حقیقتیں

13  ستمبر‬‮  2016

پورٹ فولیو
بادشاہ نے سیر کےلئے جانا تھا‘ موسمیات کے وزیر کو بلایا گیا‘ وزیر نے ڈی جی موسمیات سے موسم کا حال پوچھا‘ موسم خوش گوار تھا‘ بادشاہ کو بتایاگیا‘ آپ اور ملکہ عالیہ سیر کےلئے جا سکتے ہیں‘ موسم اگلے تین دن خوش گوار رہے گا‘ شاہی خاندان سیر کےلئے روانہ ہو گیا‘ راستے میں کمہاروں کی بستی تھی‘ بادشاہ نے دیکھا کمہار اپنے کچے برتن سمیٹ رہے ہیں‘ بستی میں افراتفری مچی ہوئی ہے‘ بادشاہ نے کمہاروں کے سردار کو بلایا‘ ماجرا پوچھا‘ سردار نے جواب دیا ”حضور بارش آنے والی ہے‘ ہم بارش سے پہلے پہلے برتن سمیٹنا چاہتے ہیں“ بادشاہ کو غصہ آ گیا‘ وہ چلا کر بولا ”او نادان کمہار‘ میرا وزیر موسمیات ہارورڈ یونیورسٹی کا فارغ التحصیل ہے‘ ہمارے محکمہ موسمیات کے پاس جدید ترین آلات ہیں‘ وہ کہتے ہیں ملک میں تین دن موسم خوش گوار رہے گا اور تم جاہل‘ نالائق کمہار بارش کا دعویٰ کر رہے ہو‘ تم ہوتے کون ہو“ کمہار ڈر گیا‘ وہ ابھی جواب سوچ ہی رہا تھاکہ اچانک خوفناک بارش شروع ہو گئی‘ شاہی خاندان اپنے شاہی سازوسامان کے ساتھ بھیگ گیا‘ بادشاہ شرمندہ ہوگیا‘ اس نے کمہاروں کے بوڑھے سردار کو ساتھ لیا اور بھیگتا نچڑتا ہوا دارالحکومت واپس آگیا‘ وزیر موسمیات کو بلایا‘ کمہاروں کے سردار کے ساتھ کھڑا کیا‘ وزیر کو ڈانٹ پلائی‘ اسے وزارت سے فارغ کیا اور کمہاروں کے سردار کو وزیر موسمیات بنا دیا‘ کمہار شرمندہ شرمندہ آگے بڑھا‘ کورنش بجا لایا‘ جان کی امان طلب کی اور عرض کیا ”جناب بارش کی پیش گوئی میں میرا کوئی کمال نہیں تھا‘ یہ میرے گدھے کی مہربانی تھی“ بادشاہ نے حیرت سے پوچھا ”کیسے“ کمہار بولا ”حضور میں بچپن سے دیکھ رہا ہوں‘ میرے گدھے کے کان جب بھی مرجھا کر نیچے گرتے ہیں اس دن خوفناک بارش ہوتی ہے‘ آپ جب تشریف لائے تو میرے گدھے کے کان لٹک رہے تھے لہٰذا میں نے اپنے لوگوں کو برتن سمیٹنے کا حکم دے دیا‘ بس اتنی سی بات تھی“بادشاہ نے قہقہہ لگایا‘ اپنا حکم واپس لیا اور کمہار کے گدھے کو موسمیات کا وزیر بنادیا‘ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے دنیا بھر میں موسمیات کا پورٹ فولیو ہمیشہ گدھوں کو عنایت کیا جاتا ہے۔
سپیشل ایڈوائزر
ڈربے میں پچیس مرغیاں تھیں‘ یہ مرغیاں روزانہ دس کلو دانا کھا جاتی تھیں لیکن انڈہ کوئی نہیں دیتی تھیں‘ ڈربے کا مالک مرغیوں کے بانجھ پن سے تنگ آگیا چنانچہ اس نے تمام مرغیاں ذبح کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ وہ دھوپ میں بیٹھ کر چھری تیز کر رہا تھا‘ مولوی صاحب گزرے‘ انہوں نے مالک سے پوچھا ”خیریت ہے آپ کیا کرنا چاہتے ہیں“ مالک نے بتایا ”مرغیاں انڈے نہیں دیتیں چنانچہ میں انہیں ذبح کرنے لگا ہوں“ مولوی صاحب نے پوچھا ”آپ کے پاس مرغے کتنے ہیں“ مالک نے جواب دیا ”مرغا تو کوئی نہیں“ مولوی صاحب نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ”بے وقوف انسان آپ ایک مرغے کا بندوبست کر لو یہ مرغیاں انڈے دینے لگیں گی“ مالک نے ہاں میں سر ہلایا‘ مولوی صاحب کا شکریہ ادا کیا اور چھری سائیڈ پر رکھ دی‘ مولوی صاحب چند دن کے بعد دوبارہ وہاں سے گزرے‘ مرغی خانے کا مالک خوش تھا‘ مولوی صاحب نے پوچھا ”تمہاری مرغیاں اب کتنے انڈے دیتی ہیں“ مالک نے جواب دیا ”جناب بیس بائیس انڈے ہو جاتے ہیں“ مولوی صاحب نے قہقہہ لگایا اور ڈربے کی طرف دیکھا‘ ڈربے میں 25 مرغیوں کے درمیان پانچ مرغے دندناتے پھر رہے تھے‘ مولوی صاحب مالک کی طرف مڑے اور حیرت سے کہا ”بھائی میں نے آپ سے کہا تھا آپ صرف ایک مرغا رکھ لیں‘ آپ نے ڈربے میں پانچ مرغے ڈال دیئے‘ کیوں؟