ویک اپ کال

29  اکتوبر‬‮  2015

میرا پہلا رد عمل خوف تھا‘ میں خوف کے عالم میں کبھی ادھر بھاگتا تھا اور کبھی ادھر‘ مالی مجھے روکنے کی کوشش کر رہا تھا‘ وہ مجھے آوازیں بھی دے رہا تھا اور میرے پیچھے بھی بھاگ رہا تھا‘ میں گھر کے اندر جانے کی کوشش کر رہا تھا‘ میری بیوی اور بچے اندر تھے‘ میں انہیں جلد سے جلد باہر نکالنا چاہتا تھا لیکن راستے میں مالی کھڑا تھا‘ وہ مجھے بار بار پکڑ لیتا تھا‘ گھر رعشے کے مریض کی طرح کانپ رہا تھا‘ کھڑکیاں بج رہی تھیں‘ شیشے آوازیں دے رہے تھے‘ مکان کبھی دائیں جانب جھکتا تھا اور کبھی بائیں جانب‘ میں لان میں کھڑا تھا‘ میں کبھی مکان کو دیکھتا تھا‘ کبھی بچوں کو آوازیں دیتا تھا اور کبھی اندر کی جانب دوڑتا تھا‘ میرے پاﺅں کی مٹی کھسک رہی تھی‘ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا زمین ابھی پھٹ جائے گی اور میں زمین میں سو ڈیڑھ سو کلو میٹر نیچے دھنس جاﺅں گا‘ مجھے موت کا تقریباً یقین ہو چکا تھا‘ میں نے اپنی طرف سے آخری کلمہ اور آخری درود بھی پڑھ لیا‘ میں نے توبہ بھی کر لی اور اللہ تعالیٰ سے گناہوں اور حسرت گناہوں کی معافی بھی مانگ لی‘ یہ ایک منٹ اور بیس سیکنڈ کا زلزلہ میری زندگی کا مشکل ترین وقت تھا‘ مجھے اس وقت اپنے اور اپنے خاندان کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا‘ زمین نے سانس لی اور پوری کائنات تھم گئی‘ میرے بچے بھی باہر آ گئے‘ ہم شام تک اللہ کا شکر ادا کرتے رہے‘ آج زلزلے کو گزرے تین دن ہو چکے ہیں لیکن میں ابھی تک اپنی ٹانگوں میں ”وائبریشن“ محسوس کرتا ہوں‘ زلزلہ جا کر بھی میرے وجود سے نہیں گیا‘ یہ ابھی تک مجھے ہلا رہا ہے۔
زلزلے کے بعد دو نئے رد عمل سامنے آئے‘ پہلا رد عمل زندگی کی بے ثباتی تھا‘ انسان اللہ کی ایک ایسی ڈھیٹ مخلوق ہے جو اس کائنات میں خود کو اہم ترین‘ ناگزیر ترین اور حتمی ترین سمجھتا ہے‘ انسان کی پلاننگ میں ہر چیز شامل ہوتی ہے لیکن موت نہیں ہوتی‘ یہ ریٹائرمنٹ کے بارے میں سوچتا ہے اور نہ ہی مرنے کے بارے میں۔ انسان کا غرور‘ اس کی نفرت‘ اس کی حقارت اور اس کی دشمنیاں تک حتمی ہوتی ہیں‘ یہ سمجھتا ہے دنیا کے تمام لوگ مر جائیں گے‘ ساری عمارتیں‘ سارے محلات ڈھے جائیں گے لیکن مجھے موت آئے گی اور نہ ہی میری عمارت گرے گی لیکن جب قضا آتی ہے تو یہ اسے ایک اضافی سانس بھی نہیں دیتی‘ میں پچھلے دس سال سے روزانہ اخبارات میں سب سے پہلے گزشتہ روز مرنے والوں کی خبریں پڑھتا ہوں‘ میں روز یہ خبریں پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہوں‘ زندگی کا مزید ایک دن ملنے پر باری تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اور