پاکستان کی بہبود کےلئے ایک تجویز

3  مارچ‬‮  2016

آپ نے ”دستر خوان“ کا نام سنا ہوگا‘ یہ ایک چھوٹا سا منصوبہ ہے‘ یہ منصوبہ2005ءمیں ملک ریاض نے شروع کیا‘ ملک صاحب نے جنرل ہاسپٹل لاہور میںمریضوں کو مفت کھانا دینے کا آغاز کیا‘ یہ پہلا دستر خوان تھا‘ دوسرا دسترخوان ایبٹ روڈ لاہور میں شروع ہوا اور اس کے بعد چل سو چل‘ یہ دستر خوان ریستوران کی طرح ہوتے ہیں‘ ہال میں میزیں اور کرسیاں لگی ہوتی ہیں‘ گرمیوں کےلئے اے سی اور سردیوں کےلئے ہیٹر کا بندوبست ہوتا ہے‘ واش روم بھی سٹینڈرڈ کے ہیں اور صفائی کا انتظام بھی شاندار ہے‘ شہر کا کوئی بھی باسی دن بارہ سے تین بجے لنچ اور شام سات سے دس بجے ڈنر کےلئے دستر خوان آ سکتا ہے‘ یہ میز پر بیٹھتا ہے اور ویٹر باقاعدہ اس کے پاس آ کر اسے کھانا دیتا ہے‘ یہ جتنی دیر چاہے اور جتنا چاہے کھانا کھاسکتا ہے‘ کوئی شخص اسے روک نہیں سکتا ‘ لاہور کے بعدلاڑکانہ‘ ملتان‘ کراچی‘ ڈی جی خان‘ اوکاڑہ اور راولپنڈی میں بھی دستر خوان بنے اور یہ سلسلہ دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر میں پھیل گیا‘ پاکستان میں اس وقت 132 دستر خوان ہیں‘ ملک ریاض اکیلا شخص 10برسوں سے ان 132 دستر خوانوں کے ذریعے روزانہ ایک لاکھ 52 ہزار لوگوں کو مفت کھانا فراہم کر رہا ہے‘ ملک ریاض کا دعویٰ ہے ”میں نے جس دن سے یہ کام شروع کیا‘ میرے کاروبار میں اس دن سے ہزار گنا اضافہ ہو گیا‘ میں نے فیصلہ کر رکھا ہے‘ میں انشاءاللہ یہ دستر خوان بند نہیں ہونے دوں گا“۔
آپ اس منصوبے کی دو خوبیاں ملاحظہ کیجئے‘آپ کو یاد ہوگا‘ میاں شہباز شریف نے ستمبر 2008ءمیں سرکاری خزانے سے سستی روٹی سکیم شروع کی‘ حکومت نے صوبے کے مختلف شہروں میں تنور بنوا دیئے‘پنجاب حکومت نے سستی روٹی منصوبے پر دس ارب روپے خرچ کئے لیکن کثیر سرمائے اور پوری حکومتی مشینری کے باوجود حکومت یہ منصوبہ صرف دو سال چلا سکی اور یہ سکیم ستمبر 2010ءمیں اپنے تنوروں سمیت بجھ گئی جبکہ ملک ریاض دس سال سے 132 دستر خوانوں پر دن میں دو بار مفت کھانا دے رہے ہیں اور ان کے دستر خوانوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے‘ یہ اس منصوبے کی پہلی خوبی ہے‘ آپ اب دوسری خوبی بھی ملاحظہ کیجئے‘ پنجاب فوڈ اتھارٹی اور عائشہ ممتاز نے پنجاب کے سینکڑوں ریستورانوں اور بیکریوں پر چھاپے مارے‘ صوبے بھر کے بیسیوں ریستورانوں کے کچن سیل ہوئے‘ ان میں فائیو سٹار ہوٹلز‘ ریستوران اور بیکریاں بھی شامل تھیں۔ یہ تمام ہوٹل اور بیکریاں کمرشل تھیں لیکن ان کمرشل اداروں نے حفظان صحت کے اصولوں کا خیال نہیں رکھا‘ ان کے کچن بند کر دیئے گئے‘ پنجاب فوڈ اتھارٹی ملک ریاض کے دستر خوانوں پر بھی گئی‘ اس نے ان کے کچن کا معائنہ بھی کیا مگر ان 132 دستر خوانوں میں سے کسی دستر خوان کو نوٹس جاری ہوا اور نہ ہی اسے سیل کیا گیا‘ کیوں؟