سوال در سوال

20  اپریل‬‮  2016

چلئے ہم میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری دونوں کو ہمیشہ کےلئے سیاست سے فارغ کر دیتے ہیں‘ ہم انہیں جیل میں ڈال دیتے ہیں یا پھر مستقل جلاوطن کر دیتے ہیں مگر یہاں پر دو سوال پیدا ہوتے ہیں‘ یہ کرے گا کون؟ کیا یہ کام عدلیہ کرے گی‘ اگر ہاں تو عدالت انہیں کس جرم میں جیل بھیجے گی اور انہیں کس قانون کے تحت جلا وطن کیا جائے گا؟ ہم فرض کر لیتے ہیں عدالتیں انہیں کرپشن‘ رشوت ستانی اور منی لانڈرنگ کے جرائم میں سزا دیتی ہیں‘ یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے‘ وہ مقدمات کہاں سے آئیں گے‘ ان کی تفتیش کون سے ادارے کریں گے اور ان اداروں کےلئے قانون سازی کون کرے گا؟ ہم اگر انہیں ان پرانے مقدموں میں سزا دیتے ہیں جو غلام اسحاق خان نے 1990ءاور 1993ءمیں قائم کئے تھے یا سیف الرحمن نے 1996-97ءمیں بنائے تھے یا پھر جنرل پرویز مشرف نے 1999ءمیں قائم کئے تھے تو سوال پیدا ہوتا ہے انہیں ان مقدموں میں سزا کیسے ہو سکتی ہے جن کا فیصلہ پچھلے پچیس برسوں میں نہیں ہو سکا‘ یہ کیسز سیاسی حکومتوں اور جنرل پرویز مشرف کی عسکری حکومتوں میں بھی منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکے ‘ جنرل پرویز مشرف اور ان کا باوردی نیب 8 سال کی مسلسل کوشش کے باوجود میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو سزا نہیں دے سکا تھا‘ یہ مقدمے کسی دور میں ثابت نہیں ہو سکے‘ یہ بالآخر سیاسی نکلے اور جنرل پرویز مشرف نے شریف فیملی کے ساتھ این آر او کر کے انہیں سعودی عرب بھجوادیا اور پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ دوسرا این آر او کیا اور انہیں 2007ءمیں پاکستان آنے کی اجازت دے دی‘ نتیجہ کیا نکلا؟ ہماری ملکی تاریخ میں آج تک جنرل پرویز مشرف سے زیادہ بااختیار حکمران اور افتخار محمد چودھری سے تگڑا چیف جسٹس نہیں آیا‘ جب یہ دونوں پورا زور لگانے کے باوجود ان دونوں کو سزا نہیں دے سکے‘ یہ ان دونوں خاندانوں کو جیل یا جلاوطن نہیں رکھ سکے تو موجودہ عدلیہ اور موجودہ سول حکومت یہ کام کیسے کرے گی؟ ہم فرض کر لیتے ہیں‘ یہ کام فوج سرانجام دیتی ہے‘ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے فوج یہ کام کس قانون‘ کس ضابطے کے تحت کرے گی کیونکہ آئین اور قانون فوج کو کوئی ایسا مینڈیٹ نہیں دیتا لہٰذا پھر فوج کے پاس مارشل لاءکے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا ‘ جنرل راحیل شریف آئیں‘ مارشل لاءلگائیں‘ آئین معطل کریں اور ان سب کو گرفتار کر لیں‘ یہ ہو سکتا ہے! لیکن سوال یہ ہے‘اس کے بعد کیا ہوگا؟ ملک میں اس سے پہلے چار مار شل لاءلگ چکے ہیں‘ چاروں مارشل لاﺅں کی بنیادیں کرپشن اور بلاامتیاز احتساب تھا لیکن بلاامتیاز احتساب اور کرپشن فری معاشرہ تو رہا ایک طرف ملکی سا لمیت اور استحکام کا ہی جنازہ نکل گیا‘ جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاﺅں کا اختتام مشرقی پاکستان کی قربانی پر ہوا‘ جنرل ضیاءالحق کا مارشل لاءافغان جہاد پر ختم ہوا‘ ملک جنرل ضیاءکے دور میں ہیروئن‘ کلاشنکوف‘ ملائیت‘ علیحدگی پسندی اور سیاسی کرپشن کے عفریت کا شکار ہوگیا‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ ذوالفقار علی بھٹو کے پاکستان کا جنرل ضیاءالحق کے پاکستان سے تقابل کر لیں‘ آپ کو دونوں میں زمین آسمان کا فرق ملے گا‘ پاکستان کی ساری موجودہ سیاسی قیادت بھی جنرل ضیاءالحق اور ان کے مارشل لاءکی باقیات ہے اور جنرل پرویز مشرف کا مارشل لاءخود کش دھماکوں‘ دہشت گردی کی پرائی جنگ‘ کراچی کی مافیا وار اور بلوچستان میں علیحدگی پسندی پر ختم ہوا‘ آپ ڈیٹا نکال کر دیکھ لیجئے‘ احتساب جنرل ایوب خان کے دور میں ہو سکا اور نہ ہی جنرل یحییٰ خان‘ جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف کے سنہری ادوار میں ہوا‘ اگر یہ جسارت نہ ہو تو ہمیں ماننا ہو گا یہ چاروں مارشل لاءملک میں نئے کرپٹ طبقات کی پیدائش کا باعث بنے‘ آپ صرف جنرل پرویز مشرف کے ساتھیوں کو دیکھ لیجئے‘ یہ لوگ نہ صرف کرپٹ تھے بلکہ یہ طوطا چشم‘ احسان فراموش اور بے وفا بھی تھے‘ آپ یاد کیجئے‘ وہ تمام لوگ جو جنرل پرویز مشرف کو سید پرویز مشرف کہتے تھے اور ان کی محفل میں ناچنا اعزاز کی بات سمجھتے تھے وہ ان کا اقتدار ختم ہونے کے بعد کہاں چلے گئے؟ وہ تمام لوگ اب ان سیاسی جماعتوں میں ہیں جنہیں یہ ماضی میں گالیاں دیتے تھے‘ یہ لوگ آج جنرل پرویز مشرف کا نام تک لینا گناہ سمجھتے ہیں‘ آپ یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھیے‘ جنرل پرویز مشرف کو چودھری پرویز الٰہی یا گورنر عشرت العباد نے ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی‘ یہ نیک کام اس چودھری نثار اور میاں نواز شریف نے کیا جنہیں یہ 9 سال دنیا بھر میں گھسیٹتے رہے لہٰذا پھر پانچواں مارشل لاءکون سا ایسا نیا پھل دے گا جس سے ہم پچھلے چار مارشل لاﺅں میں محروم رہے اور یہ کرپشن کے خاتمے اور بلامتیاز احتساب کا کون سا ایسا سسٹم بنا دے گا جو پچھلے چار مضبوط ترین جنرل نہیں بنا سکے۔
میں دل سے یہ سمجھتا ہوں ملک میں آج تک ”نیب“ سے تگڑا کوئی ادارہ نہیں بنا‘ یہ ادارہ 8 برس تک براہ راست فوج کے ماتحت رہا‘ اس کے سربراہ حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل ہوتے تھے اور تفتیش کا کام بھی فوجی افسر کرتے تھے لیکن یہ لوگ بھی کرپٹ سیاستدانوں کا احتساب نہیں کر سکے‘ یہ بھی میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی سیاسی نس بندی نہیں کر سکے‘اگر وہ لوگ یہ نہیں کر سکے تو پھر ملک کا کوئی نیا ادارہ یہ کام نہیں کر سکے گا‘ آپ کو اس کےلئے ایک ایسا آزاد اور خودمختار سسٹم بنانا ہو گا جس کی نظر میں کوئی گائے مقدس نہ ہو‘ جو ملک کے تمام اداروں اور شخصیات کو ایک نظر سے دیکھے اور وہ نظر قانون کی نظر ہو لیکن آپ کو اس سسٹم سے پہلے ملک کا سارا نظام کمپیوٹرائزڈ کر نا ہو گا‘ ملک کی تمام زمینیں کمپیوٹرائزڈ ہوں‘ ملک کے سارے سودے بینکوں کے ذریعے ہوں اور سو روپے سے لے کر ارب روپے تک کی ادائیگی کریڈٹ کارڈ یا چیک کے ذریعے کی جائے اور جس شخص کے گھر‘ دفتر یا جیب سے 50 ہزار روپے کے نوٹ نکل آئیں‘ اسے گرفتار کر لیا جائے لیکن یہ سرے دست ممکن نہیں‘ کیوں؟ کیونکہ پاکستان 18 سے 20 کروڑ لوگوں کا ملک ہے مگر ریاست کے پاس صرف 13 کروڑ لوگوں کا ڈیٹا ہے‘ گویا آج بھی چھ سے سات کروڑ لوگ نادرا کے ڈیٹا میں مسنگ ہیں‘ یہ لوگ آج بھی نادرا کے ریکارڈ سے غائب ہیں‘ ملک کے 96 فیصد تاجروں کا 90 فیصد کاروبار کیش پر چل رہا ہے‘ 20 کروڑ لوگوں میں سے صرف ساڑھے آٹھ لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں اور ان میں بھی 60 فیصد لوگ ملازم پیشہ ہیں‘ آپ جب کھلی آنکھوں کے سامنے پڑی یہ کرپشن نہیں روک پا رہے تو آپ ”آف شور کمپنیاں“ کیسے تلاش کریں گے‘ آپ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی دولت کا ”فرانزک آڈٹ“ کیسے کریں گے اور اگر آپ نے یہ کر بھی لیا تو پھر ہم قوم کو جنرل اسلم بیگ‘ جنرل اسد درانی‘ ایڈمرل منصور الحق‘ جنرل پرویز مشرف کے آف شور اکاﺅنٹس‘ این ایل سی کے جرنیلوں کے اکاﺅنٹس اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بھائیوں کی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کا کیا جواب دیں گے؟ ہمیں افغان وار اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اکاﺅنٹس بھی کھولنا پڑیں گے‘ ہمیں ان کا حساب بھی دینا ہو گا اور کیا ہم یہ حساب دے سکیں گے؟ اگر نہیں تو کیا پھر شریف اور بھٹوز کا احتساب بلاامتیاز سمجھا جائے گا‘ کیا قوم مطمئن ہو جائے گی؟۔
ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں فوج ملک کو بچانے کےلئے ایک بار پھر کڑوا گھونٹ بھر لیتی ہے‘ یہ اقتدار میں آ جاتی ہے‘ اب سوال یہ ہے‘ اس کے بعد کیا ہو گا؟ آصف علی زرداری ملک سے باہر ہیں اور میاں نواز شریف ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور پیچھے عمران خان‘ چودھری صاحبان‘ مولانا فضل الرحمن اور شیخ رشید رہ جاتے ہیں‘ کیا فوج دنیا بھر کی بدنامی‘ دنیا بھر کی مخالفت اس لئے مول لے گی کہ یہ اقتدار طشتری میں رکھے اور ان لوگوں کے حوالے کر دے‘ سوال یہ ہے اگر جنرل راحیل شریف صرف عمران خان کو وزیراعظم بنوانے کےلئے اتنا بڑا ایڈونچر کرتے ہیں‘ یہ صرف عمران خان کےلئے امریکا‘ یورپی یونین‘ روس اور چین کو ناراض کر دیتے ہیں‘ یہ پاکستان کی امداد بھی رکوا لیتے ہیں اور ملک میں جاری منصوبے بھی بند کرا لیتے ہیں‘ یہ سجا سجایا تخت عمران خان کے حوالے کرتے ہیں اور خود ریٹائر زندگی گزارتے ہیں تو فوج کو اس کا کیا فائدہ ہو گا‘ کیا یہ عقل مندی ہوگی؟ ہم فرض کر لیتے ہیں‘ یہ بھی ہو جاتا ہے‘ فوج اقتدار عمران خان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیتی ہے‘ اب سوال یہ ہے‘ یہ ہو گا کیسے؟ کیا فوج ایک بار پھر جنرل پرویز مشرف‘ جنرل ضیاءالحق اور جنرل ایوب خان کی طرح کنگز پارٹی بنوائے گی اور کیا یہ ملک کے تمام سیاسی لوٹوں کو جمع کر کے عمران خان کی جھولی میں ڈال دے گی؟ اگر ہاں تو پھر میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور عمران خان میں کیا فرق رہ جائے گا؟ اور وہ لوگ جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن چھوڑ کر عمران خان کا ساتھ دیں گے کیا وہ اپنی وفاداری کی تبدیلی کی قیمت وصول نہیں کریں گے؟ کیاپھر عمران خان کو بھی ایم کیو ایم‘ بلوچستان کی سیاسی جماعتوں‘ فاٹا کے ممبران‘ چودھری صاحبان اور مولانا فضل الرحمن کو ساتھ رکھنے کےلئے آصف علی زرداری نہیں بننا پڑے گا؟ اگر ہاں تو پھر تبدیلی کہاں جائے گی؟ اور دوسرا آپ اگر الیکشن کراتے ہیں تو آپ پنجاب سے مسلم لیگ ن اور سندھ سے پیپلز پارٹی‘ کے پی کے سے اے این پی اور جے یو آئی اور بلوچستان سے بلوچ جماعتوں کو انتخابی سیاست سے باہر کیسے رکھیں گے؟ آپ کو یقینا اس نیک کام کےلئے الیکشن میں دھاندلی کرانا پڑے گی لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے‘ دھاندلی سے بننے والی وہ حکومت کس حد تک نیک ہو گی‘ وہ کس حد تک بلاامتیاز احتساب کرے گی؟ وہ ملک سے کتنی کرپشن ختم کرا لے گی؟ اور ایک اور سوال ‘ملک میں اگر آزاد اور شفاف الیکشنوں کے بعد بھی پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جیت جاتی ہیں‘ اگر کے پی کے میں مذہبی جماعتیں مینڈیٹ لے لیتی ہیں اور کراچی کے عوام ایم کیو ایم کے حق میں ووٹ دے دیتے ہیں تو پھر آپ کیا کریں گے؟ کیا ملک میں ایک بار پھر 1970ءکی تاریخ دوہرائی جائے گی‘ کیا ایک بار پھر ”اُدھر تم اِدھر ہم“ ہو گا اور ایک اور سوال‘ آپ اگر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف دونوں پر پابندی لگا دیتے ہیں تو آپ بلاول بھٹو اور مریم نواز کو سیاست سے کیسے باہر رکھیں گے‘ یہ اگر سیاست میں رہیں گے تو پھر نواز شریف اور آصف علی زرداری بھی ہوں گے چنانچہ پھر ”انقلاب“ کا کیا ہوگا‘ ہمیں ہر قسم کی تبدیلی سے پہلے یہ ذہن میں رکھنا ہو گا کہ جس ملک میں بھٹو 1979ءمیں پھانسی لگنے کے بعد آج تک زندہ ہے‘ جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ان کی تصویر حکمرانی کر رہی ہے اور جس میں میاں نواز شریف نے سات سال کی جلاوطنی کے بعد واپس آ کر دو ماہ میں پنجاب میں حکومت بنا لی اور وفاق میں 125نشستیں حاصل کر لیں آپ اس ملک میں ان دونوں خاندانوں کو سیاست سے کیسے باہر رکھیں گے؟۔
آپ کل تک ان سوالوں کا جواب تلاش کریں۔



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…