مجھے جس جس شخص نے تکلیف دی‘ میں صدق دل سے اس کو روز معاف کرتا ہوں اور میں نے جس جس شخص کو آزار پہنچایا‘ میں دل میں اس کا نام لے کر اس سے معافی مانگتا ہوں اور یہ فیصلہ کرتا ہوں‘ وہ شخص مجھے جب بھی اور جہاں بھی ملے گا میں سلام میں بھی پہل کروں گا اور اس سے معذرت بھی کروں گا‘ میں پچھلے چند برسوں سے یہ بھی محسوس کر رہا ہوں‘ ہم لوگ زندگی نہیں گزار رہے بلکہ زندگی ہمیں گزار رہی ہے‘ ہم صبح سے لے کر رات تک پاگل کتوں کی طرح دوڑتے ہیں‘ کیا یہ زندگی ہے؟ ہماری زندگی کا گزرا ہوا ہر لمحہ جب واپس نہیں آئے گا‘ ہم جب اس کرہ ارض پر صرف ایک بار اترے ہیں تو پھر ہم زندگی اور وقت جیسی نعمت ضائع کیوں کرتے ہیں‘ ہم اپنی‘ خالص اپنی زندگی کب گزاریں گے؟ یہ سوچ مجھے اندر باہر سے بدلتی جا رہی ہے‘ مجھے سیاحت‘ مطالعے‘ وظائف اور فلموں کا شوق ہے چنانچہ میں نے اپنی زندگی میں یہ چاروں عناصر بڑھا لئے ہیں‘ مجھے دو دن بھی مل جائیں تو میں ان جگہوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہوں جنہیں میں مرنے سے پہلے دیکھنا چاہتا ہوں‘ میں زندگی میں حضرت موسیٰ ؑ کے راستے پر بھی سفر کرنا چاہتا ہوں اور مارکو پولو اور ابن بطوطہ کے ٹریک پر بھی جانا چاہتا ہوں اور میں سکندر اعظم‘ چنگیز خان اور امیر تیمور کے راستوں کو بھی کھنگالنا چاہتا ہوں اور میں بیت المقدس میں بھی شکرانے کے دو نفل ادا کرنا چاہتا ہوں‘ مجھے یقین ہے اللہ تعالیٰ مجھے اتنی مہلت ضرور عنایت کرے گا‘ زلزلے کے بعد پہلے رد عمل نے میرے شوق کو مہمیز دے دی‘ میرا یہ یقین پختہ ہو گیا‘ زندگی بے اعتبار ہے چنانچہ جو کرنا ہے وہ آج ہی کرناہے‘ کل کا انتظار فضول ہے‘ اللہ تعالیٰ کے سسٹم میں کل نام کی کوئی چیز موجود نہیں‘ نہ گزرا ہوا کل اور نہ ہی آنے والا کل‘ بس آج ہی آج ہے اور دنیا کے ہر زندہ انسان کو اس آج کو ذہن میں رکھ کر زندگی گزارنی چاہیے‘ ہم اگر اپنے ہر دن کو آخری سمجھ کر گزارنا شروع کر دیں تو ہم زندگی کی بے شمار کوتاہیوں سے بچ جائیں‘ ہمارے پاس غیبت‘ غرور‘ لیگ پُلنگ‘ بدتمیزی‘ چوری‘ قتل‘ زنا اور دوسروں پر الزام تراشی کےلئے وقت ہی نہیں بچے گا‘ ہم شکر‘ توبہ اور وقت کا صحیح استعمال بھی کریں گے‘ میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے سمجھتا ہوں‘ ہم زندگی کے ہر دن کو آخری دن سمجھ لیں تو ہم کسی تبلیغ کے بغیر فوراً صراط مستقیم پر آ جائیں‘ ہم بندے بن جائیں۔
