دنیا کا جدید ترین مذہب

14  مارچ‬‮  2016

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں خریدتا تھا اور گلیوں میں آواز لگا کر بیچتا تھا‘ سارے دن کی محنت کے بعد صرف اتنے پیسے بچتے تھے جن سے یہ اپنے خاندان کو ایک وقت کی روٹی کھلا سکتا‘ وہ چودہ سال کا مہاجر بچہ اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتا تھا‘ آپ اگر بچوں کے والد ہیں‘ آپ کے بڑے بچے کی عمر محض چودہ سال ہے تو آپ گھر کے کسی کونے میں بیٹھ کر ایک لمحے کےلئے سوچئے آپ جنگ کی وجہ سے اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں‘ نئے ملک میں آپ کے پاس سر چھپانے کی جگہ ہے اور نہ ہی اپنے خاندان کو دو وقت کھانا کھلانے کی ہمت‘ آپ دن رات محنت مزدوری کرتے ہیں‘ آپ کے بچے محلے کے گندے اور فضول سے سکول میں پڑھتے ہیں‘ آپ ایک دن مزدوری کرتے ہوئے گر جاتے ہیں‘ آپ کا مالک آپ کو اٹھا کر ہسپتال لے جاتا ہے‘ آپ کا معائنہ ہوتا ہے اور ڈاکٹر آپ کو بتاتے ہیں‘ آپ کینسر کی آخری سٹیج پر ہیں‘ آپ گھبرا جاتے ہیں لیکن یہ گھبراہٹ بھی آپ اور آپ کے خاندان کے کام نہیں آتی‘ آپ چند دن ہسپتال میں رہ کر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں اور آپ کے خاندان کا سارا بوجھ آپ کے 14 سال کے بچے کے کندھوں پر آ گرتا ہے تو یہ بے چارہ کیا کرے گا‘ کیا اس کے پاس گلیوں میں آوازیں لگا کر گھڑیاں بیچنے کے سوا کوئی چارہ ہوگا؟ لی کاشنگ کے پاس بھی کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا چنانچہ اس نے گھڑیوں کا تھیلا اٹھایا اور اپنا خاندان پالنا شروع کر دیا‘ یہ باہمت انسان تھا اور قسمت ہمیشہ باہمت لوگوں کا ساتھ دیتی ہے‘ یہ چند ماہ میں گھڑیوں کے بزنس سے پلاسٹک کے کاروبار میں آ گیا اور پلاسٹک کے کاروبار نے اسے دیکھتے ہی دیکھتے ارب پتی بنا دیا لیکن یہ بہت بعد کی باتیں ہیں اور ہم آگے جانے سے پہلے چند لمحوں کےلئے ماضی میں جائیں گے‘ لی کاشنگ کے ماضی میں۔ یہ 1928ءمیں چین کے شہر شان تاﺅ میں پیدا ہوا‘ جاپان نے 1940ءمیں چین پر چڑھائی کر دی‘ یہ اپنے خاندان کے سا تھ ہانگ کانگ آ گیا‘ یہ لوگ شروع میں اپنے چچا کے گھر رہے‘ چچا دولت مند اور مغرور تھا‘ اس کا رویہ ان کے ساتھ ٹھیک نہیں تھا چنانچہ یہ لوگ بہت جلد اس کا گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے‘ والد نے محنت مزدوری شروع کی لیکن چند ماہ میں کینسر کی وجہ سے انتقال کر گیا‘ خاندان کی ذمہ داری لی کے کندھوں پر آ گئی‘ وہ یہ ذمہ داری نبھانے لگا‘ لی کاشنگ نے گھڑیاں بیچنے سے کام شروع کیا اور یہ بہت جلد پلاسٹک کے کاروبار میں آگیا‘ یہ ایک تجارتی کمپنی میں بھرتی ہو گیا‘ یہ محنت کرتا گیا اور ترقی پاتا گیا‘ یہ فارغ وقت میں پلاسٹک بنانے کی مشین چلاتا تھا‘ یہ مشین چلاتا چلاتا پورے پلانٹ کا کام سمجھ گیا‘ اس نے 1950ءمیں نوکری چھوڑی‘ عزیزوں‘ رشتے داروں اور دوستوں سے رقم ادھار لی اور پلاسٹک کے کھلونے بنانے کی چھوٹی سی فیکٹری لگا لی‘ یہ کام چل پڑا اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے کروڑوں میں کھیلنے لگا‘ اللہ تعالیٰ نے اسے ویژن دے رکھا تھا لہٰذا اس نے اس کامیابی کو چھوٹا سمجھا اور پلاسٹک کے پھول بنانے کا فیصلہ کر لیا‘ یہ دنیا میں پلاسٹک کے پھولوں کا بانی تھا‘ اس نے 