“ مالک ہنسا اور آہستہ سے جواب دیا ”مولوی صاحب ان میں مرغا صرف ایک ہی ہے باقی چار سپیشل ایڈوائزر ہیں“۔
ایڈوائس
بادشاہ کا معمول تھا‘ وہ صبح حجامت کراتا تھا اور سینئر وزیر سے ملکی حالات پر مشورہ لیتا تھا‘ نائی حجامت بناتا رہتا تھا اور سینئر وزیر بادشاہ کو بتاتا جاتا تھا ”حضور معاملات ہمارے کنٹرول میں ہیں‘ پانامہ لیکس صابن کا بلبلہ ہے‘ عمران خان اسے غبارہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یہ کامیاب نہیں ہو سکے گا‘ بلبلہ آپ کی ایک شاہی پھونک برداشت نہیں کر سکے گا“ بادشاہ خوش ہو جاتا تھااور وزیر کورنش بجا لا کر چلا جاتا تھا‘ نائی یہ گفتگو سن سن کر تنگ آگیا‘ وزیر ایک دن جب کورنش بجا کر چلا گیا تو نائی استرا اور قینچی لے کر بادشاہ کے سامنے کھڑا ہو گیا اور جان کی امان طلب کرنے لگا‘ بادشاہ کی گردن میں تولیہ لٹکا ہوا تھا‘ منہ پر شیونگ جیل لگا تھا اور ایک رخسار کی شیو باقی تھی چنانچہ اس کے پاس جان کی امان دینے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا‘ بادشاہ نے ہاں میں سر ہلا دیا‘ نائی گڑگڑا کر بولا ”حضور آپ کے ساتھ دھوکا ہو رہا ہے‘ آپ پانامہ لیکس سے نہیں بچ سکیں گے‘ یہ وزیر آپ کے دشمنوں سے ملا ہوا ہے‘ یہ بے خبری میں آپ کی پیٹھ پر وار کرے گا‘ آپ جاگ جائیں‘ آپ پھنسنے والے ہیں“ بادشاہ کو نائی میں ایک مخلص اور نڈرانسان دکھائی دیا‘ اس نے اسی وقت سینئر وزیر کو معزول کر دیا اور نائی کو سینئر وزیر بنا دیا‘ نائی اب روز صبح دو کام کرتا تھا‘ وہ بادشاہ کی حجامت اور شیو بناتا تھا اور اسے اپوزیشن کے عزائم کے بارے میں بتاتا تھا‘ یہ سلسلہ ہفتہ بھر چلا‘ نائی نے سات دن بعد بادشاہ کو سب اچھا کی خبر دینا شروع کر دی‘ وہ بھی اب کہتا تھا ”یہ پانامہ لیکس صابن کا بلبلہ ہے‘ یہ آپ کی ایک پھونک برداشت نہیں کر سکے گا“ بادشاہ نے یہ سب اچھا دو دن برداشت کیا اور تیسرے دن ڈنڈا اٹھا لیا‘ نائی ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا اور زور زور سے رو کر بولا ”حضور میں جب صرف نائی تھا تو میں نائیوں کے محلے میں رہتا تھا‘ میری ناک‘ کان اور آنکھ تینوں کام کرتے تھے‘ میرا دماغ بھی چلتا تھا لہٰذا میں غبارے اور بلبلے میں آسانی سے تمیز کر لیتا تھا لیکن میں جب سے وزیر بنا اور میں نائی محلے سے منسٹر انکلیو میں شفٹ ہو گیا ہوں میرے دماغ‘ آنکھ‘ کان اور ناک نے کام کرنا بند کر دیا ہے‘ میں اب کوشش بھی کروں تو بھی مجھے غبارے اور بلبلے میں فرق نظر نہیں آتا چنانچہ میں اب بھی وہی کچھ دیکھ اور سن رہا ہوں جو آپ کو اچھا لگتا ہے اور جو آپ سننا اور دیکھنا چاہتے ہیں‘ میری آپ کو ایڈوائس ہے آپ بس شیو کرائیں‘ انجوائے کریں اور بلبلے کے پھٹنے کا انتظار کریں‘ عمران خان آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا“۔

