لمحہ فکریہ

8  دسمبر‬‮  2015

محمد حنیف عباسی راولپنڈی سے قومی اسمبلی کے لیے دوبار ایم این اے منتخب ہوئے، راولپنڈی کے این اے 55 اور این اے چھپن 1985ء سے شیخ رشید کے حلقے چلے آ رہے ہیں، یہ ان حلقوں کی ایک ایک گلی، ایک ایک مکان اور ایک ایک مکین سے واقف ہیں اور ان حلقوں کے تمام مکین، تمام مکان اور تمام گلیاں بھی شیخ رشید کی ’’دیکھیں جی ای ای ای‘‘ تک سے آگاہ ہیں لیکن پھر حنیف عباسی آئے اور انھوں نے شیخ رشید سے راولپنڈی چھین لیا۔
یہ درست ہے 2013ء کے عام انتخابات میں شیخ رشید این اے 55 سے جیت گئے اور عمران خان نے این اے 56 میں حنیف عباسی کو شکست دے دی لیکن یہ بھی حقیقت ہے، عوام ہارنے کے باوجود ان دونوں حلقوں کو حنیف عباسی کا حلقہ سمجھتے ہیں، شیخ رشید اور عمران خان دونوں ایم این اے ہونے کے باوجود راولپنڈی میں آزادانہ نہیں گھوم سکتے جب کہ حنیف عباسی ناکام سابق امیدوار ہیں لیکن یہ شہر کی گلیوں میں بھی پھرتے ہیں اور لوگ انھیں سر پر بھی بٹھاتے ہیں۔
راولپنڈی میں پانچ دسمبر کو بلدیاتی الیکشن ہوئے، یہ الیکشن پاکستان مسلم لیگ ن سویپ کر گئی، راولپنڈی کے عوام نے فرزند پاکستان شیخ رشید کو ووٹ دیے اور نہ ہی عمران خان کی تبدیلی کی تائید کی، عمران خان یقینا اس وقت اپنی ناکامی کی وجوہات تلاش کر رہے ہوں گے، میں زیادہ نہیں لیکن کم از کم راولپنڈی کے معاملے میں ان کی ’’رہنمائی‘‘ ضرور کر سکتا ہوں، پاکستان تحریک انصاف کو پورے ملک میں مار پڑی، اس مار کی بے شمار وجوہات ہوں گی لیکن راولپنڈی میں اس کی ایک ہی وجہ تھی اور وہ واحد وجہ تھی حنیف عباسی۔ راولپنڈی کی فتح پاکستان مسلم لیگ ن کی فتح نہیں، یہ دراصل حنیف عباسی کی فتح ہے۔
حنیف عباسی نے 2013ء میں الیکشن ہارنے کے بعد اپنا حلقہ نہیں چھوڑا تھا، یہ راولپنڈی میں مسلسل ترقیاتی کام کراتے رہے، آپ راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی مثال لے لیں، ملک بھر میں ایسا کوئی دوسرا ادارہ نہیں، آپ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی، ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ راولپنڈی، اسپورٹس کمپلیکس، چاندنی چوک فلائی اوور، سکستھ روڈ فلائی اوور اور مسلم ہائی اسکول، جامعہ ہائی اسکول اور وقار النساء کالج کے اسپورٹس گراؤنڈ کی مثالیں لے لیجیے اور آپ میٹرو بس پراجیکٹ کو بھی دیکھ لیجیے، آپ کو ہر منصوبے میں حنیف عباسی نظر آئے گا۔
یہ آپ کو گلیوں اور محلوں میں بھی دکھائی دے گا جب کہ اس کے مقابلے میں عمران خان نے 2013ء کا الیکشن جیتنے کے بعد اپنے حلقے میں قدم نہیں رکھا، یہ اور ان کے معاونین اڑھائی سال عوام کو دکھائی نہیں دیے، راولپنڈی میں پارٹی بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، دھڑے ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہیں چنانچہ عمران خان اپنے ذاتی حلقے سے بری طرح ہار گئے جب کہ حنیف عباسی نے اپنے عوامی رابطوں کی وجہ سے شہر میں کمال کر دیا، میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں یہ الیکشن حنیف عباسی کی ذاتی فتح اور عمران خان کی ذاتی شکست تھا۔