1955ءمیں ہانگ کانگ میں پلاسٹک کے پھولوں کی پہلی فیکٹری لگائی اور چند برسوں میں پوری دنیا میں پھول سپلائی کرنے لگا‘ لی کاشنگ کی کمپنی 1960ءتک پلاسٹک کے پھولوں کی ایشیا کی سب سے بڑی کمپنی بن گئی‘ یہ کمپنی چل رہی تھی کہ ہانگ کانگ میں فسادات شروع ہو گئے‘ انگریز تاجر ان فسادات کی وجہ سے ہانگ کانگ سے نقل مکانی کرنے لگے‘ اس نقل مکانی کی وجہ سے پراپرٹی کی قیمتیں نیچے آ گئیں‘ لی کاشنگ سمجھ دار انسان ہے‘ اس نے اندازہ لگایا ”یہ ٹرمائل“ عارضی ہے‘ ہانگ کانگ بہت جلد اپنی پوزیشن پر واپس آ جائے گا چنانچہ یہ مستقبل کو ذہن میں رکھ کر رئیل سٹیٹ کی فیلڈ میں آ گیا‘ اس نے دھڑا دھڑ پراپرٹی خریدنا شروع کر دی‘ اس نے شراکت داری پر فلیٹس‘ اپارٹمنٹس اور گھر بنانا شروع کر دیئے‘ یہ چھوٹا سا بزنس آگے چل کر رئیل سٹیٹ کی ایشیا کی سب سے بڑی کمپنی بن گیا‘ اس نے اس بزنس کو چیونگ گونگ پرائیویٹ لمیٹڈ کا نام دیا اور یہ کمپنی دیکھتے ہی دیکھتے پورے ایشیا میں چھا گئی‘ لی کاشنگ نے آنے والے دنوں میں برٹش کمپنی ہٹ چیسن اور 1984ءمیں ہانگ کانگ لائٹ کمپنی کے میجر شیئرز بھی خرید لئے یوں اس کا کاروبار پھیلتا چلا گیا یہاں تک کہ یہ آج بینکاری‘ تعمیرات‘ رئیل سٹیٹ‘ پلاسٹک‘ موبائل فونز‘ سیٹلائیٹ ٹی وی‘ سیمنٹ‘ سپر مارکیٹس‘ ہوٹلز‘ ٹرانسپورٹیشن‘ ائیر پورٹس‘ سٹیل‘ انٹرنیٹ‘ بجلی اور انشورنس کی تین درجن کمپنیوں کا مالک ہے‘ اس کا کاروبار دنیا کے 55 ملکوں میں پھیلا ہوا ہے‘ اس کے ملازمین کی تعداد دو لاکھ 60 ہزار ہے اور یہ ہر سال اربوں ڈالر منافع کماتا ہے‘ یہ اس وقت دنیا کا گیارہواں امیر ترین شخص ہے‘ لی کاشنگ کی عمر اس وقت 83 سال ہے‘ یہ اس عمر میں بھی سب سے پہلے دفتر پہنچتا ہے اور آخر میں گھر واپس آتا ہے‘ یہ ملنے والے ہر شخص کو اپنی کلائی پر بندھی گھڑی دکھاتا ہے اور بڑے فخر سے بتاتا ہے ”یہ گھڑی میں نے 14 سال کی عمر میں خریدی تھی‘ یہ مجھے وقت کے ساتھ ساتھ میری اوقات بھی بتاتی رہتی ہے“ لی کاشنگ کا کہنا ہے ”میں خوش قسمت نہیں تھا چنانچہ میں نے محنت کو اپنی خوش قسمتی بنا لیا“۔
یہ لی کاشنگ کی کہانی تھی‘ دنیا کے گیارہویں امیر ترین شخص کی کہانی لیکن یہ کہانی ہمارا مقصد نہیں تھا‘ ہمارا مقصد اس کی فلاسفی ہے‘ لی کاشنگ نے 1980ءمیں ”لی کاشنگ فاﺅنڈیشن“ کی بنیاد رکھی‘ یہ فاﺅنڈیشن اب تک فلاح و بہبود پر ایک ارب ڈالر خرچ کر چکی ہے‘ یہ اس فاﺅنڈیشن کی وجہ سے ایشیا کا سب سے بڑا مخیر شخص کہلاتا ہے اور یہ اپنے کاروبار کی بجائے اپنی اس خوبی کو زیادہ بڑی کامیابی سمجھتا ہے‘ اس کا کہنا ہے ”میں خود کو اس دن کامیاب سمجھوں گا جس دن لوگ مجھے بزنس ٹائیکون کی بجائے فلنتھراپسٹ لی کاشنگ کہیں گے“ یہ فلنتھراپی کو اپنا مذہب بھی کہتا ہے اور لی کاشنگ کا یہ مذہب ہمارا اصل موضوع ہے‘ آپ کسی دن انٹرنیٹ پر بیٹھیں اور دنیا کے سو امیر ترین لوگوں کے پروفائل نکالیں‘ آپ ان پروفائل کا مطالعہ کریں‘ آپ کو ان سو امیر ترین لوگوں میں کوئی شخص مذہبی نہیں ملے گا‘ آپ اس کے بعد دنیا کے سو بااثر ترین لوگوں کی فہرست بھی نکالیں‘ آپ کو اس میں بھی پوپ اور داعش کے امیرالمومنین ابوبکرالبغدادی کے علاوہ کوئی مذہبی شخص نہیں ملے گا‘ آپ اس کے بعد دنیا کے دو ہزار امیر اور بااثر لوگوں کی فہرست نکالیں‘ آپ کو ان دو ہزار