پانامہ لیکس
پاگل بھاگ کر دیوار پر چڑھ گیا‘ پاگل خانے کا عملہ پاگل کو نیچے اتارنے کی کوشش کرنے لگا‘ پاگل کو مختلف ترغیبات دی گئیں‘ اسے پاگل خانے کا صدر بنانے کی پیش کش کی گئی‘ اسے واپس گھر بھجوانے کی ترغیب دی گئی‘ اسے اچھے کھانے کا دانا ڈالا گیا اور اسے ”کچھ نہیں کہا جائے گا“ کی گارنٹی بھی دے دی گئی لیکن پاگل دیوار سے اترنے کےلئے تیار نہیں ہوا‘ انتظامیہ تھک گئی اور اس نے دیوار میں کرنٹ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا لیکن عین وقت پر ایک دوسرا پاگل آگے بڑھا‘ ڈاکٹر سے اجازت لی اور دیوار پر بیٹھے پاگل کو چھوٹی سی قینچی دکھا کر اونچی آواز میں بولا ”اوئے نیچے اتر جا نہیں تو میں اس قینچی سے دیوار کاٹ دوں گا“ دیوار پر بیٹھا پاگل فوراً نیچے کود گیا‘ پاگل خانے کے عملے نے اسے دبوچ لیا‘ ڈاکٹر اس عجیب و غریب تکنیک پر حیران ہو ا‘ وہ دیوار سے کودنے والے پاگل کے پاس گیا اور اس سے کہا ”ہم سارا دن تمہاری منتیں کرتے رہے لیکن تم نیچے نہیں آئے اور اس پاگل نے تمہیں دو انچ کی قینچی دکھائی اور تم نیچے آ گئے‘ کیوں؟“ پاگل نے سنجیدگی سے ڈاکٹر کی طرف دیکھا اور آہستہ سے بولا ”جناب میں جانتا ہوں یہ پاگل ہے‘ یہ اگر پاگل پن میں واقعی دیوار کاٹ دیتا تو میں تو اوپر ہی لٹکا رہا جاتا“۔
سزا
جانوروں نے فیصلہ کیا‘ ہم میں سے جو جانور جنگل کا قانون توڑے گا ہم اسے آج سے انسان کہیں گے‘بندر نے احتجاجاً ہاتھ کھڑا کر دیا‘ شیر نے غصے سے پوچھا ”کیوں کیا تکلیف ہے“ بندر بولا ”جناب جرم چھوٹا ہے لیکن سزا زیادہ ہے“۔
قربانی
بکرے نے اپنی ماں سے پوچھا ”مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی“ ماں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا‘ بکرا بولا ”انسان اپنی ہر غلطی کے تاوان میں ہمیں کیوں ذبح کر دیتے ہیں“ ماں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ”کیونکہ یہ اپنی غلطیاں ترک نہیں کرنا چاہتے“ بکرے نے ہاں میں گردن ہلائی اور بولا ”انسان اگر غلطیاں کرنے کی خو بدل لے تو اسے عمر بھر کسی جانور کے گلے پر چھری نہ پھیرنی پڑے“۔



کالم



مشہد میں دو دن (دوم)


فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…

ہم بھی کیا لوگ ہیں؟

حافظ صاحب میرے بزرگ دوست ہیں‘ میں انہیں 1995ء سے…

مرحوم نذیر ناجی(آخری حصہ)

ہمارے سیاست دان کا سب سے بڑا المیہ ہے یہ اہلیت…

مرحوم نذیر ناجی

نذیر ناجی صاحب کے ساتھ میرا چار ملاقاتوں اور…

گوہر اعجاز اور محسن نقوی

میں یہاں گوہر اعجاز اور محسن نقوی کی کیس سٹڈیز…