ملک بھر میں بلدیاتی الیکشن ختم ہو چکے ہیں، اب نتائج کو سمجھنے کی باری ہے چنانچہ اب ملک کی تین بڑی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو بیٹھ کر ٹھنڈے دماغ سے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا تجزیہ کرنا چاہیے، یہ تجزیہ ملک کی بقا کے لیے ضروری ہو گا، پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت کو پہل کرنی چاہیے، یہ درست ہے، ن لیگ نے پورا پنجاب اپنی جھولی میں ڈال لیا لیکن یہ کامیابی پارٹی اور ملک دونوں کی ناکامی ہے، پاکستان مسلم لیگ ن کو بلدیات میں پورے ملک کا نمایندہ ہونا چاہیے تھا لیکن ان الیکشنوں نے ثابت کر دیا یہ صرف پنجاب کی پارٹی ہے۔
یہ سندھ، بلوچستان اور کے پی کے میں آٹے کے نمک سے زیادہ نہیں اور یہ ن لیگ جیسی قومی پارٹی کی بے عزتی ہے، وفاقی وزراء کل سے راولپنڈی میں ہار کی بنیاد پر عمران خان سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں، یہ مطالبہ صرف عمران خان سے کیوں؟ وزیراعظم سے بھی یہ مطالبہ ہونا چاہیے کیونکہ الیکشنوں کے بعد وزیراعظم کی پارٹی بھی چاروں صوبوں کی نمایندہ پارٹی نہیں رہی، یہ بھی اب صرف پنجاب کی پارٹی ہے اور وزیراعظم تین صوبوں میں عوامی نمایندگی کھو چکے ہیں، الیکشنوں کے بعد یہ بھی طے ہو گیا، ملک میں اب کوئی ایسی پارٹی نہیں بچی جس کی جڑیں پورے ملک میں ہوں اور وہ ملک کی مختلف نسلی، لسانی اور ثقافتی اکائیوں کو جوڑ کر رکھ سکے اور یہ حقیقت ملکی بقا کے لیے خطرناک ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی بہت کچھ سوچنا ہوگا، اسے سوچنا ہو گا، اس نے اب بھٹو اور بے نظیر کی پارٹی بن کر رہنا ہے یا پھر آصف علی زرداری کی جماعت۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے تین بڑے ایشوز ہیں، پہلا ایشو کرپشن کی کہانیاں ہیں، پارٹی کو آصف علی زرداری سمیت ان تمام لیڈروں سے جان چھڑانا ہو گی جن پر کرپشن کے الزامات ہیں، پارٹی اگر کسی دن بیٹھ کر ساٹھ سال سے زائد عمر کے تمام انکلوں کو فارغ کر دے تو یہ پارٹی اور ملک دونوں کے لیے بہتر ہو گا، دوسرا ایشو قیادت کا کنفیوژن ہے، پارٹی ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکی، اس کے قائد آصف علی زرداری ہیں یا بلاول بھٹو، پارٹی یہ تک فیصلہ نہیں کر سکی بلاول کو زرداری کہنا چاہیے یا بھٹو، یہ کنفیوژن پارٹی کو ڈبوتا چلا جا رہا ہے چنانچہ پارٹی کو فوری طور پر اپنے قائد کا تعین کرنا چاہیے، پارٹی اب قیادت کا مزید کنفیوژن افورڈ نہیں کر سکتی اور تیسرا ایشو فاصلے ہیں۔
پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، یہ صوبہ جس کے ہاتھ میں ہوتا ہے، وہ ملک کا حکمران بنتا ہے، میاں نواز شریف کے پاس پنجاب سے قومی اسمبلی کی جنرل نشستیں131 ہیں جن میں گیارہ نشستیں آزادامیدواروں کی ہیں جو آزاد حیثیت میں جیت کرن لیگ میں شامل ہوئے، یہ ان سیٹوں کی بنیاد پر وزیراعظم ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے لیکن قائدین نے اس کے باوجود پنجاب ن لیگ کے لیے کھلا چھوڑ رکھا ہے، بلاول بھٹو کراچی میں بیٹھ کر پنجاب کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ زرداری صاحب دوبئی سے سندھ حکومت اور پارٹی دونوں کو چلا رہے ہیں چنانچہ پارٹی اور صوبائی حکومت دونوں کا بیڑا غرق ہو گیا۔ قائدین اگر مستقبل میں سیاست کرنا چاہتے ہیں تو پھر انھیں پنجاب میں بھی بیٹھنا ہو گا اور میاں برادران کی مخالفت بھی برداشت کرنا ہو گی۔
آپ کو بہرحال ’’اِدھر تم اور اُدھر ہم‘‘ اور افہام و تفہیم کی مصنوعی سیاست چھوڑنا ہوگی ورنہ دوسری صورت میں 2018ء کے الیکشنوں میں پاکستان پیپلز پارٹی سندھ سے بھی فارغ ہو جائے گی، یہ چھوٹی پارٹیوں کے ہاتھوں شکست کھا جائے گی، سندھ کی چھوٹی پارٹیاں مل کر حکومت بنائیں گی اور وہ کمزور حکومت سندھ کو دو حصوں میں تقسیم کر دے گی لہٰذا پارٹی نے آج ہی فیصلہ کرنا ہے ’’ابھی یا کبھی نہیں‘‘ پاکستان تحریک انصاف کو بھی دو بڑے فیصلے کرنا ہوں گے، پارٹی کی خامیاں ضمنی اور بلدیاتی الیکشنوں نے کھول کر سامنے رکھ دی ہیں، عمران خان جلسوں اور حلقوں کی سیاست کا فرق جان گئے ہیں۔
یہ سمجھ گئے ہیں فیس بک پر 250 پیج بنانے اور اڑھائی کروڑ ’’لائکس‘‘ اکٹھے کرنے سے حکومتیں نہیں بنتیں، حکومتوں کے لیے ووٹ چاہیے ہوتے ہیں اور ووٹوں کے لیے حمزہ شہباز شریف اور ووٹروں سے رابطے ضروری ہوتے ہیں لہٰذا عمران خان کے پاس اب دو آپشن بچے ہیں، یہ حمزہ شہباز شریف کو اپنے ساتھ ملا لیں یا پھر پارٹی کو گراس روٹ لیول تک ’’ری آرگنائز‘‘ کریں، میاں برادران کا کمال افرادی قوت ہے، یہ زیادہ لوگ ہیں، انھوں نے مختلف لوگوں کو مختلف ٹاسک دے رکھے ہیں، میاں نواز شریف پارٹی اور حکومت کے سربراہ ہیں، میاں شہباز شریف پنجاب چلا رہے ہیں۔
حسین نواز، حسن نواز اور سلمان شہباز بزنس دیکھتے ہیں، اسحاق ڈار وزارت خزانہ بھی دیکھ رہے ہیں اور دوسری وزارتوں کے لیے سمریاں بھی لکھ رہے ہیں، حمزہ شہباز حلقوں کی سیاست کے ایکسپرٹ ہیں، یہ ملک کے ایک ایک حلقے کی دائی ہیں اور مریم نواز میڈیا کو دیکھ رہی ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں دوسری طرف عمران خان ہی عمران خان ہیں، خان صاحب بے شک خاندان کو سیاست میں نہ لائیں لیکن یہ اپنے ساتھیوں، اپنے کارکنوں کو اپنا خاندان بنا سکتے ہیں، یہ مختلف کمیٹیاں بنائیں اور ہر کمیٹی کو اسی طرح اختیارات دیں جس طرح میاں برادران نے اپنے خاندان کے لوگوں کو دے رکھے ہیں، یقین کریں، یہ دو سال میں بازی پلٹ دیں گے کیونکہ ان کے پاس تین ایسے ہتھیار ہیں جن سے ن لیگ محروم ہے۔