اس کا جواب ہے کوالٹی! میرا خیال تھا‘ ملک ریاض دستر خوانوں پر خصوصی توجہ دیتے ہوں گے‘پاکستان جیسے ملک جس میں آپ ایک کلو ٹماٹر خریدنے جائیں تو ان میں سے آدھے ٹماٹر گلے سڑے نکل آتے ہیں‘ اس میں 132 دستر خوان چلانا آسان کام نہیں‘ آپ صرف اناج‘ سبزی اور گوشت کی خریداری کا اندازہ لگا لیجئے‘132 دستر خوانوں کےلئے ہر مہینے کروڑوں روپے کی خریداری ہوتی ہو گی‘ پھرخوراک کی تیاری‘ کچن اور ڈائننگ ہال کی صفائی اور پھر ان لوگوں کو عزت کے ساتھ کھانا فراہم کرنا جنہیں ریاست اور رشتے دار بھی دو وقت کا کھانا نہیں دے پاتے‘ یہ حقیقتاً توجہ طلب اور محنت کا کام ہے اور اس کےلئے وقت اور انرجی دونوں درکار ہیں‘میں نے یہ نقطہ ذہن میں رکھ کر ملک ریاض سے پوچھا ”آپ دستر خوانوں کے منصوبے کو روزانہ کتنا وقت دیتے ہیں“ ان کے جواب نے مجھے حیران کر دیا‘ ان کا کہنا تھا ”میں اس پورے منصوبے کو مہینے میں صرف آدھ گھنٹہ دیتا ہوں“ میں یہ جواب سن کر حیران رہ گیا‘ میں نے عرض کیا ”یہ ممکن نہیں؟ اتنا بڑا منصوبہ تیس دنوں میں آدھ گھنٹے سے نہیں چل سکتا“ ملک ریاض کا کہنا تھا ” یہ صرف دستر خوان نہیں ہیں‘ ہم 28 سکول بھی چلا رہے ہیں‘ ان میں 22 ہزار طالب علم پڑھتے ہیں‘ ہمارے سات جدید ترین ہسپتال بھی ہیں اور ان میں بھی ہزاروں مریضوں کا علاج ہوتا ہے‘ میں ان منصوبوں کو بھی اتنا ہی وقت دیتا ہوں کیونکہ منصوبوں کو چلنے کےلئے وقت نہیں‘ سسٹم چاہیے ہوتا ہے‘ میں نے دستر خوانوں کےلئے سسٹم بنا دیاہے‘ یہ دستر خوان اب میری وجہ سے نہیں‘ اس سسٹم کی وجہ سے چل رہے ہیں“ میں نے پوچھا ” آپ اگر خدانخواستہ نہیں رہتے تو؟“ ملک صاحب کا جواب تھا ”میں نے یہ سسٹم یہی سوچ کر بنایاتھا‘ میں اپنے تمام منصوبوں کو کم سے کم وقت دیتا ہوں‘ میں سمجھتا ہوں‘ میں اگر زیادہ وقت دوں گا تو میں ان کےلئے ناگزیر ہو جاﺅں گا اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا‘ میں جب نہیں رہوں گا تو یہ منصوبے بھی بند ہو جائیں گے“ میں نے ان سے کہا ”کیا آپ پاکستان کو اپناملک نہیں سمجھتے“ ان کا جواب تھا ”ملک ریاض پاکستان ہے“ میں نے کہا ”آپ پھر ملک کو ایسے سسٹم کیوں نہیں بنا کر دیتے“ ملک ریاض کا جواب تھا ”میں یہ چاہتا ہوں مگر مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتا‘ میں ہر حکومت‘ ہر حکمران کے پاس جاتا ہوں‘ میں اسے بتاتا ہوں‘ میں اکیلا شخص اگر ایک سال میں پورا پورا شہر بنا سکتا ہوں‘ میں اگر پورے شہر کا نظام چلا سکتا ہوں‘ میں اگر لاکھوں لوگوں کو بجلی‘ پانی‘ ہسپتال‘ سکول‘ صفائی اور سیکورٹی دے سکتا ہوں تو حکومت ہزاروں بیورو کریٹس اور کھربوں روپے کے بجٹ کے باوجود عوام کو یہ سہولتیں کیوں نہیں دے پاتی؟ میں اگر اپنے ٹاﺅنز کے تمام گھروں کی انشورنس کرا سکتا ہوں‘ میں اگر ان کےلئے مارکیٹیں بنا سکتا ہوں‘ میں اگر ان کو پوری سہولتوں کے ساتھ کلیئر پلاٹس دے سکتا ہوں اور میں اگر ان سے ”بائی لاز“ پر پابندی کرا سکتا ہوں تو حکومت کیوں نہیں کرا سکتی‘یہ کام سی ڈی اے‘ ایل ڈی اے اور کے ڈی اے کیوں نہیں کر سکتے‘ یہ لوگ مجھ سے اتفاق کرتے ہیں مگر یہ کام نہیں کرتے“۔
