تاریخ کے دوسبق

28  مئی‬‮  2016

آپ سکندر اعظم سے سٹارٹ کر لیجئے‘ الیگزینڈر20 سال کی عمر میں مقدوینہ کا بادشاہ بنا ‘ دنیا فتح کرنا شروع کی اور ا س نے 33 سال کی عمر تک گیارہ ممالک اور 56 لاکھ کلو میٹر علاقہ فتح کر لیا‘ اس کی سلطنت یونان سے سٹارٹ ہوتی تھی اورہندوستان میں ختم ہوتی تھی‘ سکندر اعظم عراق کے شہر بابل میں 10 جون 323 قبل مسیح میں فوت ہوااور اس کے انتقال کے صرف پانچ سا ل بعد دنیا میں اس کی وسیع وعریض سلطنت کا نام و نشان ختم ہو گیا‘ آپ چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھی لے لیجئے‘ چنگیز خان نے دو نئی جنگی ٹیکنیکس ایجاد کیں‘ سپیڈ اور تیر‘ منگول ایک مہینے کا سفر ہفتے میں طے کرتے تھے‘ یہ لوگ گھوڑے کی پیٹھ پر نیند پوری کر لیتے تھے‘ دوسرا ‘منگول دنیا کی پہلی فوج تھی جو دوڑتے گھوڑے کی پیٹھ سے تیر چلا لیتی تھی‘ چنگیز خان نے ان دونوں ٹیکنیکس سے آدھی دنیا فتح کر لی‘اس کی سلطنت چین سے جارجیا تک پھیلی ہوئی تھی‘ یہ شہر جلانے اور کھوپڑیوں کے مینار بنانے کا شوقین تھا‘ یہ کھوپڑیاں اور یہ مینار آج بھی تاریخ میں موجود ہیں‘ ہلاکو خان اس کا پوتا تھا‘ اس نے اپنے دادا کا نام زندہ رکھا لیکن اس کے بعد کیا ہوا‘ٹوفون تیمر چنگیز سلطنت کا آخری بادشاہ ثابت ہوا اور یوں یہ سلطنت بھی تاریخ کے اوراق میں گم ہو گئی‘ آپ امیر تیمور کی مثال بھی لے لیجئے‘ کیش کے اس ازبک جرنیل نے کمال کر دیا‘ یہ آندھی کی طرح اٹھا‘ بگولے کی طرح دوڑا اور35سال میں دنیا کے 58 ملک فتح کر لئے‘ اس کی سلطنت بھی ثمرقندسے دمشق‘ سکندریا سے سائبیریا اور ایران سے ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی‘ یہ بادشاہوں کا بادشاہ کہلاتا تھا‘ یہ17 فروری1405ءمیں فوت ہو گیا‘ امیر تیمور کے بعد اس کی صرف دو نسلیں اس عظیم سلطنت کا بوجھ اٹھا سکیں‘ تیسری نسل کی آمد کے ساتھ ہی امیر تیمور کی پوری سلطنت تتر بتر ہو گئی یہاں تک کہ مزید دو نسلوں کے بعد ظہیر الدین بابر اندیجان سے بھاگ کر ہندوستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوگیا‘ آپ اورنگزیب عالمگیر کی مثال بھی لے لیجئے‘ یہ ہندوستان کی تاریخ کا تیسرا بڑا بادشاہ تھا جس کی سلطنت شمالی ہند سے جنوبی ہند تک پھیلی ہوئی تھی‘ یہ 21 فروری1707ءمیں فوت ہوا اور اس کے انتقال کے چند سال بعد اس کا ہندوستان چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا اور یوں یہ سلطنت بھی تاریخ میں دفن ہو گئی‘نادر شاہ درانی تاریخ کا پہلا حکمران تھا جس کے پاس چھ لاکھ ریگولر آرمی تھی‘ یہ باقاعدہ تنخواہ دار فوج تھی‘ اس کی سلطنت بھی ایران سے افغانستان اورانڈیاتک پھیلی ہوئی تھی‘2 جون1747ءمیں نادر