وقت کا طلسم

3  جولائی  2016

”تم نیوز پھیلاتا ہے“ شیخ نے مسکرا کر پوچھا‘ میری ہنسی نکل گئی‘ میں نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ”ہاں میں نیوز پھیلاتا ہوں لیکن بری نیوز“ شیخ نے بھی قہقہہ لگایا اور جواب دیا ”گاڈ بلیس یو“۔
شیخ کون تھا؟ شیخ تویونی (Tavueni) کے سو مسلمانوں میں سے ایک تھا‘ اس کے دادا یا پھر شاید پردادا انیسویں صدی میں ہندوستان سے فجی آئے اور اس کے بعد خاندان کا ماضی ساﺅتھ پیسفک (جنوبی بحرالکاہل) میں غرق ہو گیا‘ ہندوستان کی تاریخ میں 1857ءکی جنگ نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا‘ یہ جنگ ہوئی‘ انگریز جیتا اور برطانوی تاج نے ہندوستان کو مکمل طور پر اپنی کالونی بنا لیا‘ ہندوستان کی آبادی اس وقت کروڑوں میںتھی‘ ان کروڑوں لوگوں کو روٹی کے ساتھ ساتھ چینی بھی چاہیے تھی چنانچہ انگریز مہم جو کسی ایسی زمین کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے جس میں وہ کم محنت سے زیادہ سے زیادہ گنا اگا سکتے تھے‘ یہ لوگ مہینوں کے بحری سفر کے بعد فجی پہنچ گئے‘ فجی میں انسانی شکل میں درندے آباد تھے‘ یہ لوگ انسان تھے لیکن یہ جانوروں سے بدتر تھے‘ یہ ننگے پھرتے تھے‘ اپنی میتوں اور دشمنوں کو پکا کر کھا جاتے تھے‘ آدم خوری ان کی تہذیب اور جینز کا حصہ تھی‘ یہ لوگ ”کے ویتی“ کہلاتے تھے‘ کے ویتیوں نے گوروں کو دیکھا تو ان کے منہ میں پانی آ گیا‘ یہ انہیں اس طرح دیکھتے رہے جس طرح بھوکا صحت مند مرغی کو دیکھتا ہے‘ گورے ان کی نظروں کی گرسنگی پر حیران ہوئے لیکن ان کی حیرت اس وقت دہشت میں بدل گئی جب مقامی لوگوں نے انہیں تلوار جیسے ہتھیاروں سے کاٹنا‘ کاٹ کر پکانا اور پھر مزے لے لے کر کھانا شروع کر دیا‘ کے ویتی گوروں کو ان کے جوتوں سمیت کھا گئے‘ نئی پارٹی گم شدہ لوگوں کی تلاش میں فجی پہنچی اور یہ بھی مقامی لوگوں کے معدے میں دفن ہو گئی‘ تیسری بار پورا لشکر آیا اور یہ مقامی لوگوں کو رائفلوں سے اڑانے لگا‘ کے ویتی جنگلوں میں بھاگ گئے‘ انگریز فجی کے حسن سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے‘ یہ دنیا کا خوبصورت ترین خطہ تھا‘ صاف شفاف سمندر‘ نیلے اور سبز پانیوں کے درمیان سفید ریت کے طلسماتی جزیرے‘ جزیروں میں ناریل‘ پپیتا اور پائن ایپل کے میلوں تک پھیلے جنگل‘ ہریالی ایسی کہ مٹی کا ذرا تک دکھائی نہیں دیتا تھا‘ آبشاریں‘ ندیاں‘ نالے اور دریا ایسے کہ جنت کا گمان ہوتا تھا اور اوپر سے خوشگوار مرطوب موسم‘ انگریز نے آج تک ایسی کنواری زمین نہیں دیکھی تھی چنانچہ یہ فوراً فجی پر قابض ہو گئے‘ فوجی کیمپ بنائے گئے‘ اسلحے کا ڈھیر لگایاگیا اور ہندوستان سے لوگوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا‘ انگریز سرکار نے ہندوستان کے تمام علاقوں سے ولایت جانے کے شوقین لوگ بھرتی کئے‘ انہیں جہازوں میں بھرا اور لا کر فجی میں پھینک دیا‘ یہ لوگ ایگری منٹ پر لائے جاتے تھے‘ یہ ان پڑھ تھے چنانچہ یہ ایگری منٹ کو ”گریمٹ“ کہتے تھے‘ یہ لفظ آج تک فجی میں بولا جاتا ہے‘ ہندوستانی مزدوروں کا پہلا جہاز 15مئی 1879ءمیں آیا اور آخری 11 نومبر 1916ءکو۔ یہ کل 87 جہاز تھے اور ان کے ذریعے 60 ہزار 5 سو 53 ہندوستانی یہاں لائے گئے‘ ان میں مسلمان بھی تھے‘ سکھ بھی‘ ہندو بھی اور عیسائی بھی‘ یہ پٹھان بھی تھے‘ پنجابی اور جنوبی انڈیا کے پانڈے بھی۔ ابتدائی آبادی میں مرد زیادہ اور عورتیں کم تھیں‘ تناسب کی اس خرابی کے دو نتیجے نکلے‘ یہ لوگ غار کی زندگی میں چلے گئے‘ ایک عورت کے دودو‘ تین تین خاوند ہوتے تھے لہٰذا کون کس کا بچہ ہے؟ یہ لوگ اس سماجی تنازعے سے گزرنے لگے‘ دوسرا یہاں ہندی فجی زبان پیدا ہوئی‘ اس زبان میں ہندوستان کی تمام زبانوں کے الفاظ شامل تھے‘ یہ زبان آج بھی مستعمل ہے‘ آپ کسی کو روک کر پوچھیں وہ انگریزی اور ہندی دونوں زبانیں بولے گا‘ انگریز نے 60 ہزار ہندوستانی مزدوروں کو گنا اگانے پر لگا دیا‘ شوگر ملیں بھی لگائی گئیں‘ یہ چینی ہندوستان میں بیچی جاتی تھی‘ کوکونٹ اور پائن ایپل کی تجارت بھی شروع ہوگئی‘ ہندوستان کے یہ بے چارے مزدور واپس نہ جا سکے‘ آج فجی میں ان کی چوتھی‘ پانچویں نسل بوڑھی ہو رہی ہے‘ یہ لوگ اس دوران مذہب سے بھی دور ہو گئے لیکن پھر یہاں تبلیغی جماعت آئی‘ اس نے مسلمانوں کے اندر چھپا اسلام کھود کر باہر نکالا اور مذہب سے ان کا رشتہ دوبارہ استوار کر دیا‘ فجی کے تمام مسلمان اس خدمت پر تبلیغی جماعت کے مشکور ہیں‘ فجی میں 1926ءمیں مسلم لیگ بھی بنی‘ یہ مسلم لیگ نہ صرف آج تک قائم ہے بلکہ یہ ملک میں 17سکول‘ کالج اور مساجد بھی قائم کر چکی ہے‘ اس نے فجی کے مسلمانوں کوایک پلیٹ فارم پر اکٹھا بھی کر رکھا ہے‘ شیخ بھی ان مسلمانوں میں سے ایک تھا‘ یہ حاجی شیخ کہلاتا ہے‘ تویونی کے مقامی لوگ اسے طالبان بھی کہتے ہیں اور یہ تویونی میں چار گھنٹے کےلئے میرا میزبان تھا۔
میں 26 جون کو فجی پہنچا‘ مجھے فجی آنے کا مشورہ مولانا طارق جمیل نے دیا تھا‘ ویزے کا بندوبست آک لینڈ میں موجود ان کے شاگرد مولانا تسلیم نے کیا‘ یہ فجی کے رہنے والے ہیں لیکن انہوں نے رائے ونڈ میںتعلیم حاصل کی‘ آک لینڈ میں چرچ خرید کر مسجد بنائی اور یہ اب یہاں لوگوں کو اللہ کے راستے پر لگاتے ہیں‘ فجی ائیر لائین نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا دونوں ملکوں میںآتی اور جاتی ہے‘ میں نے آک لینڈ سے فلائیٹ لی‘ انٹرنیشنل ائیر پورٹ نادی ( Nadi) شہر میں ہے‘ دارالحکومت کا نام سوہا ہے‘ یہ نادی سے ساڑھے تین گھنٹے کی ڈرائیور پر ہے‘ یہ ملک 360 جزیروں پر مشتمل ہے‘ 60 غیر آباد ہیں اور 300 مکمل آباد‘ یہ ملک دنیا کے مہنگے ترین تفریحی مقامات میں بھی شمار ہوتا ہے‘ جزیرے ریزارٹ میں تبدیل ہو چکے ہیں‘ دنیا کی بڑی بڑی ہوٹل کمپنیوں نے جزیرے لیز پر لے کر یہاں عارضی جنتیں بنا رکھی ہیں‘ ہالی ووڈ کے اداکاروں‘ اداکاراﺅں‘ امریکی بزنس ٹائیکونز اور یورپی سیاستدانوں نے پورے پورے جزیرے لے رکھے ہیں‘ یہ ذاتی طیاروں اور جہازوں پر یہاں آتے ہیں‘ چھٹیاں گزارتے ہیں اور واپس لوٹ جاتے ہیں‘ فضا انتہائی صاف‘ پانی صحت بخش اور مناظر دل فریب ہیں‘ صبح اور شام دو وقت یہ ملک قدرت کی طویل پینٹنگ بن جاتا ہے‘ آپ کے سامنے افق کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک سرخی ہوتی ہے‘ آپ اگر اس سرخی کو ناریل کے جھنڈوں میں بیٹھ کر دیکھیں تو ناریل‘ سفید ریت‘ گرے بادل‘ نظروں کی آخری حد تک پھیلا سمندر اور سرخ آسمان یہ سب مل کر آپ کو حواس کی دنیا سے باہر وہاں لے جاتی ہیں جہاں آپ فرشتوں کے پروں کی آواز اور قدرت کی خوشبو محسوس کر سکتے ہیں‘ یہ دنیا خوبصورت ہے لیکن اس کی ساری خوبصورتی فجی کے حسن کے سامنے ہیچ ہے‘ یہ خوبصورتی باقاعدہ سانس لیتی ہے‘آپ ملک کو کسی بھی زاویئے‘ کسی بھی کونے سے دیکھیں یہ آپ کو پینٹنگ لگے گا‘ آپ اس کے کسی بھی حصے کی تصویر کھینچ لیں وہ تصویر پہلا انعام پائے گی‘ میں بھی دوسرے مسافروں کی طرح نادی اترا‘ ائیر پورٹ اچھا نہیں تھا لیکن سواگت کمال تھا‘ میں نے دنیا میں کوئی ایسا ائیر پورٹ نہیں دیکھا جس میں ”لائیو میوزک“ کا بندوبست ہو اور موسیقار باقاعدہ گا بجا کر مہمانوں کا استقبال کر رہے ہوں‘ نادی ائیر پورٹ پر تین گلو کار گا بجا کر خوش آمدید کہہ رہے تھے‘ میں باہر نکلا تو مجھے وزیر ستان کے ایک محسود پٹھان نے اچک لیا‘ مسعود خان یہاں ریفیوجی تھا‘ یہ میری اس سے پہلی ملاقات تھی‘ یہ مجھے زبردستی اپنے گھر لے گیا‘ مسعود خان ایک دلچسپ انسان تھا۔
میں اگلی صبح تویونی روانہ ہو گیا‘ فجی میں پندرہ نشستوں کے پرانے جہاز عام ہیں‘ یہ مسافروں کو تمام بڑے جزیروں میں پہنچا دیتے ہیں‘ آپ انہیں چارٹر بھی کرا سکتے ہیں‘ مجھے اس جہاز میں چڑھتے ہوئے دو حیرتیں ہوئیں‘ پہلی حیرت‘ مسافروں کو باقاعدہ تول کر جہاز میں سوار کیا گیا‘ مسافر کو پہلے ویٹ مشین پر کھڑا کیا جاتا تھا اور پھر بورڈنگ پاس دیا جاتا تھا‘ دوسرا‘ پائلٹ اس جہاز کا سب کچھ تھا‘ بورڈنگ پاس بھی اسی نے چیک کئے‘ مسافروں کو بٹھایا بھی اسی نے‘ اناﺅنسمنٹ بھی اسی نے کی اور جہاز اڑانے کی ذمہ داری بھی اسی کے کندھے پر تھی‘ سفر بہرحال شاندار تھا‘ راستے میں دور دور تک نیلا سمندر تھا‘ پانی میں گونگے کی سبز رنگ کی چٹانیں تھیں‘ سفید ساحل تھے‘ گہرے سبز رنگ کے جزیرے تھے اور سلیٹی رنگ کا آسمان تھا‘ ہم بادلوں پر سفر کرتے ہوئے بارہ بجے تویونی پہنچے‘ ائیر پورٹ بس کا اڈہ تھا‘ برآمدے میں چند بینچ پڑے تھے‘ ان بینچوں کے اوپر لاﺅنج کی تختی لٹکا دی گئی تھی‘ گورے سیاح اس لاﺅنج میں ادھر ادھر پڑے تھے اور ان پر مکھیاں منڈلا رہی تھیں‘ میں باہر نکلا‘ حاجی شیخ سامنے کھڑا تھا‘ وہ بڑے تپاک سے ملا‘ اس کے آباﺅ اجداد بھارت کے کسی علاقے سے فجی آئے تھے‘ وہ خود تبلیغی جماعت سے وابستہ تھا‘ قصبے میں دکان کرتا تھا اوراگر کسی