ان پر کرپشن کا کوئی چارج نہیں، ان کا انٹرنیشنل ایکسپوژر میاں برادران سے سو گنا زیادہ ہے اور تین یہ عوام، میڈیا اور سوشل میڈیا تینوں میں پاپولر ہیں، انھوں نے بس الیکشن جیتنے کی تکنیکس سیکھنی ہیں اور بات ختم۔ عمران خان کا دوسرا فیصلہ خاموشی ہونی چاہیے، عمران خان اگر چھ ماہ خاموشی اختیار کر لیں تو میچ ان کے ہاتھ میں آ جائے گا، فوج اور میاں صاحب کے درمیان شدید اختلافات ہیں، یہ اختلافات فروری مارچ تک مزید کھل کر سامنے آ جائیں گے، عمران خان کے بیانات نے میاں صاحب کو محتاط بنا رکھا ہے، خان صاحب اگر خاموشی اختیار کر لیں تو میاں صاحب پورے اطمینان کے ساتھ وہ کر گزریں گے جو یہ کرنا چاہتے ہیں اور میاں صاحب اگر وہ کر گزرے تو پھر خالی گلیاں ہوں گی اور خان صاحب ہوں گے اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنی پالیسی ری وائز کرنا ہوگی۔
ریاست نے الطاف حسین کے بیانات پر پابندی لگائی، رینجرز کے آپریشن کو بھی 27 ماہ ہو چکے ہیں، ہم نے فوج کی نگرانی میں این اے 246 کا الیکشن بھی کرا لیا، ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر پر چھاپے بھی پڑ گئے اور عین بلدیاتی الیکشن کے دن ایم کیو ایم کی قیادت پر ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی ایف آئی آر بھی درج ہو گئی لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ ایم کیو ایم اس کے باوجود کراچی اور حیدرآباد میں جیت گئی، کیوں؟ آپ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچئے، جب وفاقی کابینہ میں ایک بھی مہاجر وزیر نہیں ہو گا، جب کابینہ میں ملک کے سب سے بڑے شہر کا صرف ایک وزیر مملکت ہو گا اور لوگ اس کے نام سے بھی واقف نہیں ہوں گے، جب وفاقی سیکریٹریٹ میں کوئی مہاجر سیکریٹری نہیں ہوگا، جب سندھ ملک کا واحد صوبہ ہو گا ۔
جس میں چالیس سال سے کوٹہ سسٹم چل رہا ہو گا اور جب ریاست ڈاکٹر عاصم حسین کو بکتر بند گاڑی میں نئے کپڑوں، خوشبو اور تازہ شیو کے ساتھ عدالت لائے گی اور ایم کیو ایم کے لیڈروں کو آنکھیں باندھ کر اور ہتھکڑیاں لگا کر عدالتوں میں گھسیٹا جائے گا تو آپ خود فیصلہ کیجیے، کراچی کے شہری کس کو ووٹ دیں گے؟ کیا مہاجر مہاجر کو ووٹ نہیں دے گا چنانچہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بھی اب اپنی پالیسیوں کا جائزہ لینا ہو گا۔
یہ بلدیاتی الیکشن محض بلدیاتی الیکشن نہیں ہیں، یہ لمحہ فکریہ ہیں، ایک ایسا لمحہ فکریہ جو ہجوموں کو معاشرے اور معاشروں کو ہجوم بناتے ہیں، ہمیں اس لمحہ فکریہ کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہو گا، ہم نے مستقبل میں معاشرہ بننا ہے یا پھر ہجوم۔ فیصلہ بہرحال آپ نے کرنا ہے، تین سیاسی جماعتوں اور ایک اسٹیبلشمنٹ نے۔



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…