لوگوں میں صرف 11 لوگ مذہبی ملیں گے‘ یہ ایک حقیقت تھی‘ آپ اب دوسری حقیقت بھی ملاحظہ کیجئے‘ دنیا کے ایک ہزار نو سو 89 لوگ فلاح وبہبود کا کام کر رہے ہیں‘ یہ فلاح عامہ کے بڑے بڑے منصوبے چلا رہے ہیں‘ یہ پولیو ویکسین سے لے کر افریقہ کے قحط زدہ علاقوں تک خوراک کا بندوبست کر رہے ہیں‘ یہ لوگ مسجدوں میں جاتے ہیں‘ چرچوں میں‘ سیناگوگا میں‘ مندروں میں اور نہ ہی ٹیپملز میں‘ یہ انسانوں اور انسانیت کو اپنا مذہب سمجھتے ہیں اور یہ ہمہ وقت اس مذہب کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں جبکہ دنیا کے 11 بااثرمذہبی لوگ ویلفیئر کا کوئی کام نہیں کر رہے‘ دنیا کے ایک ہزار نو سو 89 بااثر لوگوں نے زندگی میں کوئی عبادت گاہ تعمیر نہیں کرائی اور دوسری طرف 11 مذہبی لوگوں نے کسی پیاسے کےلئے کنواں اور کسی بیمار کےلئے کوئی ڈسپنسری نہیں بنائی‘ یہ کیا ہے اور یہ کیوں ہے؟ دنیا پچھلے دس برس سے ان دو سوالوں کا جواب تلاش کر رہی ہے‘ دنیا جب تلاش کر کے تھک جاتی ہے تو یہ ایک لمبا سانس لیتی ہے اور مسکرا کر کہتی ہے‘ فلاح و بہبود دنیا کا جدید ترین مذہب ہے‘ یہ مذہب بڑی تیزی سے عبادتوں کے پرانے بت توڑتا چلا جا رہا ہے‘ وہ وقت اب زیادہ دور نہیں جب دنیا میں صرف ایک مذہب ہو گا اور اس مذہب کا نام ہو گا فلاح و بہبود‘ انسانوں کی فلاح اور انسانیت کی بہبود اور لی کاشنگ اور بل گیٹس جیسے لوگ اس مذہب کے دیوتا بھی ہوں گے اور سینٹ بھی“۔ میں اس فلاسفی سے اتفاق نہیں کرتا‘ میں سمجھتا ہوں‘ مذہب انسان کی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی‘ انسان کو ہر صورت خدا چاہیے‘ یہ خدا کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتا ہے‘ یہ اس معاملے میں اس قدر مجبور ہے کہ یہ نوگاڈ کو بھی گاڈ کا درجہ دے دیتا ہے‘ میں یہ بھی سمجھتا ہوں‘ مذہب کا نوے فیصد حصہ فلاح وبہبود پر مشتمل ہوتا ہے اور دس فیصد عبادات پر مگر ہم انسانوں نے بدقسمتی سے مذہب کے 99 فیصد حصے کو عبادات میں جھونک دیا اور فلاح وبہبود بل گیٹس اور لی کاشنگ جیسے دنیا داروں پر چھوڑ دی چنانچہ یہ لوگ دین داروں سے آگے نکلتے چلے جا رہے ہیں‘ یہ لوگ آج ہم مذہب پرستوں سے بہت آگے ہیں‘ یہ ہمارے مقابلے میں اللہ کے زیادہ نزدیک ہیں‘ اتنے نزدیک کہ اللہ تعالیٰ ان کے رزق اور عزت دونوں میں اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے‘ یہ لوگ زندگی میں کوئی عبادت گاہ نہیں بنا رہے لیکن یہ اس کے باوجود کامیاب ہیں جبکہ ہم لوگ عبادت گاہوں پر عبادت گاہیں تعمیر کرتے چلے جا رہے ہیں مگر ہم ناکام ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ بے بس انسان دنیا کی سب سے بڑی عبادت گاہ ہوتا ہے اور یہ لوگ اس حقیقت سے واقف ہو چکے ہیں جبکہ ہم لوگ زندہ عبادت گاہوں کو چھوڑ کر اینٹوں اور پتھروں میں خدا تلاش کر رہے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے لی کاشنگ جیسے لوگوں کا مذہب پھیل رہا ہے اور ہم سکڑتے چلے جا رہے ہیں‘ مجھے اکثر محسوس ہوتا ہے‘ ہم اگر اسی طرح سکڑتے رہے اور لی کاشنگ جیسے لوگ اسی طرح پھیلتے رہے تو وہ دن آتے دیر نہیں لگے گی جب خدا ان کے پاس چلا جائے گا اور ہمارے پاس صرف عبادت گاہیں رہ جائیں گی۔



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…