دن میرے جیسا کوئی مسافر مل جاتا تو وہ ڈرائیور اور گائیڈ دونوں کی ذمہ داری سنبھال لیتا تھا‘ اس کا پہلا سوال تھا ”تم نیوز پھیلاتا ہے“ میرے قہقہے کے بعد اس کا دوسرا سوال تھا ”کیا تم نے تبلیغی جماعت کے ساتھ چلہ لگایا“ میرے انکار نے اسے بہت مایوس کیا‘ اس کا خیال تھا پورا پاکستان تبلیغی جماعت میں شامل ہے اور وہاں لوگوں کو چلے لگانے کی وسیع سہولتیں حاصل ہیں اور تمام پاکستانی جی بھر کر اس سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہیں‘ میں نے جواب دیا ”میں ان چند پاکستانیوں میں شمار ہوتا ہوں جو اس سہولت سے محروم ہیں“ وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا‘ تویونی میں دیکھنے کی چار چیزیں تھیں‘ ڈیٹ لائین‘ لکڑی کی مسجد‘ ناریل کا جنگل اور طویل کوسٹل لائین‘ تویونی دنیا کا واحد قصبہ ہے جو عین 180 ڈگری پر واقع ہے‘ سورج اپنا سفر روزانہ یہاں سے شروع کرتا ہے‘ حاجی شیخ محمد مجھے سب سے پہلے ڈیٹ لائین پر لے گیا‘ یہ چھ انچ کی دس فٹ لمبی لکیر تھی‘ لکیر پر بورڈ لگا تھا‘ بورڈ درمیان سے کٹا ہوا تھا‘ ایک حصے پر ایسٹ اور یسٹر ڈے (گزرا ہوا کل) اور دوسرے پر ویسٹ اور ٹوڈے (آج) تحریر تھا‘ میں دونوں بورڈوں کے درمیان کھڑا ہو گیا‘ میرے بائیں ہاتھ ٹوڈے تھا‘ سورج تویونی میں طلوع ہونے کے بعد مغرب کی طرف سفر شروع کرتا ہے‘ آپ گلوب کو دیکھیں تو آپ کو اس کے اوپر والے سرے پر شمالی قطب اور نیچے پیندے میں جنوبی قطب ملے گا‘ قطب شمالی سے قطب جنوبی کی طرف 24 لکیریں اوپر سے نیچے آتی ہیں‘ یہ 24 لکیریں 24گھنٹوں کو ظاہر کرتی ہیں‘ آسٹریلیا تویونی سے دو لکیروں کے فاصلے پر ہے لہٰذا تویونی اور آسٹریلیا کے درمیان دو گھنٹے کا فرق ہے‘ پاکستان ساتویں لکیر پر واقع ہے اس کا مطلب ہے تویونی میں طلوع ہونے والا سورج سات گھنٹے بعد پاکستان پہنچتا ہے جبکہ برطانیہ بارہویں لکیر پر واقع ہے اور یہ بارہ گھنٹے کی دوری ہے‘ سورج جب تویونی میں نکلتا ہے تو لندن کے گرین وچ میں عین اس وقت رات کے بارہ بج جاتے ہیں اور یوں نئی تاریخ شروع ہو جاتی ہے‘ اسی طرح جوں ہی لندن میں صبح طلوع ہوتی ہے تویونی میں رات کے بارہ بج جاتے ہیں اور کیلینڈر پر اگلا دن شروع ہو جاتا ہے‘ ہم اگر اسی طرح ڈیٹ لائین کے بورڈ پر دائیں ہاتھ سفر شروع کر دیں تو ہم پچھلے دن میں چلے جائیں گے اور گلوب کی ہر لکیر ہمیں ایک گھنٹہ پیچھے لے جاتی چلی جائے گی یہی وجہ ہے تویونی میں جب اتوار کا دن طلوع ہوتا ہے تو امریکا اور کینیڈا میں اس وقت ہفتے کا دن ہوتا ہے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ دونوں تویونی کی ڈیڈ لائین میں دائیں جانب ہیں۔
میں اس وقت لکیر کے درمیان کھڑا تھا‘ حیرت سے کبھی دائیں دیکھتا تھا اور کبھی بائیں‘ میرے دائیں بائیں وقت کا طلسم بکھرا ہوا تھا اور میں اس طلسم میں کنفیوژ ہوتا چلا جا رہا تھا۔



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…