان کے خلاف مقدمہ نہیں سن سکتی تھی‘ یہ لوگ سروس کے دوران سگریٹ‘ چائے اور گھی آدھی قیمت پر حاصل کرتے تھے اور انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد زرخیز زمینیں الاٹ ہوجاتی تھیں‘حکومتی عہدیدار ان کی قبروں کو بھی سلام کرتے تھے‘ یہ مراعات انگریز فوج کو ہر سال نیا خون فراہم کرتی تھیں‘ لوگ فوج کی نوکری کو اعزاز سمجھتے تھے‘ اس اعزاز نے باقی اداروں کو فوج کی

نفسیاتی ماتحتی میں دے دیا‘یہ ماتحتی آج تک چل رہی ہے‘ قیام پاکستان کے بعد ملک میں چار مارشل لاءلگے‘ ان مارشل لاﺅں نے ریاست کے سول اداروں کو مستقلاً فوج کا ماتحت بنادیا چنانچہ حکومت کوئی بھی ہو اور محکمہ کوئی سا بھی ہو ملک میں آرمی چیف کو وزیراعظم پر فوقیت دی جاتی ہے‘ سرکاری محکمے احکامات جاری کرنے سے قبل ہمیشہ جی ایچ کیو کی طرف دیکھتے ہیں‘ ہمارے اکثر سرکاری ادارے حکومت کے خلاف کارروائی پر آرمی چیف کی خاموشی کو رضا مندی سمجھتے ہیں‘ یہ صورتحال آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے

چھ ہفتے پہلے تک جاری رہتی ہے‘ فوج کا قائد جوں ہی الوداعی ملاقاتیں شروع کرتا ہے ‘ہمارے تمام سرکاری ادارے وزیراعظم کی طرف دیکھنے لگتے ہیں‘ یہ ان کے ہر حکم کو اہمیت دینے لگتے ہیں‘ دوسرا دورانیہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد شروع ہوتا ہے‘ فوج کا نیا چیف اپنی ٹیم کے انتخاب میں مصروف ہوجاتا ہے‘ یہ جی ایچ کیو میں اپنی مرضی کی ٹیم لاتا ہے‘ کور کمانڈرز تبدیل کرتا ہے‘ یہ بریفنگز لیتا ہے اور یہ ملک کی تمام چھاﺅنیوں کے دورے کرتا ہے‘ آرمی چیف کو اس کام میں عموماً چھ ہفتے لگ جاتے ہیں‘ یہ ان چھ ہفتوں

کے دوران سول اداروں کے سول ایشوز پر توجہ نہیں دے پاتا چنانچہ حکومت کو کھل کر اپنے اختیارات استعمال کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور وزیراعظم عموماً اس سنہری وقت کو بھرپور طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔
ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے عمران خان اور علامہ طاہر القادری 2014ءکے دھرنے میں سول اداروں کو یہ پیغام دیتے رہے تھے‘ ایمپائر ہمارے ساتھ ہے اور یہ کسی بھی وقت انگلی اٹھا کر میاں نواز شریف کو

آﺅٹ کر دے گا‘ سرکاری ادارے بالخصوص پولیس اس پیغام کو حقیقت سمجھ بیٹھی اور اس نے حکومت کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا‘کیوں؟کیونکہ سول ادارے حکومت اور فوج کے درمیان موجود سرد مہری سے واقف تھے‘ یہ جانتے تھے‘ فوج محمود خان اچکزئی کے کابل کے دوروں‘ افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ ملاقاتوں اور نریندر مودی اور میاں نواز شریف کے درمیان غیرسرکاری رابطوں کی وجہ سے حکومت سے ناراض ہے‘ بیوروکریٹس اس ناراضی سے واقف تھے ‘ یہ لوگ یہ بھی جانتے تھے سول حکومت خواہ کتنا ہی بڑا مینڈیٹ کیوں نہ لے آئے‘ یہ دو فوجی ٹرکوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی چنانچہ بیورو کریسی اپنا قبلہ بدل کر