زلزلے کے بعد دوسرا رد عمل ریاستی تھا‘ ہم میں قومی سطح پر بحرانوں سے نبٹنے کی صلاحیت نہیں‘ ہم نے قوم کو ڈیزاسٹر مینجمنٹ نہیں سکھائی‘ دنیا میں سب سے زیادہ زلزلے جاپان میں آتے ہیں‘ وہاں سالانہ چھوٹے بڑے اوسطاً 15سو زلزلے آتے ہیں‘ جاپان نے زلزلوں سے نبٹنے کےلئے نہ صرف قوم کو تیار کر لیا بلکہ اس نے زلزلوں کا وارننگ سسٹم بھی ڈویلپ کر لیا‘ زلزلے کے دوران زمین میں دو قسم کی لہریں پیدا ہوتی ہیں‘ پہلی قسم کو ”پی ویوز“ کہتے ہیں‘ دوسری قسم ”ایس ویوز“ کہلاتی ہے‘ زلزلے کے وقت ”پی ویوز“ تیزی سے حرکت کرتی ہیں‘ یہ مہلک نہیں ہوتیں‘ مہلک ”ایس ویوز“ ہوتی ہیں‘ یہ تباہی پھیلا دیتی ہیں‘ جاپان نے ”پی ویوز“ کو مانیٹر کرنے والے سینسرز بنا لئے ہیں‘ یہ سینسرز ”پی ویوز“ کو محسوس کرتے ہیں‘ فوراً مرکزی دفتر کو اطلاع دیتے ہیں اور مرکزی سسٹم چند سیکنڈ میں پورے ملک میں خطرے کے سائرن بجا دیتا ہے یوں لوگ فوراً عمارتوں سے باہر آ جاتے ہیں‘ ٹریفک رک جاتی ہے‘ ٹرینیں سست ہو جاتی ہیں اور بجلی اور گیس کے مرکزی کنیکشنز کے سسٹم ایکٹو ہو جاتے ہیں‘ حکومت نے پوری قوم کو ہنگامی صورتحال سے نبٹنے کی ٹریننگ بھی دے دی ہے چنانچہ وہاں بچے تک ارلی وارننگ کے ساتھ محفوظ مقامات پر شفٹ ہو جاتے ہیں‘ یہ سسٹم اب انڈونیشیا‘ رومانیہ‘ تائیوان‘ میکسیکو اور کیلی فورنیا سمیت دنیا کے ان تمام ملکوں میں لگ چکا ہے جو فالٹ لائین پر موجود ہیں‘ ہم بھی اگر ذرا سی کوشش کریں تو جاپان ہمیں نہ صرف یہ سسٹم دے سکتا ہے بلکہ یہ ہمارے لوگوں کو ٹریننگ بھی دے دے گا‘ ہم یہ سسٹم لیں‘ ٹریننگ لیں اور یہ سسٹم بنا کر پورے ملک میں لگا دیں‘ اس سے ہم ہزاروں لاکھوں جانیں بچا لیں گے‘ آپ خود سوچئے جب لوگ سائرن کی آواز کے ساتھ گھروں سے باہر آ جائیں گے تو کتنی جانیں بچ جائیں گی۔
ہم اگر سبق سیکھنا چاہیں تو ہم 2005ءاور 2015ءکے زلزلوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں‘ ہمارے نظام میں بے شمار خامیاں ہیں‘ ہمارے سرکاری ادارے بھی اتنے ہی منقسم ہیں جتنے ہم آپس میں تقسیم ہیں‘ 2005ءکے زلزلے کے بعد بحالی کا کام ایرا‘ صوبائی حکومتوں‘ وفاق اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے درمیان الجھ کر رہ گیا‘ آپ نیو بالاکوٹ کی مثال لے لیجئے‘ چین نے پرانے بالاکوٹ کے ساتھ نیا شہر تعمیر کر دیا لیکن ہم آج تک اس شہر میں کوئی ایک خاندان آباد نہیں کر سکے‘ زلزلے کو دس سال گزر چکے ہیں لیکن آج بھی2243 سکول اور پچاس فیصد سرکاری ہسپتال اور عمارتیں تعمیر نہیں ہو سکیں‘ آج بھی ڈیڑھ لاکھ بچے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کر رہے ہیں‘ آپ دوسری اقوام کا کمال اور اپنا فکری اور عملی زوال دیکھ لیجئے‘ دنیا کے جس ملک نے بھی زلزلے کے بعد ہماری بحالی کا منصوبہ شروع کیا‘ وہ ملک منصوبہ مکمل کر کے واپس چلا گیا