حقائق در حقائق

27  اپریل‬‮  2016

میں نے پچھلے دنوں ٹیلی ویژن چینل پر ملک کے ایک نامور سیاسی تجزیہ کار کو پانامہ لیکس کو عالمی سازش قرار دیتے دیکھا‘ ان کا کہنا تھا‘ امریکا اس سازش کے ذریعے پاکستان کی اقتصادی راہداری اور ایٹمی پروگرام کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے‘ نامور تجزیہ کار نے اپنے تجزیئے کی سپورٹ میں یہ دلیل دی ”آپ غور کریں پانامہ لیکس میں کسی امریکی شہری‘ کمپنی اور سیاستدان کا نام نہیں آیا‘ کیوں؟ غور کریں‘ ساری سازش کھل کر آپ کے سامنے آ جائے گی“ میں اس تجزیہ کار کی رائے کو یکسر مسترد نہیں کرتا‘ یہ عین ممکن ہے‘ یہ واقعی سازش ہو اور اس سازش کا مقصد پاک چین اقتصادی راہداری اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنا ہو اور یہ بھی ممکن ہے پانامہ میں امریکی شہریوں کی آف شور کمپنیاں بھی موجود ہوں‘ ان کے نام جان بوجھ کر خفیہ رکھے گئے ہوں یا پھر یہ نام آنے والے دنوں میں سامنے آ جائیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اور حقیقت بھی ہے اور ہمیں پانامہ لیکس اور پاکستان میں موجود کرپشن کا تجزیہ کرنے سے پہلے یہ حقیقت بھی جان لینی چاہیے۔
امریکا دنیا کے ان پانچ ملکوں میں شمار ہوتا ہے جن میں بزنس مینوں‘ تاجروں‘ صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو صدر سے زیادہ عزت اور تحفظ حاصل ہے‘ امریکا میں بل گیٹس‘وارن بفٹ‘ اینڈریو گرو‘ سٹیو جابس‘ مارک زکر برگ‘ جیف بیزوز‘ براڈ سمتھ‘ ہاورڈ شوٹلز‘ لیری پیج‘ ٹم کک اور روپرٹ مورڈوش صدر اوبامہ سے زیادہ مشہور‘ قابل عزت اور محفوظ ہیں‘ امریکا کے بارے میں کہا جاتا ہے‘ امریکا اپنی 36 ہزار کمپنیوں اور سو بڑے بزنس گروپوں کی وجہ سے امریکا ہے اور جب تک یہ سو بزنس گروپ اور 36 ہزار کمپنیاں موجود ہیں امریکا امریکا رہے گا‘ دنیا میں اس وقت 1826کھرب پتی ہیں‘ ان میں سے 536 کا تعلق امریکا سے ہے گویا دنیا کے 29 فیصد کھرب پتی صرف ایک ملک امریکا سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ لوگ اتنی بڑی تعداد میں امریکا میں کیوں ہیں؟ یہ لوگ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کیوں کر رہے ہیں اور وہ کون سی طاقت‘ کون سی گیدڑ سنگھی ہے جس نے بل گیٹس‘ سٹیو جابس اور مارک زکر برگ جیسے نالائق طالب علموں کو چند برسوں میں دنیا کے امیر ترین لوگ بنا دیا؟ وہ گیدڑ سنگھی‘ وہ طاقت امریکا کی سرمایہ کاری اخلاقیات ہے‘ امریکا بزنس مینوں کو معاشرے کا محسن سمجھتا ہے‘ اس کا خیال ہے‘ ہمارے بزنس مین ملک میں ترقی کا رول ماڈل بھی ہیں‘ یہ ملک کے ہزاروں لاکھوں نوجوانوں کو روز گار بھی دیتے ہیں‘ یہ معاشرے کو کوالٹی آف لائف بھی فراہم کر رہے ہیں اور یہ ملک کو ہر سال اربوں ڈالر ٹیکس بھی دیتے ہیں‘ امریکی حکومت ہر سال 2.4 ٹریلین ڈالر ٹیکس جمع کرتی ہے‘ اگر یہ لوگ‘ یہ کمپنیاں نہ ہوں تو امریکا کو ٹیکس بھی نہ ملے‘ امریکا میں بے روزگاری بھی ہو جائے اور امریکا کی کوالٹی آف لائف بھی تباہ ہو جائے چنانچہ امریکی نظام ان محسنوں کے ساتھ وہ سلوک کرتا ہے جو اچھے لوگوں‘ اچھے معاشروں کو محسنوں کے ساتھ کرنا چاہیے‘ امریکا دنیا کا واحد ملک ہے جس میں سرمایہ کاری پر کوئی ٹیکس نہیں‘ امریکا پورے کا پورا ”آف شور“ ہے‘ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں امریکا میں احتساب نہیں ہوتا‘ امریکا میں بھی احتساب ہوتا ہے لیکن وہاں کاروباری لوگوں اور سرمایہ کاروں کو احتساب کے آرے پر لٹا کر ان کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نہیں کئے جاتے‘ وہاں انہیں دفتروں کے سامنے بٹھا کر ذلیل نہیں کیا جاتا‘ امریکا کے ٹیکس قوانین بہت سخت ہیں‘ امریکا میں صرف دو چیزیں قطعی ہیں ٹیکس اور موت لیکن امریکی حکومت اس کے باوجود سرمایہ کاروں کے ساتھ خصوصی سلوک کرتی ہے‘ یہ ٹیکس کے ایشو پر اپنے صدر کو الٹا لٹکا دیں گے لیکن جب کریسلر کمپنی پر برا وقت آئے گا تو صدر ریگن اپنا دفتر کمپنی کے ہیڈ آفس میں شفٹ کر لے گا اور کانگریس قرضے کےلئے بینک کو گارنٹی دے دے گی‘ یہ لوگ صدر بل کلنٹن کو عدالت میں دس دس گھنٹے ذلیل کریں گے لیکن یہ وارن بفٹ اور بل گیٹس کا بت نہیں ٹوٹنے دیں گے‘ یہ ان کو خصوصی رعایت دلانے کےلئے اپنے آئین میں ترمیم کر دیں گے‘ اپنا قانون بدل دیں گے چنانچہ بل گیٹس‘ وارن بفٹ اور لیری پیج جانتے ہیں ہمارا سرمایہ جتنا امریکا میں محفوظ ہے اتنا دنیا کے کسی پانامہ میں محفوظ نہیں‘ ہمیں جتنی عزت امریکا دیتا ہے اتنی دنیا کا کوئی ورجن آئی لینڈ نہیں دے سکتا اور ہمیں جتنی رعایتیں اور ”ٹیکس امیونٹیز“ امریکا میں حاصل ہیں اتنی ٹیکس امیونٹیز اور رعایتیں ہمیں دنیا کی کوئی ٹیکس ہیون نہیں دے سکتی اور یہ وہ اعتماد‘ یہ وہ تحفظ اور یہ وہ عزت ہے جس کی وجہ سے امریکی شہری‘ امریکی بزنس مین‘ امریکی سرمایہ کار اور امریکی صنعت کار آف شور کمپنیاں بناتے ہیں‘ اکاﺅنٹس کھولتے ہیں اور نہ ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں اپنے اثاثے رکھتے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں صورتحال ایک سو اسی درجے مختلف ہے‘ ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے ترقی کرنا نیکی ہے یا گناہ‘ ہمیں تاجروں‘ سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کو عزت دینی چاہیے یا انہیں جوتے مارنے چاہئیں اور یہ لوگ ہمارے محسن ہیں یا ہمارے دشمن ہیں؟ ہمارے ملک میں ترقی کرنے والا ہر شخص جوں جوں ترقی کرتا ہے‘ یہ جوں جوں ایک کارخانے سے دس کارخانوں کی طرف بڑھتا ہے‘ یہ جوں جوں ایک سے ایک ہزار لوگوں کو جاب دیتا ہے اور یہ جوں جوں ہزار روپے سے ارب روپے تک ٹیکس دیتا ہے‘ یہ ملک میں اتنا ہی غیر محفوظ ہوتا جاتا ہے‘ یہ اتنا ہی ذلیل ہوتا جاتا ہے اور یہ اس معاشرے میں اتنا ہی بلیک میل ہوتا جاتا ہے۔
آپ نے کبھی غور کیا ملک میں ایوب خان کے دور میں 22 بڑے کاروباری خاندان ہوتے تھے‘ ہم نے اس دور میں ان کے خلاف کتا کتا شروع کر دی‘ ملک میں ٹھیک بیس سال بعد ان میں سے کوئی خاندان موجود نہیں تھا‘ ان کی کمپنیاں‘ ان کی فیکٹریاں بند ہو گئیں اور وہ لوگ سڑکوں پر ذلیل ہو کر مر گئے اور اس کا نتیجہ بےروزگاری‘ لوٹ کھسوٹ اور عسکریت پسندی کی شکل میں نکلا‘ انسانی رویوں کا معیشت کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہوتا ہے‘ بے روزگار کو مجاہد بنتے دیر نہیں لگتی‘ بے روزگار کو مجرم بنتے بھی زیادہ دن نہیں لگتے اور ہمارے ملک میں مجرموں اور نام نہاد مجاہدوں کے سینکڑوں لشکر ہیں‘ یہ لشکر ان 22 خاندانوں کی بددعائیں ہیں جنہیں ہم 1970ءکی دہائی میں فٹ پاتھ پر لے آئے تھے‘ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے 1960ءکی دہائی میں پاکستان کوایشیا میں تیزی سے ترقی کرنے والا ملک بنا دیا تھا اور کوریا‘ ملائشیا‘ تائیوان‘ چین اور جرمنی اپنے منیجروں کو ہمارے ملک میں بھجواتے تھے‘ ہم اگر ان لوگوں کو کام کرنے دیتے‘ ہم ان 22 خاندانوں کو 22 سو بننے دیتے تو آج یہ ملک مختلف ہوتا‘ آپ اس کے مقابلے میں جرمنی کی مثال لیجئے۔ ”مرک“ جرمنی کی ایک فارما سوٹیکل کمپنی ہے‘ یہ کمپنی 1668ءمیں بنی‘ جرمنی نے آج تک یہ کمپنی بند نہیں ہونے دی‘ 348 سال میں جرمنی میں کیا کیا نہیں ہوا؟ ملک نے دو عالمی جنگیں تک لڑیں لیکن یہ کمپنی بند نہیں ہوئی‘ امریکا میں بھی آپ کو دو‘ دو سو سال پرانی کمپنیاں مل جاتی ہیں‘ جاپان میں ہزار ہزار سال پرانی کمپنیاں ہیں لیکن ہمارے ملک میں دہائیوں میں ایک آدھ شخص بمشکل رینگ رینگ کر سیدھا کھڑا ہوتا ہے اور ہم اسے جوتے مار مار کر ماردیتے ہیں‘ ہم نے کبھی سوچا ہمارے ملک کے لوگ آف شور کمپنیاں کیوں بناتے ہیں‘ یہ کاروبار دوسرے ملکوں میں کیوں شفٹ کرتے ہیں اور یہ اپنی جنت چھوڑ کر دوسروں کے دوزخ میں کیوں ٹھکانہ بناتے ہیں؟ یہ لوگ اس ذلت سے تنگ آ کر دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں‘ یہ اس سلوک سے مجبور ہو کر ملائشیا‘ دوبئی‘ تائیوان‘ مشرقی یورپ‘ بالٹک سٹیٹس اور پانامہ میں پناہ لیتے ہیں جس کا مظاہرہ ہم اور ہمارے ادارے روزانہ کرتے ہیں‘ کل ہی عزیر بلوچ نے تسلیم کیا میں نے کراچی کے 12تاجروں کوبھتہ نہ دینے پر قتل کر دیا تھا‘ یہ قتل کا وہ خوف ہے جو ہمارے ملک کے بل گیٹس اور وارن بفٹ کو نقل مکانی پر مجبور کرتا ہے‘ آپ کو یہ خوف بھی ذہن میں رکھنا ہو گا۔
آپ کو یاد ہو گا وزیراعظم نے 16 فروری کوبہاولپور میں نیب کو وارننگ دی تھی”نیب لوگوں کی عزتیںاچھالنا بند کرے ورنہ کارروائی کریں گے“ یہ وارننگ کیوں دی گئی تھی؟ اس کی وجہ یونس تبا تھے‘ یونس تبا کراچی کے میمن ہیں‘ یہ یونس برادرز کے نام سے ملک کا ایک بڑا گروپ چلا رہے ہیں‘ یہ گروپ لکی سیمنٹ‘ فضل ٹیکسٹائل‘ فیشن ٹیکسٹائل‘ لکی انرجی‘ گدون ٹیکسٹائل‘ یونس ٹیکسٹائل اور یونس انرجی جیسے بڑے کاروباری اداروں کا مالک ہے‘ یہ پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے اور سب سے زیادہ نوکریاں فراہم کرنے والے گروپوں میں بھی شمار ہوتا ہے لیکن احتساب کے ایک افسر نے اس یونس تبا کو بلا کر باہر بینچ پر بٹھا دیا‘ یہ کئی گھنٹے وہاں بیٹھے رہے‘ یونس تبا یہ ذلت برداشت نہ کر سکے اور بیمار پڑ گئے‘ یونس تبا کے چھوٹے بھائی محمد علی تبا کراچی کے چند صنعت کاروں کے ساتھ وزیراعظم سے ملے اور بھری محفل میں کہہ دیا ”ہم یہاں کام نہیں کر سکتا‘ ہم یہاں سے چلا جائے گا“ اور یہ وہ پکار تھی جس نے وزیراعظم کو نیب سے درخواست پر مجبور کر دیا‘ ہم اگر ملک کو بچانا اور چلانا چاہتے ہیں‘ ہم دل سے یہ چاہتے ہیں ہمارے سرمایہ کار آف شور کمپنیاں نہ بنائیں‘ یہ اپنا سرمایہ ملک سے باہر شفٹ نہ کریں‘ یہ پانامہ جیسے ملکوں میں پناہ نہ لیں اور یہ اپنے کاروبار دوبئی‘ ملائشیا‘ پولینڈ‘ امریکا‘ برطانیہ اور کینیڈا منتقل نہ کریں تو پھر ہمیں ان لوگوں کو عزت اور تحفظ دونوں دینے ہوں گے‘ ہم کب تک لوگوں کو ان کی ترقی کے پھندے سے لٹکاتے رہیں گے‘ ہم انہیں کب تک گلیوں میں گھسیٹتے رہیں گے‘ ہم کب تک تیس تیس ہزار لوگوں کو ملازمتیں دینے والوں کو بینچوں پر بٹھا کر ذلیل کرتے رہیں گے اور آخر میں چیف جسٹس سے درخواست کرتے رہیں گے ”آپ مہربانی فرما کر پانامہ لیکس کے مجرموں کو سزا دے دیں“ جناب آپ کس کس کو سزا دیں گے‘ آپ نے ملک میں رہنے ہی کس کو دیا ہے؟ ڈاکٹر ہوں یا ہسپتال کے مالکان یہ سب ملک سے باہر چلے گئے ہیں اور جو باقی بچے ہیں وہ پانامہ لیکس کے ان تازہ ترین جوتوں کے ذریعے صاف ہو جائیں گے اور پیچھے احتساب اور تحریک احتساب رہ جائے گی اور بس۔



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…