بیٹھ گئی اور حکومت 2014 ءکے دھرنے کو بے بسی سے دیکھنے پرمجبور ہو گئی ‘ بیورو کریسی کا یہ خیال بعد ازاں غلط نکلا‘ جنرل راحیل شریف سچے اور سیدھے فوجی ثابت ہوئے ‘ وقت نے یہ بھی ثابت کر دیا عمران خان کے ایمپائر جنرل راحیل شریف نہیں تھے‘ یہ صورتحال اکتوبر نومبر 2016ءمیں دوبارہ پیش آئی‘ عمران خان دھرنا پلس کےلئے نکل آئے‘ نومبر کا مہینہ بھی سیاسی نقطہ نظر سے اہم تھا‘ جنرل راحیل شریف تین برسوں میں ہیرو بن کر ابھرے تھے‘ ملک میں دہشت گردی بھی کنٹرول ہو گئی‘ کراچی میں امن بھی قائم ہو گیا‘ ایم کیو ایم الطاف بھی ایم کیو ایم پاکستان بن گئی‘ پاک چین اقتصادی راہداری پر ٹرک بھی چل پڑے ‘

افغانستان اور بھارت کو دو ٹوک جواب بھی مل گیا‘ جنرل راحیل شریف نے فوج کے اندر بھی تطہیر شروع کر دی‘ کرپشن کے الزام میں لیفٹیننٹ جنرل‘ میجر جنرل‘ بریگیڈیئر اور کرنل لیول کے افسر فوج سے فارغ ہونے لگے اور ان سے اربوں روپے بھی ریکور کر لئے گئے‘ نیشنل ایکشن پلان بھی شروع ہوا‘ صوبائی حکومتوں پر بھی دباﺅ آیا اور فوج نے پارلیمنٹ سے نئی قانون سازی بھی کرائی‘ ان تمام تبدیلیوں نے جنرل راحیل شریف کی مقبولیت کو انتہا تک پہنچا دیا اور ملک میں ایک ایسا وقت آگیا جب حکومت پٹرول کی قیمت میں کمی کرتی تھی توملک میں”جنرل راحیل شریف تیری عظمت کوسلام“ کے نعرے لگنے لگتے تھے‘ عوام کی طرف سے

جنرل راحیل شریف کو فیلڈ مارشل بنانے یا ان کی مدت ملازمت میں اضافے کے مطالبات بھی سامنے آنے لگے ‘ یہ تجویز بھی سامنے آئی‘ حکومت پوری فوج کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں دو سال اضافہ کر دے تا کہ جنرل راحیل شریف کو مزیددو سال کام کرنے کا موقع مل جائے‘ یہ اپنے جاری منصوبے مکمل کر سکیں‘ پاکستان تحریک انصاف نے جنرل راحیل شریف کی اس مقبولیت کا سیاسی فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا چنانچہ عین اس وقت دھرنا پلس ڈیزائن کیا گیا جب جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں 6 ہفتے باقی تھے‘ یہ لوگ اس بار بھی

یہ تاثر دیتے رہے فوج ہمارے ساتھ ہے لیکن حکومت اصل حقائق سے واقف تھی‘ یہ جانتی تھی جنرل راحیل شریف کسی قیمت پر ایکسٹینشن نہیں لیں گے‘ یہ وقت پر ریٹائر ہو جائیں گے اور فوجی حلقے عمران خان کو پسند نہیں کرتے‘ یہ راز بیورو کریسی کو بھی معلوم تھا چنانچہ جب حکومت نے دھرنا روکنے کا فیصلہ کیا تو وہ پولیس جس کی کمان سنبھالنے کےلئے 2014ءمیں کوئی افسر تیار نہیں تھا اس نے آنسو گیس سے مظاہرین کے پھیپھڑے پولے کر دیئے‘ میڈیا کے جعلی ڈاکٹر چیختے رہ گئے لیکن حکومت نے دو دن میں دھرنا لپیٹ کر رکھ دیا۔

حکومت کا اگلا ڈیڑھ ماہ یکم دسمبر سے شروع ہو گا‘ حکومت اپوزیشن کے ساتھ مل کر یہ ڈیڑھ ماہ خوب استعمال کرے گی‘ یہ 15 جنوری تک بڑے فیصلے کر لے گی‘ آئین میں نئی ترامیم بھی متعارف کرائی جائیں گی اور نئے ادارے بھی بنائے جائیں گے‘ حکومت نے اگر 15 جنوری تک یہ فیصلے کر لئے تو ٹھیک ورنہ دوسری صورت میں یہ وقت واپس نہیں آئے گا‘ مارچ سے دوبارہ بحران شروع ہو جائیں گے اور وہ بحران الیکشنوں تک جاری رہیں گے ‘ حکومت کو سانس لینے کا موقع نہیں ملے گاچنانچہ میاں نواز شریف کی پارٹی اب شروع ہوتی ہے۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…