میں نے ان سے پوچھا ”آپ ملک کےلئے کیا کر سکتے ہیں“ ملک ریاض نے دو ٹوک لہجے میں جواب دیا ”میں ملک کےلئے پاکستان فنڈ بنا سکتا ہوں اور اس فنڈ کے ذریعے صحت‘ تعلیم اور صفائی کا بندوبست کر سکتا ہوں“ میں نے ان سے پوچھا ”کیسے؟“ ان کا جواب تھا ”حکومت یہ فنڈ قائم کرے‘یہ ملک بھر سے ایماندار‘ نیک اور اچھی ساکھ کے لوگوں کا بورڈ بنائے اور یہ فنڈ اس بورڈ کے حوالے کر دے‘ اس فنڈ کےلئے پہلا ڈونیشن میں دوں گا اور یہ کم از کم ایک ارب روپے ہو گا‘ میں اس کے بعد ملک بھر کے امرائ‘ تاجروں‘ صنعت کاروں اور جاگیرداروں کے پاس جاﺅں گا‘ میں ان سے بھی ڈونیشن لوں گا‘حکومت اس کے بعد کراچی سے لے کر پشاور تک ایک ایک کر کے ہسپتال‘ سکول اور صفائی کے محکمے ہمارے حوالے کرتی جائے‘ ہم ان اداروں کی صرف مینجمنٹ لیں ‘ ہم ان کے قانون اور قائدے نہ چھیڑیں‘ مجھے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اپنی محنت پر بھروسہ ہے‘ ہم چند برسوں میں بڑے شہروں کے ہسپتالوں‘ سکولوں اور صفائی کے محکموں کو ضرور ٹھیک کر دیں گے‘ ہم اگر کامیاب ہو جائیں تو ہم اس کے بعد عوام سے پاکستان فنڈ کےلئے ڈونیشن کی درخواست کریں ‘ مجھے یقین ہے‘ عوام ہمارا ساتھ دیں گے اور یوں ہم ملک کے کم از کم ایک دو شعبوں کو اپنے قدموں پر ضرور کھڑا کر دیں گے“ میں نے ان سے پوچھا ”لیکن جب پاکستان فنڈ بنے گا تو اس میں گھپلے بھی ہوں گے“ ملک ریاض کا کہنا تھا ” میں اسی لئے تجویز دے رہا ہوں‘ یہ فنڈ حکومت اپنے پاس رکھے اور نہ ہی ہمیں دے‘ یہ ایماندار اور اچھی ساکھ کے لوگوں کا بورڈ بنا دے اور یہ بورڈ اخراجات کا فیصلہ کرے“ میں نے ان سے پوچھا ”یہ فنڈ اگر کامیاب ہو گیا تو آپ لوگ اپنی سیاسی جماعت بنا لیں گے“ ملک ریاض نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ”ہم عوام کے سامنے حلف اٹھائیں گے‘ ہم میں سے کوئی شخص سیاست میں آئے گا اور نہ ہی کوئی سرکاری عہدہ قبول کرے گا‘ ہم باقی زندگی صرف عوام کی خدمت کریں گے‘ ملک کےلئے کام کریں گے“ میں نے پوچھا ”لیکن حکومت آپ پر کیوںاعتماد کرے“ ملک ریاض نے جواب دیا ”ہمارے حکمران دنیا بھر سے مدد مانگتے پھر رہے ہیں‘ یہ دنیا بھر کے اداروں کو پاکستان میں کام کی ترغیب دے رہے ہیں‘ یہ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور میٹرو کےلئے بھی ترکی کی مدد لے رہے ہیں‘یہ اگر پوری دنیا سے مدد مانگ سکتے ہیں تو یہ ہم پر اعتماد کیوں نہیں کرتے؟ یہ ہم سے کام کیوں نہیں لیتے؟ ہم اپنا پیسہ خود جمع کریں گے‘ ہم کام بھی خود کریں گے‘ حکومت بس ہمیں ہسپتال‘ سکول اور صفائی کےلئے علاقے دے دے‘ باقی سارا کام ہمارا ہے‘ ہم فیل ہو گئے تو حکومت کا کچھ نہیں جائے گا اور اگر کامیاب ہو گئے تو حکومت کی بلے بلے ہو جائے گی‘ حکومت ہر طرف سے فائدے میں رہے گی“۔
مجھے ملک ریاض کی تجویز میں جان لگتی ہے‘ حکومت کو ملک ریاض جیسے لوگوں کو بھی آزما کر دیکھ لینا چاہیے‘حکومت کو چاہیے یہ فنڈ قائم کرے‘ اس میں ڈونیشن آنے دے اور اس کے بعد کراچی‘ لاہور‘ پشاور اور کوئٹہ کے چند ہسپتال اور سکول ان کے حوالے کر دے‘ یہ لوگ اگر کامیاب ہو جاتے ہیں تو حکومت مزید ادارے ان کے حوالے کر دے‘ شاید یہ لوگ ملک میں گرامین بینک اور براک جیسے ادارے قائم کر د یں اور شاید یہ ادارے وہ کام کر دکھائیں جو ہمارا فیل نظام نہیں کر پا رہا‘ آخر یہ تجویز ماننے میں کیا حرج ہے‘ اس میں کیا خرابی ہے؟۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…