شاہ کو خبوشان شہر میں قتل کر دیا گیا‘ اس کے قتل کے صرف دو گھنٹے بعد اس کی پوری فوج بھی تتر بتر ہو گئی اور اس کا جنازہ تک اٹھانے کےلئے کوئی نہ بچا اور ملٹری گورنمنٹ کی آخری مثال ہٹلر تھا‘ یہ جنوری1933ءسے اپریل 1945ءتک اقتدار میں رہا‘ اس نے ان 12برسوں میں دنیا کے 20 ملک فتح کر لئے‘ ہٹلر نے اس وقت کی دو سپر پاورز کو ناکوں چنے چبوا دیئے لیکن یہ ہٹلر 30 اپریل 1945ءکو خودکشی پر مجبور ہوگیا‘ پیچھے رہ گئی سلطنت تو وہ اس کی موت سے پہلے ہی دھڑن تختہ ہو چکی تھی‘ یہ تاریخ کی چند مثالیں ہیں‘ آپ اگر ان مثالوں میں اشوک اعظم‘ ذوالقرنین‘ سلطان صلاح الدین ایوبی‘ عبدالرحمن اول‘ خوارزم شاہ‘ محمود غزنوی‘ سلجوق‘ شاہ سلیمان‘ نپولین بونا پارٹ اور راجہ رنجیت سنگھ کو بھی شامل کر لیں تو آپ کےلئے فیصلہ آسان ہو جائے گا۔
یہ انسان کی دس ہزار سال کی ریکارڈڈ ہسٹری کا پہلا سبق ہے کہ تاریخ میں آج تک کوئی ملٹری گورنمنٹ نہیں چل سکی‘ جرنیلوں نے ملک فتح ضرور کئے لیکن یہ آج تک کوئی ملک چلا نہیں سکے‘ دنیا کی ہر فوجی ریاست بالآخر ختم ہوئی اور اس کے بعد اس کا نام و نشان تک مٹ گیا‘ یہ تاریخ کا پہلا سبق تھا‘ آپ اب دوسرا سبق بھی ملاحظہ کیجئے‘ انسان کی دس ہزار سال کی ریکارڈڈ ہسٹری میں آج تک کوئی مذہبی ریاست بھی نہیں چل سکی‘ آپ حضرت داﺅد ؑ اور حضرت سلیمان ؑ سے سٹارٹ کیجئے‘ یہ دونوں پیغمبر تھے‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں سلطنتیں بھی عنایت کی تھیں‘ حضرت سلیمان ؑ دنیا کے پہلے اور آخری ایسے نبی بادشاہ تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے خشکی‘ پانی اور ہوا تینوں پر حق حکمرانی عطا کر رکھا تھا لیکن آج حضرت سلیمان ؑ اور حضرت داﺅد ؑ دونوں کی سلطنتیں صرف مذہبی حوالوں میں ملتی ہیں‘ بیت المقدس‘ خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ سے پہلے دنیا کا متبرک ترین مقام تھا لیکن یہ مقام انبیاءکرام کی موجودگی میں کتنی بار اجڑا‘ یہ کتنی بار تباہ ہوا اور اسے کتنی بار نذر آتش کیا گیا آپ کسی دن تاریخ نکال کر دیکھیں‘ آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی‘ آپ حضرت موسیٰ ؑ کی سلطنت کے آثار بھی تلاش کیجئے‘ آپ حضرت عیسیٰ ؑ کی تعلیمات پر بننے والی ریاستوں کی تاریخ بھی دیکھ لیجئے‘ آپ مہاتما بودھ کے مذہب پر تعمیر ہونے والی ریاست بھی ڈھونڈیئے اور آپ اسلامی ریاست کی تاریخ بھی دیکھ لیجئے‘ آپ چند لمحوں میں حقیقت تک پہنچ جائیں گے‘ مدینہ منورہ اسلامی ریاست کا دارالخلافہ ہوتا تھا‘ حضرت عمر فاروق ؓ اسی شہر میں شہید ہوئے‘ حضرت عثمان ؓ بھی اسی شہر رسول میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے مسند شہادت پر فائز ہوئے‘ آپؓ کا جسم اطہر تین دن تک قرآن مجید پر پڑا رہا‘ حضرت علیؓ 657ءمیں مدینہ سے نکلے اور کوفہ کو اسلامی ریاست کا دارالخلافہ بنایا‘ حضرت علیؓ کی اس نقل مکانی کو آج 1359 سال ہو چکے ہیں لیکن مدینہ اس کے بعد کبھی دارالخلافہ نہیں بن سکا‘ مکہ اور مدینہ دونوں ہم مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہیں‘ یہ ہماری عبادت اور عقیدت دونوں کے دارالحکومت ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے پوری زندگی باوضو رہنے اور تکبیر اُولیٰ کے ساتھ نماز ادا کرنے والے بادشاہ بھی ان دونوں روحانی دارالحکومتوں کو حضرت علیؓ کے بعد اپنی سلطنت کا دارالخلافہ نہیں بنا سکے اور ان میں وہ ترک بادشاہ بھی شامل ہیں جنہوں نے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی توسیع کے دوران عقیدت اور محبت کی عظیم داستان رقم کی تھی۔
تاریخ بڑی ظالم‘ بڑی بے رحم ہے‘ یہ جب گواہی دینے پر آتی ہے تو اسے یہ مانتے چند سیکنڈ لگتے ہیں کہ دنیا میں یہودی ریاست چل سکی‘ عیسائی ریاست‘ بودھ ریاست‘ ہندو ریاست اور نہ ہی اسلامی ریاست‘ ہماری اسلامی ریاست کی کل تاریخ چار خلفاءراشدین اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے اڑھائی سالہ دور پر مبنی ہے اور یہ پانچ عظیم ہستیاں بھی پوری زندگی اندرونی محاذوں پر لڑتی رہیں اور ان میں سے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے سوا چاروں خلفاءشہید ہوئے‘ ہماری آخری اسلامی ریاست طالبان کی شکل میں سامنے آئی‘ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ دنیا کے 58 اسلامی ملکوں میں سے کسی ایک نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا‘ افغانستان سے دنیا کے پانچ مضبوط اسلامی ملکوں کی سرحدیں ملتی ہیں‘ یہ پانچوں ملک بھی نہ صرف طالبان کی اسلامی حکومت کے خلاف تھے بلکہ یہ آج تک امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں‘ دنیا میں اس وقت صرف دو مذہبی ریاستیں ہیں‘ پاکستان اور اسرائیل‘ آپ ان دونوں کے حالات دیکھ لیجئے‘ اسرائیل اور پاکستان دونوں کے شہریوں کو سکون کی نیند نصیب نہیں‘ آپ بھارت کی مثال بھی لے لیجئے‘ ہندوستان میں ہندو اکثریت میں ہیں لیکن ریاست کا مذہب سیکولرازم ہے‘ یہ ملک آج تک اس لئے قائم ہے کہ یہ لوگ مسلمان کو صدر‘ سکھ کو وزیراعظم‘ عیسائی کو کانگریس کی چیئرپرسن اور پارسی کو چیف آف آرمی سٹاف بنا دیتے ہیں‘ یہ جس دن بھارت کو ہندوستان ڈکلیئر کر دیں گے یہ ملک اس دن ختم ہو جائے گا‘ یورپ آج اس لئے یورپ‘ امریکا اس لئے امریکا اور چین اس لئے چین ہے کہ یہ مذہبی ریاستیں نہیں ہیں‘ آپ سعودی عرب میں چرچ نہیں بنا سکتے‘ آپ وہاں امام بارگاہ بھی تعمیر نہیں کر سکتے‘ آپ ایران اور شام میں مسجد نہیں بنا سکتے لیکن آپ یورپ کے کسی بھی ملک میں کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ تعمیر کر سکتے ہیں‘ آپ امریکا میں مسجد بنائیں‘ مندر بنائیں یا سینا گوک تعمیر کریں آپ کو ریاست نہیں روکے گی لیکن آپ پاکستان میں مندر‘ چرچ‘ سیناگوک اور جماعت خانہ بنا اور چلا کر دکھائیں ‘آپ کو حفاظت کےلئے پولیس اور رینجرز کی ضرورت پڑ جائے گی‘ یہ انسان کی دس ہزار سال کی ریکارڈڈ تاریخ کا دوسرا سبق ہے‘ دنیا میں آج تک کوئی مذہبی ریاست نہیں چل سکی‘ یہاں تک کہ بنی اسرائیل اور حضرت عیسیٰ ؑ کے نام پر بننے والی ریاستیں بھی ختم ہوئیں اور ان کی داستان تک نہ رہی داستانوں میں جبکہ ہم پچھلے 70 سال سے اس ملک میں یہ دونوں کوششیں کر رہے ہیں۔
ہم نے اپنی ریاست کو مذہبی اور فوجی دونوں رنگ دے رکھے ہیں‘ ہم نے چار بار فوج کے ذریعے ملک چلانے کی کوشش کی‘ اس کوشش میں ملک آدھا رہ گیا‘ یہ اسامہ بن لادن اور ملا منصور کی پناہ گاہ بن گیا لیکن ہم نے کوشش ترک نہیں کی‘ ہم اس ملک کو 70 سال سے مذہبی ریاست بنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں اور اس کوشش میں ہماری مسجدیں محفوظ ہیں اور نہ ہی امام بارگاہیں‘ ملک میں 20 کروڑ لوگ ہیں اور یہ20 کروڑ لوگ (نعوذباللہ) خدا بن کر روزانہ دوسروں کا حساب کر رہے ہیں ‘ ہمیں بہرحال اس مغالطے سے بھی باہر آنا ہو گا‘ ہمیں ماننا ہو گا فوج ملک کی حفاظت کےلئے ہوتی ہے حکومت کرنے کےلئے نہیں اور مذہب انسان اور خدا کے درمیان رابطہ ہوتا ہے‘ ریاست اور خدا کے درمیان نہیں‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انسان سے خطاب کیا‘ یہ کسی ریاست‘ مملکت یا ملک سے مخاطب نہیں ہوا اور حشر کے دن بھی انسانوں کا حساب ہوگا کسی ملک‘ معاشرے یا ریاست کا نہیں‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا ملک قانون سے چلتے ہیں اور قانون جب تک تمام شہریوں کو طبقے‘ فرقے‘ حسب نسب اور مذہب سے بالاتر ہو کر ایک آنکھ سے نہ دیکھے‘ جب تک یہ گورے اور کالے‘ عربی اور عجمی‘ امیر اور غریب اور مسلم پاکستانی اور غیر مسلم پاکستانی کو برابر حقوق نہ دے یہ اس وقت تک قانون نہیں کہلا سکتا چنانچہ ہمیں تاریخ سے سیکھنا ہوگا‘ ہمیں یہ ماننا ہو گا اگر سکندر اعظم کی فوج ملک نہیں چلا سکی تھی تو یہ کام ہماری فوج بھی نہیں کر سکے گی اور اگر دنیا میں بنی اسرائیل کی سلطنت قائم نہیں رہ سکی تو یہ ہمارے مولانا شیرانی اور اسلامی نظریاتی کونسل کے بس کی بات بھی نہیں ہوگی‘ ہمیں بہرحال تاریخ کو سنجیدہ لینا ہوگا۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…