لیکن ہم نے جو بھی منصوبہ شروع کیا وہ آج تک ادھورا ہے‘ ہم دس سال سے 2005ءکے زلزلے کو رو رہے تھے لیکن 26 اکتوبر کو نیا زلزلہ آ گیا‘ اللہ کرم کرے‘ ہم نہ جانے کب تک اب ان متاثرین کو فائلوں میں لے کر پھرتے رہیں گے‘ ہم ان زلزلوں سے کچھ اور سیکھیں یا نہ سیکھیں لیکن ہم یہ ضرور سیکھ سکتے ہیں‘ ملک میں آئندہ کوئی منصوبہ ادھورا نہیں رہنا چاہیے‘ ہم کسی فائل کو اوپن نہیں چھوڑیں گے‘ کاش وزیراعظم فیصلہ کریں‘ ملک میں اب جو بھی فائل بنے گی اس فائل پر منصوبہ مکمل کرنے کی تاریخ بھی لکھی جائے گی اور اگر وہ منصوبہ یا وہ کام اس مدت میں مکمل نہیں ہوتا تو پھر تاخیر کے ذمہ داروں کا احتساب ہو گا‘ کاش وزیراعظم اعلان کر دیں ہم 26 اکتوبر 2015ءکے تمام متاثرین کو جون 2016ءتک بحال کر دیں گے‘ ملک میں 30 جون کے بعد کوئی متاثرہ شخص بچے گا اور نہ ہی ہی کوئی منصوبہ۔ کاش ہم فوری طور پر نئے بلڈنگ کوڈز بھی بنا دیں اور ملک کا کوئی ادارہ‘ کوئی شخص ان کوڈز کی خلاف ورزی کی جرا¿ت نہ کرے‘ ملک کی تمام تین منزلہ عمارتوں میں ایمرجنسی ایگزٹ بھی موجود ہوں اور آگ پر قابو پانے والے آلات بھی۔ ہم سکولوں کے بچوں کو زلزلے‘ سیلاب اور آتش زدگی سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کی ٹریننگ بھی دیں‘ تمام سرکاری ملازمین کےلئے بھی یہ ٹریننگ لازمی قرار دے دی جائے اور ان کے سرٹیفکیٹ باقاعدہ سروس فائل میں لگائے جائیں‘ جو سرکاری ملازم ٹریننگ نہ لے اسے پروموشن نہ دی جائے‘ پرائیویٹ اداروں کےلئے بھی”ایس او پیز“ بنائے جائیں اور ان سے ان پر عمل بھی کرایا جائے‘ یہ فیصلہ کر لیا جائے ملک میں کوئی شخص اپنی عمارت خود نہیں بنائے گا‘ تعمیرات کی باقاعدہ کمپنیاں بنائی جائیں اور یہ کمپنیاں فرش سے لے کر چھت تک تعمیر کریں‘ تعمیرات کےلئے آرکی ٹیکٹ بھی لازم قرار دے دیئے جائیں اور اگر کوئی عمارت ناقص پائی جائے تو تعمیراتی کمپنی اور آرکی ٹیکٹ کو بھاری جرمانہ کیاجائے‘ اس سے ملک میں روزگار کے نئے ذرائع بھی پیدا ہوں گے اور کوالٹی آف لیونگ اور انسانی سیکورٹی میں بھی اضافہ ہو گا۔
ہم لوگ اگر 26 اکتوبر کے دن کو ”ویک اپ“ کال سمجھ کر جاگ گئے تو یہ دن اس نئے پاکستان کا پہلا دن ثابت ہو گا جس کے انتظار میں قوم نے 70 سال جاگ کر گزار دیئے لیکن اگر ہم نے یہ دن بھی دوسرے ہزاروں دنوں کی طرح ضائع کر دیا تو پھر شاید قدرت ہمیں تیسری ویک اپ کال نہ دے اور ہم نیند ہی میں دنیا سے پرواز کر جائیں‘ پمپئی‘ موہن جو ڈڑو اور ہڑپہ کے ان لوگوں کی طرح جنہوں نے قدرت کی ویک اپ کالز پر جاگنے سے انکار کر دیا تھا۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…